فيض احمد اكرمي ندوي ارطغرال ڈارمے کو لیکر اِس وقت جو کشمکش چل رہی ہے اور جو کچھ اس کے حق میں یا مخالفت میں لکھا جا رہا ہے اس پر اگر نظر ڈالیں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسطرح کے تمام سیریل اُن طلباء کے حق میں مضر ہیں جن کے […]
ارطغرال ڈارمے کو لیکر اِس وقت جو کشمکش چل رہی ہے اور جو کچھ اس کے حق میں یا مخالفت میں لکھا جا رہا ہے اس پر اگر نظر ڈالیں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسطرح کے تمام سیریل اُن طلباء کے حق میں مضر ہیں جن کے سامنے اپنے اسلاف کی لکھی ہوئی صاف ستھری تاریخ موجود ہو اور وہ کتابوں کے مطالعہ کا ذوق و شوق بھی رکھتے ہوں ۔
سالہا سال اس ڈرامے کو دیکھ کر جو تاریخی معلومات حاصل ہوتی ہے یا جس جذبہ ایمان کو پیدا کرنے کی بات کی جاتی ہے اسے ایک طالبِ علم اپنے افکار و خیالات کو آلودہ کیے بغیر چند گھنٹے تاریخ کی صاف ستھری کتابوں کا مطالعہ کرکے بآسانی حاصل کرسکتا ہے ، کتنے ایسے دیندار ہیں جو کبھی فلموں سے دور تھے لیکن جیسے جیسے اسمارٹ فون عام ہوگیا تو اس میں چھوٹی چھوٹی کامیڈی ویڈیو ( جو کسی فلم کی کلپس ہوتی ) کا رواج ہونے لگا اور ہرخاص و عام اسے دیکھنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتا بالآخر ان کامیڈی ویڈیو سے دلچسپی اُنہیں فلموں تک لے گئی ، در اصل شیطان نیک لوگوں کو سیدھے نیکی سے برائی کی طرف نہیں لے آتا بلکہ اعلیٰ درجہ کی نیکی سے ادنى کی طرف لے آتا ہے پھر تنزل کی طرف لے جاتا ہے،
جہاں تک مفتی طارق مسعود صاحب کا فتویٰ ہے اپنی جگہ بالکل درست ہے ، اور مدارس سے وابستہ افراد کے لیے فتویٰ اور تقویٰ کا فرق سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے ، در اصل مفتی صاحب نے اس طبقہ کے لیے جو فلموں اور ڈراموں میں ڈوبا ہوا ہے اُن کے لیے أخف الضررين کی بات سامنے رکھتے ہوئے اُن کی تالیف قلب کی خاطر ( جیسے کہ صدقہ بھی تالیف قلب کے لیے کسی نو مسلم کو دینا جائز ہے ) کچھ گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے
جہاں تک مسئلہ ہے سیریل کو دیکھ کر اسلام قبول کرنے کا ، تو یہ کوئی تعجب ،کی بات نہیں ہے ، إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر ، تو پھر اگر کسی تاریخی ڈرامے کے ذریعہ کسی کو ہدایت نصیب ہو یا اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے تو یہ کسی چیز کے جواز یا عدم جواز کی دلیل نہیں ہو سکتی ، ابھی چند دنوں پہلے ایک مشہور غیر مسلم اسکالر مسٹر رام پونیانی کی ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ یہ ثابت کر رہے تھے کہ اسلام کسی طرح دہشت گردی کو فروغ نہیں دیتا اور دلیل کے طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا، " ایک فلم ہے "می نیم از خان" اس میں ہیرو نے یہ بات کہی کے قرآن کے پانچویں چیپٹر میں یہ لکھا ہے کہ کسی ناحق شخص کو قتل کرنا انسانیت کے قتل کے مترادف ہے " گویا کہ ایک قرآنی پیغام اُن کے پاس ایک فلم کے ذریعہ پہنچا ، تو کیا اب ان جیسی مثالوں سے فلم بینی کے جواز کی کوئی دلیل دی جا سکتی ہے ؟ خاص کر ایک ایسے طبقہ کے لیے جو ان فتنوں سے محفوظ رہ کر آیا ہو، وإثمهما أكبر من نفعهما "۔ کو اگر اچھی طرح سمجھیں تو شاید ان جیسی بحث کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔
آخر میں ایک بات یہ بھی سمجھنی ضروری ہے کہ اس سیریل کی مخالفت میں ایک دوسرا طبقہ بھی بڑے زور و شور سے لگا ہوا ہے جنہیں دراصل سلطنتِ عثمانیہ سے بیر ہے یا پھر ترک حکومت سے ، یعنی حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ والی بات ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس سیریل کو دیکھ کر عالمِ اسلام کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے دل و دماغ میں ترکوں کی عظمت کا سکّہ بیٹھ گیا ہے جس کو دیکھتے ہوۓ تُرک مخالف طاقتوں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں عالمِ اسلام کی قیادت پھر سے ترکوں کے ہاتھ چلی نہ جائے، اس لیے وہ اس ڈرامے کے خلاف اپنے چیلوں کے ذریعہ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے ، اس لیے جب ہم اپنے عزیزوں کو اس ڈرامے کو دیکھنے سے منع کریں تو اس بات کی بھی وضاحت ہو کہ اس ممانعت کہ مقصود ہرگز ترکوں کی تاریخ یا اُن کے کارناموں کا انکار نہیں ہے۔
وفوق كل ذي علم عليم. عسى الله أن يهدينا إلى سواء السبيل
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مضمون نگار جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاد ہیں
18 جون 2020 ادارہ فکر وخبر بھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں