ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
اردو زبان کا فروغ محض ایک زبان کا فروغ نہیں ہے بلکہ ہندوستانی تہذیب وثقافت اور کلچر کا فروغ ہے۔ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک تاریخ کا عنوان ہے۔ اردو دراصل سامراجی استعمار سے آزادی کا نام ہے۔ ارد و ہندوستانی تاریخ میں ”انقلاب“ کا استعارہ ہے۔ اردو زبان حلاوت وشیرینی کا سرچشمہ ہے۔ اردو سلیقہ مندی اور وفاشعاری کا ماخذ ہے۔ بقول شاعر
میں اردو کا مسافر ہوں یہی پہچان ہے میری
جہاں سے بھی گزرتا ہوں سلیقہ چھور جاتا ہوں
اردو ہندوستان کی اپنی زبان ہے۔ بھارت ہی اس کا اصل مولداور مسکن ہے۔ یہیں پر اس نے جنم لیا۔ یہیں پر یہ زبان پلی بڑھی۔ ہمالیہ کی آغوش میں یہ پروان چڑھی۔یہیں کی فضاؤں میں اس نے سانس لی۔ بھارت کی مٹی ہی اس کی غذا بنی۔ یہ گنگا اور جمنا کے آب رواں سے سیراب ہوئی۔
زبان کسی خاص مذہب اور قوم کی ملکیت نہیں ہے جو جس زبان کو بولتا ہے وہی زبان اس کی اپنی زبان کہلاتی ہے۔ کوئی بھی زبان اظہار مافی الضمیر کا ذریعہ ہوسکتی ہے۔ اردو مہاتما گاندھی کی زبان بھی تھی اور ابوالکلام آزاد کی بھی،شہید بھگت سنگھ بھی اردو زبان بولتے تھے اور سید اشفاق اللہ بھی، اردو حقیقت میں تمام ہندوستانیوں کی مشترک زبان ہے۔ ہر انصاف پسند شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اردو نے ہمارے ملک کے اتحادوسا لمیت اور بقا میں اہم رول ادا کیاہے۔ اس زبان میں حالی، اکبر، نظیر، آنند نرائن ملاّ، چکبست، رام پرشاد بسمل نے قومی گیت گائے۔اسی زبان میں جگن ناتھ آزاد اور گوپی چند نارنگ نے اتحاد وسا لمیت پر کتابیں لکھیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اردوزبان کے انقلاب زندہ باد کے نعرے نے ہندوستان کی گلی گلی کوچے کوچے میں دھوم مچائی۔ جب یہ نعرہ جذبہ آزادی سے معمور اور پرجوش لہجہ میں کسی ہندوستانی کی زبان سے ادا ہوتا تو سامراجی طاقت تھرتھرانے لگتی اور انگریزوں کو اپنی حکومت ڈگمگاتی ہوئی محسوس ہونے لگتی۔
جب مجاہدین آزادی را م پرشاد بسمل کا یہ شعر گنگناتے
سر فروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
تو انگریزوں پرلرزہ طاری ہوجاتا۔ آج بھی کوئی انجمن، کوئی بزم، کوئی تقریب شاید ایسی نہ ملے جس کی فضاؤں میں علامہ اقبالؒ کے اس قومی ترانے کی گونج نہ سنائی دیتی ہو۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اردو زبان کے فروغ، ترقی وتحفظ اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ یہ غلط فہمی دور کی جائے کہ یہ زبان صرف مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ صرف ان کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ چنانچہ آج بھی اردو ہندوستان کے ہر خطہ اور ہر صوبہ میں بولی جاتی ہے۔یہ کسی مخصوص علاقہ، برادری، قوم یا نسل کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کا دامن بڑا کشادہ ہے اور اس کا دل بہت بڑا ہے۔ اس میں ریشم جیسی نرمی اور شاخ تر جیسی لچک ہے چنانچہ یہ ہر ہندوستان کی زبان ہے۔ اردو کی خاص بات یہ ہے کہ اس زبان کے الفاظ ومحاورات کو اردو زبان ہی نے وضع کیا ہے۔
اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں ہمارے سماج کو اس لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے کہ اردو سے تلفظ درست ہوتا ہے اور گفتگو میں نکھار شیرینی اور اثر پذیری پیدا ہوتی ہے۔ اس سے آداب گفتگو میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے الفظ کی نشست وبرخاست سنگیت کا سماں پیدا کرتی ہے۔ اُس کے اشعار دل کے تاروں کو چھیڑ کر انسان کو من کی دنیا میں مست کردیتے ہیں۔جب کوئی اردو میں گفتگو کرتاہے تو ایسا لگتاہے جیسے اس کی زبان سے پھول بکھررہے ہیں اور کانوں میں رس گھل رہا ہے۔ اردو کے فروغ کے لیے ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ ہر اردو خواں اردو کو اپنے گھر،محلہ اور گردوپیش کی زبان بنائے۔ اپنے گھر اردو کا اخبار منگائے،اردو رسائل اور کتابیں خرید کر لائے۔ بہتر ہے ہر گھر میں ایک لائبریری ہو جس میں اردو کی منتخب کتابیں ہوں۔
ایک اہم اور ضروری اقدام یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو سے وابستہ کریں، انہیں اردو پڑھائیں، انہیں اردو کہانیاں اور لطیفے سنائیں۔ اردو نظمیں اور ترانے یاد کرائیں، ان سے اردو میں پہیلیاں بوجھیں۔
یہ بات پایہئ تحقیق کو پہنچ چکی ہے اور ماہرین تعلیم کا بھی یہ ماننا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہونی چاہیے، اس سے بچہ کی خوابیدہ صلاحیتیں جلد بروئے کار آتی ہیں۔ بچوں کی دلچسپی بڑھتی ہے۔ وہ تعلیم کو ایک بوجھ سمجھ کر اس کو ایک دلچسپ مشغلہ سمجھتے ہیں۔ اگر بچوں کو تعلیم غیر مادری زبان میں دی جائے تو وہ اس کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ اس لیے جن بچوں کی مادری زبان اردو ہے ان کو ابتدائی تعلیم اردو میڈیم سے دی جائے۔
اردو کے فروغ کے سلسلہ میں ہماری حکومتوں نے بہت سی اسکیمیں جاری کی ہیں۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ وابستگان اردو ان اسکیموں سے بھر پور استفادہ کریں۔
ہماری سماجی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے مکانوں، دکانوں، دفتروں کے سائن بورڈ ہندی اور انگلش کے ساتھ اردو میں بھی تیار کرائیں۔ مختلف تقاریب کے دعوت نامے اور وزیٹنگ کارڈ اردو میں بنوائیں۔
ایک موثر کام یہ بھی کیا جانا چاہیے کہ ہر اردو خواں اپنے گردوپیش کے دس افراد کو اردو پڑھانے کا نظم کریں خاص طور پر طلبہ وطالبات کو فوکس کیا جائے۔
اردو اسکولوں اور مدارس کے ذمہ دار اپنے اداروں کی بیرونی دیوار پر ایک بورڈ بنوائیں اور اس پر روزانہ اردو میں ”اقوال زریں“ لکھوانے کا اہتمام کریں۔ اس سلسلہ میں ”وال پینٹنگ“ کی مہم چلائی جاسکتی ہے۔
ہماری یہ بھی سماجی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خواتین کو نظر انداز نہ کریں، انہیں اردو ضرور پڑھائیں اور گھروں میں اردو بولنے کا ماحول بنائیں کیوں کہ خواتین کی گود میں نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ اگر خواتین اردو بولیں گی تو لازماً ان کے بچے اردو بولیں گے۔
اردو کے ماہر ین جب اپنے خیالات کا اظہار کریں خواہ تحریری ہو یا تقریری تو اردو ہی کو ذریعہ اظہار مافی الضمیر بنائیں، مضامین، تبصرے، تجزیے اردو ہی میں لکھیں اور تقریریں اردو میں کریں۔
اردو کو روز مرہ کی زبان بنانے کا اہتمام کیا جائے۔ اردو زبان ہی میں گفتگو کی جائے کیوں کہ جو زبان بولی جاتی ہے وہ زندہ رہتی ہے۔ جس زبان کا رشتہ سماج اور عملی زندگی سے کٹ جاتا ہے تو وہ زبان مردہ ہوکر رہ جاتی ہے۔
آج اردو ایک بین الاقوامی زبان بنتی جارہی ہے۔ یہ ہندوپاک کے علاوہ خلیجی ممالک، امریکہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں بولی،لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ بقول داغ
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
مختصر یہ کہ اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں جتنی بھی صورتیں ممکن ہوسکتی ہیں انہیں اپنانا چاہیے۔ خصوصاً آنے والی نسل اور گود میں پلنے والے بچوں کو اردو زبان سے آشنا کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے لب ولہجہ میں مٹھاس، ان کے اندازِ گفتگو میں کشش اور ان کی معاشرتی زندگی میں سلیقہ وفاشعاری آئے۔ بقول شاعر
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اُردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
آئیے اردو زبان کو اپنائیں، اسے فروغ دیں، اسے لکھیں پڑھیں اور عام کریں۔ میں بشیر بدر ؔکے اس شعر پر اپنی بات ختم کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
وہ عطر دان سا لہجہ میرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اُردو زبان کو خوشبو
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
۴۰دسمبر۲۲۰۲
میں اردو کا مسافر ہوں یہی پہچان ہے میری
جہاں سے بھی گزرتا ہوں سلیقہ چھور جاتا ہوں
اردو ہندوستان کی اپنی زبان ہے۔ بھارت ہی اس کا اصل مولداور مسکن ہے۔ یہیں پر اس نے جنم لیا۔ یہیں پر یہ زبان پلی بڑھی۔ ہمالیہ کی آغوش میں یہ پروان چڑھی۔یہیں کی فضاؤں میں اس نے سانس لی۔ بھارت کی مٹی ہی اس کی غذا بنی۔ یہ گنگا اور جمنا کے آب رواں سے سیراب ہوئی۔
زبان کسی خاص مذہب اور قوم کی ملکیت نہیں ہے جو جس زبان کو بولتا ہے وہی زبان اس کی اپنی زبان کہلاتی ہے۔ کوئی بھی زبان اظہار مافی الضمیر کا ذریعہ ہوسکتی ہے۔ اردو مہاتما گاندھی کی زبان بھی تھی اور ابوالکلام آزاد کی بھی،شہید بھگت سنگھ بھی اردو زبان بولتے تھے اور سید اشفاق اللہ بھی، اردو حقیقت میں تمام ہندوستانیوں کی مشترک زبان ہے۔ ہر انصاف پسند شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اردو نے ہمارے ملک کے اتحادوسا لمیت اور بقا میں اہم رول ادا کیاہے۔ اس زبان میں حالی، اکبر، نظیر، آنند نرائن ملاّ، چکبست، رام پرشاد بسمل نے قومی گیت گائے۔اسی زبان میں جگن ناتھ آزاد اور گوپی چند نارنگ نے اتحاد وسا لمیت پر کتابیں لکھیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اردوزبان کے انقلاب زندہ باد کے نعرے نے ہندوستان کی گلی گلی کوچے کوچے میں دھوم مچائی۔ جب یہ نعرہ جذبہ آزادی سے معمور اور پرجوش لہجہ میں کسی ہندوستانی کی زبان سے ادا ہوتا تو سامراجی طاقت تھرتھرانے لگتی اور انگریزوں کو اپنی حکومت ڈگمگاتی ہوئی محسوس ہونے لگتی۔
جب مجاہدین آزادی را م پرشاد بسمل کا یہ شعر گنگناتے
سر فروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
تو انگریزوں پرلرزہ طاری ہوجاتا۔ آج بھی کوئی انجمن، کوئی بزم، کوئی تقریب شاید ایسی نہ ملے جس کی فضاؤں میں علامہ اقبالؒ کے اس قومی ترانے کی گونج نہ سنائی دیتی ہو۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اردو زبان کے فروغ، ترقی وتحفظ اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ یہ غلط فہمی دور کی جائے کہ یہ زبان صرف مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ صرف ان کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ چنانچہ آج بھی اردو ہندوستان کے ہر خطہ اور ہر صوبہ میں بولی جاتی ہے۔یہ کسی مخصوص علاقہ، برادری، قوم یا نسل کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کا دامن بڑا کشادہ ہے اور اس کا دل بہت بڑا ہے۔ اس میں ریشم جیسی نرمی اور شاخ تر جیسی لچک ہے چنانچہ یہ ہر ہندوستان کی زبان ہے۔ اردو کی خاص بات یہ ہے کہ اس زبان کے الفاظ ومحاورات کو اردو زبان ہی نے وضع کیا ہے۔
اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں ہمارے سماج کو اس لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے کہ اردو سے تلفظ درست ہوتا ہے اور گفتگو میں نکھار شیرینی اور اثر پذیری پیدا ہوتی ہے۔ اس سے آداب گفتگو میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اس کے الفظ کی نشست وبرخاست سنگیت کا سماں پیدا کرتی ہے۔ اُس کے اشعار دل کے تاروں کو چھیڑ کر انسان کو من کی دنیا میں مست کردیتے ہیں۔جب کوئی اردو میں گفتگو کرتاہے تو ایسا لگتاہے جیسے اس کی زبان سے پھول بکھررہے ہیں اور کانوں میں رس گھل رہا ہے۔ اردو کے فروغ کے لیے ہماری سماجی ذمہ داری ہے کہ ہر اردو خواں اردو کو اپنے گھر،محلہ اور گردوپیش کی زبان بنائے۔ اپنے گھر اردو کا اخبار منگائے،اردو رسائل اور کتابیں خرید کر لائے۔ بہتر ہے ہر گھر میں ایک لائبریری ہو جس میں اردو کی منتخب کتابیں ہوں۔
ایک اہم اور ضروری اقدام یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو سے وابستہ کریں، انہیں اردو پڑھائیں، انہیں اردو کہانیاں اور لطیفے سنائیں۔ اردو نظمیں اور ترانے یاد کرائیں، ان سے اردو میں پہیلیاں بوجھیں۔
یہ بات پایہئ تحقیق کو پہنچ چکی ہے اور ماہرین تعلیم کا بھی یہ ماننا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہونی چاہیے، اس سے بچہ کی خوابیدہ صلاحیتیں جلد بروئے کار آتی ہیں۔ بچوں کی دلچسپی بڑھتی ہے۔ وہ تعلیم کو ایک بوجھ سمجھ کر اس کو ایک دلچسپ مشغلہ سمجھتے ہیں۔ اگر بچوں کو تعلیم غیر مادری زبان میں دی جائے تو وہ اس کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ اس لیے جن بچوں کی مادری زبان اردو ہے ان کو ابتدائی تعلیم اردو میڈیم سے دی جائے۔
اردو کے فروغ کے سلسلہ میں ہماری حکومتوں نے بہت سی اسکیمیں جاری کی ہیں۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ وابستگان اردو ان اسکیموں سے بھر پور استفادہ کریں۔
ہماری سماجی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے مکانوں، دکانوں، دفتروں کے سائن بورڈ ہندی اور انگلش کے ساتھ اردو میں بھی تیار کرائیں۔ مختلف تقاریب کے دعوت نامے اور وزیٹنگ کارڈ اردو میں بنوائیں۔
ایک موثر کام یہ بھی کیا جانا چاہیے کہ ہر اردو خواں اپنے گردوپیش کے دس افراد کو اردو پڑھانے کا نظم کریں خاص طور پر طلبہ وطالبات کو فوکس کیا جائے۔
اردو اسکولوں اور مدارس کے ذمہ دار اپنے اداروں کی بیرونی دیوار پر ایک بورڈ بنوائیں اور اس پر روزانہ اردو میں ”اقوال زریں“ لکھوانے کا اہتمام کریں۔ اس سلسلہ میں ”وال پینٹنگ“ کی مہم چلائی جاسکتی ہے۔
ہماری یہ بھی سماجی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خواتین کو نظر انداز نہ کریں، انہیں اردو ضرور پڑھائیں اور گھروں میں اردو بولنے کا ماحول بنائیں کیوں کہ خواتین کی گود میں نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ اگر خواتین اردو بولیں گی تو لازماً ان کے بچے اردو بولیں گے۔
اردو کے ماہر ین جب اپنے خیالات کا اظہار کریں خواہ تحریری ہو یا تقریری تو اردو ہی کو ذریعہ اظہار مافی الضمیر بنائیں، مضامین، تبصرے، تجزیے اردو ہی میں لکھیں اور تقریریں اردو میں کریں۔
اردو کو روز مرہ کی زبان بنانے کا اہتمام کیا جائے۔ اردو زبان ہی میں گفتگو کی جائے کیوں کہ جو زبان بولی جاتی ہے وہ زندہ رہتی ہے۔ جس زبان کا رشتہ سماج اور عملی زندگی سے کٹ جاتا ہے تو وہ زبان مردہ ہوکر رہ جاتی ہے۔
آج اردو ایک بین الاقوامی زبان بنتی جارہی ہے۔ یہ ہندوپاک کے علاوہ خلیجی ممالک، امریکہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں بولی،لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ بقول داغ
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
مختصر یہ کہ اردو زبان کے فروغ کے سلسلہ میں جتنی بھی صورتیں ممکن ہوسکتی ہیں انہیں اپنانا چاہیے۔ خصوصاً آنے والی نسل اور گود میں پلنے والے بچوں کو اردو زبان سے آشنا کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے لب ولہجہ میں مٹھاس، ان کے اندازِ گفتگو میں کشش اور ان کی معاشرتی زندگی میں سلیقہ وفاشعاری آئے۔ بقول شاعر
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اُردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
آئیے اردو زبان کو اپنائیں، اسے فروغ دیں، اسے لکھیں پڑھیں اور عام کریں۔ میں بشیر بدر ؔکے اس شعر پر اپنی بات ختم کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
وہ عطر دان سا لہجہ میرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اُردو زبان کو خوشبو
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
۴۰دسمبر۲۲۰۲
جواب دیں