اردو تحریک کے لیے مربوط لائحۂ عمل آج کی اولین ضرورت

عرض داشت

اردو زبان و ادب کے سینکڑوں سوال تشنۂ جواب، اردو تحریک کاروں میں بکھرائو اور باہمی ربط اور مفاہمت کی کمی

 

صفدر امام قادری

شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

 

اردو کو زبان اور ادب سے بڑھ کر ایک طرزِ حیات اور تہذیب و ثقافت کے ترجمان کے طور پر جگہ حاصل رہی ہے۔ گذشتہ پانچ سو برس کی تاریخ آنکھوں کے سامنے ہے کہ کس طرح دکن سے لے کر دہلی تک یہ زبان بااثر حلقے میں نہ صرف یہ کہ مقبول تھی بلکہ سیاست اور سماج یا نظامِ حکومت اور تعلیم میں اپنے وقار کے ساتھ بحال رہی ہے۔ کبھی اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں میں ہر قوم اور طبقے کے افراد کی شمولیت ہوتی تھی مگر سیاست اور تاریخ کے جبر میں ہندستان میں اس صورت حال میں تبدیلی آئی اور کم و بیش شمالی ہندستان کے مسلم طبقے کے بیچ یہ زبان بیش از بیش رائج ہے جب کہ غیر مسلم حضرات نے تقسیمِ ملک کے بعد بڑے پیمانے پر اس زبان سے ایک خود اختیار کردہ دوری بنالی۔ حکومتِ وقت کے قوانین بھی اس مشکل گھڑی میں اردو کی معاونت نہ کرسکے ۔ اب مٹھی بھر غیر مسلم طبقے میں یہ زبان بولی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مجموعی طور پر اردو کا حلقۂ اثر بہ تدریج کم ہوتا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بولنے اور سمجھنے کی حد تک ہندی زبان کے شامل اردو پورے ہندستان کے طول و عرض میں اب بھی سب سے بڑی اور بااثر زبان ہے۔

برطانوی عہدِ حکومت میں اردو کے تعلق سے پہلا مسئلہ فورٹ ولیم کالج کی لسانی پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوا جہاں اردو سے الگ ہندی کو باضابطہ ایک زبان کے طور پر پہچانے جانے کے لیے اصول گڑھے گئے۔ جس زبان میں عر بی فارسی کے الفاظ زیادہ ہوںگے ، وہ اردو کہی جائے گی اور جس میں سنسکرت اصل کے الفاظ زیادہ ہوںگے، وہ ہندی زبان قرار دی جائے گی۔ یہاں لسانیات کا وہ بنیادی اصول ہی نہیں آزمایا گیا کہ محض سرمایۂ الفاظ کی بنیاد پر کسی زبان کی شناخت نہیں کی جاسکتی ہے۔ حقیقت میں فورٹ ولیم کالج میں انگریزی سیاست کی بنیادیں استوار کرنے اور ہندو مسلم تفرقے کی لسانی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے اس کام کو انجام دیا گیا تھا۔ عہدِ سرسید میں اردو اور ہندی یا ہندو اور مسلمان کے سوالات خوب خوب اٹھے ۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، سرسید کے مکاتیب اور تہذیب الاخلاق کے شمارے اس بات کے گواہ ہیں کہ سرسید نے مختلف افراد کے سوالوں کے جواب دیے اور ان مباحث میں اردو کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔

سرسید کی وفات کے بعد ۱۹۰۳ء میں جب انجمن ترقی اردو کی داغ بیل پڑی اور شبلی نعمانی، منشی ذکاء اللہ، مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی، الطاف حسین حالی، محسن الملک وغیرہ وغیرہ نے اس تنظیم کو مستحکم کرنے میں اپنی بڑی خدمات پیش کیں۔ اس وقت تک ہندستان کی سطح پر اردو ہندی کے تنازعات انگریزوں کی مشتبہہ لسانی پالیس اور عوام میں پھیلائی جارہی منافرت کو انجمن ترقی اردو نے نشانہ بنایا۔ بعد کے دور میں مولوی عبدالحق، حیات اللہ انصاری، آل احمد سرور، آنند نرائن ملا، سید حامد ، غلام سرور، عبدالمغنی اور بڑی تعداد میں ایسے لوگ سامنے آئے جو عوامی سطح پر ان تنازعات کا جواب پیش کرتے تھے اور اردو کے نئے مسائل سے حکومت اور سماج کو آگاہ کرتے تھے۔ شاید اسی کا نتیجہ نکلا کہ گجرال کمیٹی بنی، مختلف صوبوں میں اردو اکیڈمیاں قائم ہوئیں اور ایک مدت کے بعد یہ بھی ممکن ہوسکا کہ چند صوبوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا۔ قومی سطح پر قومی اردو کونسل جیسا ادارہ بھی اردو عوام کے اسی دبائو کا نتیجہ رہا ہے۔ اس زمانے میں صوبائی کانفرنسیں ہوتی تھیں او رالگ الگ علاقوں کے لوگ دوسری جگہوں پر پہنچ کر اپنے مسائل بیان کرتے تھے مگر یہ سلسلہ بہت سارے اسباب کی وجہ سے اب تقریبا بند ساہے۔

آج اگر کوئی طالب علم ، استاد یا اردو خواں آبادی سے تعلق رکھنے والا فرد اپنے مسائل کے لیے کچھ کہنا چاہے تو مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے کہ وہاں جاکر ہم اپنی بات کہہ سکیں اور ہر طبقے تک ہماری بات سنی جاسکے۔ اس کا یہ بھی نتیجہ ہے کہ اردو کے سینکڑوں مسائل صوبوں سے لے کر مرکزی حکومت تک حل نہیں کیے جارہے ہیں اور اردو عوام میں بے چینی اور مایوسی کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ چند مثالوں سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔

۱۔ قومی اردو کونسل میں دو برسوں سے زیادہ مدت سے اس کی انتظامی کمیٹی نہیں ہے اور کسی طرح کی مالی معاونت اردو عوام تک پہنچانے میں یہ ادارہ قاصر ہے۔ یہ تعطل اور کتنے دنوں تک قائم رہے گا، کہا نہیں جاسکتا۔

۲۔ بہار اردو اکادمی ساڑھے چار برسوں سے معطل پڑی ہوئی ہے اور کسی طرح کی سرگرمی سے وہ دور پڑی ہوئی ہے۔

۳۔ اردو مشاورتی کمیٹی، حکومتِ بہار بھی ساڑھے چار برسوں سے تعطل کا شکار ہے اور حکومت نے اس کے لیے افراد کی نامزدگی آج تک نہیں کی ہے۔

۴۔ دہلی اردو اکیڈمی کبھی ہندستان کی سب سے فعال اکادمی ہوتی تھی، وہاں غیر اردو داں آدمی کو عہدے دار بنا دیا گیا جس کے سبب وہاں سے اردو کے جو بڑے کام ہوسکتے تھے، وہ رک گئے۔

۵۔ اتر پردیش اردو اکادمی میں بھی غیر اردو داں اور واجبی واقفیت رکھنے والے اشخاص کی سرگراہی میں جو کوششیں ہورہی ہیں، وہ ہندستان کے سب سے بڑے صوبے اور کسی زمانے میں سب سے سرگرم اکادمی کی شان کے خلاف ہے۔

۶۔ مہاراشٹر اردو اکادمی تو دہائیوں سے معطل پڑی ہوئی ہے، گذشتہ دنوں اس نے مشاعرے کا پروگرام کیا مگر سارا کارڈ مراٹھی میں شائع کیا گیا تھا۔

۷۔ مغربی بنگال اردو اکادمی جلسے جلوس اور مختلف اداروں کو رقومات تقسیم کرنے میں بہت حد تک فیاضی کا مظاہرہ کرتی ہے مگر نقطۂ نظر علاقائی رہتا ہے اور قومی سطح پر ابھر نے والے اردو کے مسئلوں سے اس کی دلچسپی دیکھی نہیں گئی۔

۸۔ راجستھان ، گجرات، کرناٹک جیسے صوبوں میں کبھی کبھی اردو اکادمی کچھ پروگرام کرلیتی ہے اور پھر اپنے خول میں بند ہوجاتی ہے۔

اردو کا سب سے بڑا مسئلہ فی زمانہ یہ ہے کہ زبان و ادب کے مسائل کو حکومت تک پہنچا کر ان کے حل کے لیے لائحۂ عمل تیار کرانے کے لیے کوئی پریشر گروپ، کوئی انجمن اور کوئی اجتماعی طبقہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اردو کے لوگ دلی ، لکھنؤ ، کلکتہ اور پٹنہ میں الگ الگ آہ و بکا میں مبتلا ہیں اور غم و غصے میں اصحابِ اقتدار سے شکوہ سنج ہیں۔ تعلیم و تدریس میں اردو کی اسامیوںکے گھٹنے کا مسئلہ سب سے سنگین ہے۔ اس کے لیے کوئی آواز موثر انداز میں نہیں اٹھاتا ۔ پرائمری سے لے کر یونی ورسٹی تک رفتہ رفتہ اردو کے لیے متعین جگہیں انتظامی فرقہ واریت کے سبب ہر جگہ کم ہوتی چلی گئیں۔ اس کے لیے حسبِ توفیق حکومتِ وقت سے گفتگو کرنے اور لوہا لینے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ سب سے مشکل تو یہ ہے کہ یونی ورسٹی اور کالج کے اردو اساتذہ جنھیں آج کے دور میں اس ٹیم کی قیادت کرنی تھی، وہ بھی تنخواہ دار ملازم بنے بیٹھے ہیں اور قومی سطح پر ایسی کسی تحریک کی گنجایشیں تلاش کرنے کے لیے وہ سرگرم نظر نہیں آتے۔ پہلے ہر صوبے میں انجمن ترقی اردو ہوتی تھی، مرکزی سطح پر بھی یہ ادارہ موثر خدمات انجام دے رہا تھا، اردو ایڈیٹرس کانفرنس ہوتی تھی، اردو رابطہ کمیٹی اورایکشن کمیٹیاں ہوتی تھیں، نفاذ کمیٹیاں بنائی جاتی تھی؛ کہیں سے کوئی بااثر آواز سمجھ میں نہیں آتی۔ کسی کا مطمحِ نظر قومی نہیں ہے۔سب نے اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنارکھی ہیں اور مسئلہ یہ ہے کہ سب اپنی اپنی انا میں کچھ ایسے مبتلا ہیں کہ ایک دوسرے سے مل کر کوئی بڑی پہل بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمارے سارے مسئلے قائم ہیں اور قومی سطح پر بہ تدریج پسپائی کا ماحول نظر آرہا ہے۔

اسکول سے لے کر یونی ورسٹی تک کے اردو اساتذہ کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کے مسئلوں کے حوالوں سے اردو عوام کو پلیٹ فارم مہیا کرائیں۔ درس و تدریس سے متعلق اساتذہ اور طلبا کے علاوہ بڑی تعداد میں شعرا، ادبا اور نقاد و محقق، صحافی اور اردو سے محبت کرنے والے تجارت پیشہ اور غیر مسلم افراد بھرے پڑے ہیں۔ تکنیکی علوم کے ماہر اور دوسرے مضامین میں کام کرنے والے ایسے افراد جن کی مادری زبان اردو ہے، ان سب کو جوڑ کر چھوٹی چھوٹی نشستوں سے بات شروع کرکے صوبائی سطح پر اگر ایک لچیلا نظام تیار کیا جائے تو ایسی کوئی مشکل نہیں آئے گی۔ ضلعوں سے صوبوں تک ایسی کانفرنسیں اور کنوینشن کیے جائیں اور دوسرے صوبوں میں جب ایسی نشست یا کانفرنس ہو تو وہاں اپنے نمایندوں کو بھیج کر ایک قومی رابطے کا ماحول تیار کریں۔ غیر اردو داں آبادی کو اردو سکھانے کے لیے ذاتی کوششوں سے ہر صوبے میں بیس پچیس اور پچاس مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں جہاں ایک اردو کتب خانہ بھی موجود رہے۔ رفتہ رفتہ یہ مرکز تنظیم کو سرگرم کرنے کے لیے کارآمد ہوسکتاہے۔ شرط یہ ہے کہ ذاتی مفاد، خود نمائی اور تھوڑے وقت کے جوش سے اوپر اٹھ کر ان کاموں کو مولوی عبدالحق کی طرح آج کے ماحول میں پھر سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں کام کرنے والے اور حالات سے بے اطمینانی میں مبتلا افراد بھرے پڑے ہیں، صرف باہمی رابطے اور کو آرڈینیشن کی ضرورت ہے۔ اردو کے اخبارات اور رسائل اپنے آپ ایسی تحریک کا ترجمان بن جائیںگے اور دیکھتے دیکھتے ہماری باتیں عوام سے لے کر اقتدارِ عالیہ تک بہ خوشی سنی جائیںگی۔

[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

انساں کے قول و فعل میں بڑھتا ہوا تضاد!

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :تازہ سروے کے پریشان کن نتائج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے