یا پھر اگر کسی سے کوئی بات جاننے کی کوشش کی جائے اور وہ شخص بولنے کے لیے تیار نہ ہو تو کہیں گے کہ اس نے تو اپنے ہونٹ سی لیے ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی اپنے ہونٹ سیتا ہے اور نہ ہی یہ قابل عمل ہے۔ جب خلاف توقع کوئی شخص کسی بڑی دشواری میں پھنس جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ جبکہ زمین کہیں نہیں جاتی وہیں رہتی مگر دشواری کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے ایسا کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری بہت سی مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ جیسے کہ معروف شاعر، ادیب اور صحافی حسن کمال نے ۳ مئی ۲۰۱۴ کو روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شائع اپنے کالم میں دہلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی کارکردگی کے بارے میں ایک جملہ لکھا ہے کہ ’’میڈیا کے جغادریوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ عام آدمی پارٹی صرف کانگریس کا نہیں بی جے پی کا بھی ’’دھڑن تختہ‘‘ کر ڈالے گی‘‘۔ اس قسم کی زبان مؤثر بھی ہوتی ہے اور خوبصورت بھی۔ وہ جہاں پڑھنے اور سننے میں لطف دیتی ہے وہیں مفہوم کی ادائیگی میں بھی بڑی تاثیر رکھتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب بامحاورہ زبان ہی چلتی تھی۔ ایک سے ایک صاحب طرز ادیب، انشاپرداز اور صحافی پیدا ہوتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد جس طرح ایک سازش کے تحت اردو زبان کو مٹانے کی مہم چلائی گئی اس نے واقعتاً اس زبان کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ آج اردو کے صحافی ہوں یا اساتذہ غلط اردو بولنے اور لکھنے میں انھیں کوئی عار نہیں ہے۔ حالانکہ زبان کی درستگی کے معاملے میں انہی دونوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہی دونوں اس زبان کے بگاڑ کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اگر کوئی شخص کوئی نئی زبان سیکھنا چاہتا ہے تو اس کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس زبان کا اخبار پڑھے۔ اس کی کم از کم دو وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اخبار میں آسان، عام فہم اور سلیس زبان استعمال ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اخبار میں کام کرنے والے اس زبان کی باریکیوں اور نزاکتوں سے کما حقہ واقف ہوتے ہیں۔ جہاں تک اردو اساتذہ کی بات ہے تو یونیورسٹیوں او رکالجوں میں زبان کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ادب پڑھانے والے اساتذہ مذکورہ زبان کے عالم اور ماہر ہوتے ہیں اور ان سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی پڑھائیں گے درست پڑھائیں گے اور طلبہ کو زبان و ادب کی تمام باریکیوں سے اس طرح واقف کرائیں گے کہ وہ درست زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔
لیکن اگر ہم موجودہ عہد میں ان دونوں شعبوں کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ صورت حال مایوس کن ہے۔ ایک بار اردو کے ایک بڑے اخبار کے ایک سینئر صحافی سے راقم الحروف نے پوچھا کہ آپ کا اخبار تو بند ہو گیا اب آپ اردو کا کون سا اخبار خریدتے اور پڑھتے ہیں؟ انھوں نے ایسا جواب دیا جو پہلے تو بہت برا لگا مگر بعد میں وہ صحیح لگنے لگا۔ انھوں نے کہا کہ میں اس وقت کوئی اردو اخبار نہیں خریدتا۔ میں نے کہا کہ زندگی بھر آپ اردو کی روٹی توڑتے رہے اور اب اردو اخبار ہی نہیں پڑھتے۔ انھوں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا کہ ارے بھائی ان اخباروں کو پڑھ کر کون اپنی زبان خراب کرے گا۔ اگرچہ یہ ایک بہت انتہا پسندانہ، مایوس کن اور الزامی جملہ ہے لیکن کسی نہ کسی حد تک حقیقت کے قریب بھی ہے۔
اگر ہم دہلی کے اخباروں کی بات کریں تو بعض اوقات بڑی کوفت ہوتی ہے۔ ہندی کے اخبار یا ہندی کے نیوز چینل غلط اردو استعمال کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اردو کے صحافی جب غلط زبان لکھتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ چند مثالیں دینا چاہوں گا۔ آجکل اخباروں میں ’’رحمِ مادر‘‘ کو عام طور پر ’’مادرِ رحم‘‘ لکھا جا رہا ہے اور دھڑلے سے لکھا جا رہا ہے۔ یہ کسی ایک اخبار کا معاملہ نہیں ہے۔ راقم نے کئی اخباروں میں اسی طرح لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک روزنامہ اخبار میں صفحہ اول پر کسی اہم شخصیت کے انتقال کی خبر شائع ہوئی۔ خبر میں لکھا گیا کہ ’’انھیں مختلف بیماریوں کے امراض کے تحت اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا‘‘۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ بقول اسیم کاویانی ’’لب دریا کے کنارے کا ساحل‘‘۔ اضافت لگانے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی دراز ہوتا رہا تو ’’شب برات کی رات‘‘ اور ’’آب زم زم کا پانی‘‘ جیسی ترکیبیں بھی شرم سے پانی پانی ہو جائیں گی۔ انہی اخباروں میں کبھی کبھی ’’میدانِ جنگ‘‘ کو ’’جنگِ میدان‘‘ بھی بنا دیا جاتا ہے۔ ایک بڑے روزنامہ اخبار کے رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ’’اس بات کا یقینی شبہ ہے‘‘۔ یعنی شبہ اپنی جگہ پر کافی نہیں تھا، اس میں بھی یقین ٹھونس دیا گیا۔ اسی اخبار میں ایک صحافی کی گرفتاری کو اس کے رہا ہو جانے کے بعد بھی ’’مبینہ گرفتاری‘‘ لکھا جاتا رہا۔ گویا لفظ مبینہ کہاں اور کیسے استعمال ہوگا اس بارے میں رپورٹر کو پتا نہیں۔ ایک بار ایک یونیورسٹی میں مرثیہ پر ایک سمینار ہوا۔ ایک اخبار میں اس تعلق سے شائع ہونے والی رپورٹ کی سرخی تھی ’’رسائی ادب پر سمینار‘‘۔ س والے رسائی اور ث والے رثائی میں گویا کوئی فرق نہیں ہے۔ مشکل الفاظ کا بگڑنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب آسان الفاظ بھی بگاڑ کر غلط طریقے سے لکھے جائیں تو پھر کیا کہا جائے۔ ایک اخبار میں پانی کی نکاسی کے لیے سڑک کے کنارے بنائی جانے والی ’’جالی‘‘ کو ’’جعلی‘‘ لکھا گیا۔ گویا اس قاعدہ کے مطابق ’’جعلی ڈاکٹر‘‘ کو ’’جالی ڈاکٹر‘‘ کہا جائے گا۔ لفظ صحیح کو بھی بعض اوقات غلط کر کے ’’سہی‘‘ لکھا جاتا ہے اور آڈیٹوریم کے معنی والے ’’ہال‘‘ کو ’’حال‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ ایک روزنامہ اخبار میں دہشت گردی سے متعلق ایک خبر میں جسٹس عقیل رضوی کو جسٹس اکھل رضوی لکھا گیا۔ شائد یہ خبر ہندی سے ہوتے ہوئے اردو میں آئی ہوگی۔ اسی لیے عقیل صاحب اکھل صاحب ہو گئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ’’چاند خاں‘‘ مختلف ملکوں کا سفر کرتے کرتے چ کے جیم او رجیم کے گاف میں بدلتے بدلتے مضحکہ خیز نام میں تبدیل ہو گئے۔
ہمارے بعض اخبارات دوسری زبانوں کے الفاظ کو استعمال کرنے میں اپنی فیاضی دکھاتے ہوئے پورا کا پورا جملہ دوسری زبان کا لکھ دیتے ہیں۔ کسی دوسری زبان کے الفاظ کو اپنی زبان میں استعمال کرنا معیوب نہیں لیکن یہ استعمال احسن طریقے سے ہونا چاہیے بھونڈے طریقے سے نہیں۔ دوسری زبانوں کے الفاظ کو حسن کاری کے ساتھ اور بر محل استعمال کرنے سے کبھی کبھار جو حسن پیدا ہو تا ہے وہ اپنی زبان کا لفظ بھی پیدا نہیں کر پاتا۔ سرسید نے اس فن کو دوسری زبانوں کے الفاظ کو اردو زبان میں پچی کاری قرار دیا ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ دوسری زبان کے لفظ کو اس لیے جوں کا توں رکھ دیا جاتا ہے کہ مترجم یا خبر نویس کو اس لفظ کا متبادل معلوم نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر وہ تھوڑی سی مشقت کرے تو متبادل سامنے موجود ہوتا ہے۔ ایک شہر میں فساد کے بعد کرفیو لگ گیا اور انتظامیہ نے دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکوم صادر کر دیا۔ ہندی کے ایک بڑے روزنامہ اخبار نے شہ سرخی لگائی ’’فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم‘‘۔ لیکن دہلی کے ایک بڑے اردو اخبار نے اس جملے کو یوں لکھا ’’شوٹ ایٹ سائٹ کا آرڈر‘‘۔ گویا اردو میں دیکھتے ہی گولی مار دینے کا وہ اثر فسادیوں پر نہیں ہوگا جو شوٹ کرنے کا ہوگا۔ پہلے اخبارات کے دفاتر میں اصطلاح سازی کا عمل بھی ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ مگر اب یہ سلسلہ تقریباً بند سا ہو گیا ہے۔ پرانی اصطلاحیں تو استعمال ہی نہیں ہوتیں یا ان کے استعمال کا سلیقہ ہی نہیں ہے تو پھر نئی اصطلاحیں کہاں سے بنائی جائیں گی۔ جب انگریزی اور ہندی کے مشکل الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا جاتا انھیں جوں کا توں رکھ دیا جاتا ہے تو پھر اصطلاحوں کا معاملہ تو کافی پیچیدہ ہے۔ حالانکہ اردو صحافیوں کو اپنی زبان کو صیقل کرنے کے لیے جہاں زبان کی اغلاط کو درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں اصطلاحات کے بارے میں بھی باخبر ہونا چاہیے۔
جب زبان زوال پذیر ہوتی ہے تو ہر سطح پر ہوتی ہے۔ بعض اردو اساتذہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ بعض اوقات تو ان سے بھی ایسی فاش غلطیاں ہوتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک پروگرام کے دوران ایک پروفیسر صاحب علامہ اقبال پر تقریر کر رہے تھے۔ انھوں نے بولتے بولتے کہا کہ ’’علامہ اقبال نے جو خامہ فُرسائی کی ہے‘‘۔ حالانکہ صحیح لفظ خامہ فَرسائی ہے۔ فرسائی فرسودہ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے گھسا پٹا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’یہ موضوع بہت فرسودہ ہو گیا ہے‘‘ یعنی گھسا پٹا ہو گیا ہے۔ اسی طرح خامہ فرسائی کا مطلب ہوتا ہے قلم گھسنا۔ یہ لفظ عام طور پر اپنے بارے میں خاکساری و انکساری کے اظہار کے طور پر بولا جاتا ہے۔ یعنی میں نے کام کیا کیا ہے بس قلم گھسا ہے۔ لیکن پروفیسر مذکور نے اسے علامہ اقبال پر فٹ کر دیا اور وہ بھی غلط طریقے سے۔ ایک دوسرے پروفیسر صحت کے موضوع پر اپنی تقریر میں ’’حفظانِ صحت‘‘ کو بار بار ’’حفظانُ صحت‘‘ بول رہے تھے۔ ’’آغاز شروع ہونا‘‘ تو اب عام ہو گیا ہے۔ کم پڑھے لکھے لوگ ایسا لکھتے ہی ہیں تعلیم یافتہ افراد بھی بعض اوقات اسی طرح گفتگو کرتے ہیں۔ اس وقت کوئی تعجب نہیں ہوگا جب اردو کا کوئی استاد بھی کہے یا لکھے کہ’’ فلاں کام کا آغاز شروع ہو گیا ہے‘‘۔ چلیے یہ تو دیکھ لیا کہ آغاز شروع ہو گیا ہے اب یہ دیکھنا رہ گیا ہے کہ اختتام کب ختم ہوگا۔ اردو کے ایک معروف کالم نگار جو خیر سے خود کو دانشور بھی سمجھتے ہیں ایک سمینار میں مقالہ پڑھتے پڑھتے خوب دلچسپ غلطی کر بیٹھے۔ انھوں نے کچھ شخصیات کے نام لیتے ہوئے کہا کہ ’’اس میدان میں جن لوگوں کی خدمات ہیں ان کے نام نوش فرمائیں‘‘۔ شائد انھوں نے گوش فرمائیں کہا ہو جو میں نے نوش فرمائیں سن لیا۔ خاکسار نے ان سمیت کئی اردو قلمکاروں کو ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ بولتے ہوئے سنا ہے۔ ہندی والے جس طرح اردو زبان کے بعض مشکل الفاظ کو آسان بنانے کے چکر میں ان کا تیا پانچہ کر دیتے ہیں اسی طرح ہم بھی کرنے لگتے ہیں۔ ایک لفظ ’’حواس باختہ‘‘ ہے۔باختہ کا مطلب ہے ہارا ہوا۔ حواس باختہ کا مطلب ہوا ہوش و حواس ہار جانے والا یا کھو دینے والا۔ ہندی والوں نے پہلے اسے ’’حواس فاختہ‘‘ کیا اور اس کے بعد ’’ہوش فاختہ‘‘ کر دیا۔ گویا خلیل خاں کی فاختہ کی مانند ہوش اڑ گئے۔ اگر ہندی والے حواس باختہ ہونے کو ’’ہوش فاختہ ہونا‘‘ لکھیں تو قابل معافی ہے۔ لیکن اگر اردو والے بھی حواس فاختہ کہیں تو معافی کے قابل نہیں۔
یہ کچھ مثالیں تھیں جو پیش کی گئیں۔ ورنہ اگر یہ کہا جائے کہ آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے تو شائد غلط نہیں ہوگا۔ جب زبان کا زوال ہوتا ہے تو ادب کے پروان چڑھنے کے باوجود زبان کا معیار پست ہوتا رہتا ہے۔ آج اردو ادب مائل بہ ترقی ہے مگر وہ ادیب پیدا ہونا آج بند ہو گئے جو پہلے کبھی ہوا کرتے تھے اور جن کے دم سے اردو زبان کا ادبی سرمایہ مالامال ہوتا رہا ہے۔ اردو کے کیسے کیسے صاحب طرز ادیب پیدا ہوئے ہیں۔ اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ ہندوستان کو آزاد ہوئے ابھی تو ایک صدی بھی نہیں گزری مگر اردو پر اس کے زوال کی جیسے کئی صدیاں گزر گئیں۔ چلیے مولوی محمد حسین آزاد پیدا نہ ہوں نہ سہی، کوئی ڈپٹی نذیر احمد سامنے نہ آئے تو کوئی بات نہیں، علامہ راشد الخیری کا دوبارہ جنم نہ ہو تو بھی قابل برداشت ہے، مولانا ابوالکلام آزاد دکھائی نہ دیں تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔ مگر اب ملا واحدی کیوں پیدا نہیں ہوتے۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کہاں چلے گئے۔ خواجہ حسن نظامی کہاں غائب ہو گئے۔ شاہد احمد دہلوی کہاں روپوش گئے۔ علی ہذا القیاس عام فہم زبان میں انتہائی مؤثر اور میٹھی زبان لکھنے والے ادیبوں کا کیوں ٹوٹا ہو گیا۔
اس مضمون میں جن اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے وہ محض چند مثالیں ہیں جسے مشکل زبان میں مشتِ از خروارے کہیں گے۔ ورنہ اگر اس قسم کی اغلاط کی فہرست سازی کی جائے تو وہ طولِ شبِ ہجراں سے مختصر نہیں ہوگی۔ اگر کوئی شخص دہلی کے صرف پانچ بڑے روزنامہ اخباروں کا ایک ماہ تک بالاستیعاب مطالعہ کرکے غلطیوں کی نشاندہی کر دے اور سمیناروں کے سیزن میں ادیبوں اور صحافیوں کے ایک درجن سمیناروں کی تمام نشستوں میں شرکت کر لے تو ’’اغلاط نامہ‘‘ نام کا ایک کتابچہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی زبان کی اپنی گرامر ہوتی ہے اور درست زبان لکھنے کا قاعدہ ہوتا ہے۔ درست اردو لکھنے کا بھی قاعدہ موجود ہے۔ مگر آج اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں پر بے قاعدگی مسلط ہو گئی ہے۔ آج غلط اردو لکھنے کے سلسلے میں جو آپا دھاپی ہے وہ بالکل کسی ایسے مصروف چوراہے جیسی ہے جہاں کی ریڈ لائٹ خراب ہو گئی ہو اور راہ گیر آگے نکل جانے کی جد و جہد میں ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے بعجلت تمام دائیں بائیں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
جواب دیں