مغل حکمراں جلال الدین محمداکبر نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ ’’رزم نامہ‘‘ کے عنوان سے کرایا تھا۔ اس نے رامائن کا ترجمہ بھی کرایا تھااورمصوری کرائی تھی۔ شاہجہاں کے صوفی منش شہزادے داراشکوہ کو بھی قدیم ہندوستانی کتب سے خاصا لگاؤ تھا اور اس نے بھی اس پہلو پر کئی کام کئے تھے۔ ہندووں کی مذہبی روایات اور مذہبی شخصیات پر جس قدرنظمیں مسلمان شاعروں نے لکھی ہیں خود ہندووں نے نہیں لکھی ہونگی اور ہماری اسی مشترکہ تہذیبی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں معروف شاعر انورؔ جلال پوری۔’’اردو شاعری میں گیتا‘‘ کے عنوان سے انھوں نے گیتا کے مفہوم کا منظوم ترجمہ انتہائی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ اس سے پہلے وہ قرآن کریم کے پارہ عم کا منظوم ترجمہ ’’توشۂ آخرت‘‘ کے عنوان سے کر چکے ہیں۔’’راہرو سے رہنما تک‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ خلفاء راشدین کی سیرت کو نظم کا جامہ پہنا چکے ہیں۔ ان کے سات شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں چار نعتیہ دیوان ہیں۔علاوہ ازیں اردو اور دیوناگری میں ان کی نثری کتب بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ اب گیتا کا منظوم ترجمہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے کام کی رفتار کتنی تیز ہے۔وہ انگلش کے لکچرر رہ چکے ہیں مگر شاعری اردو میں کرتے ہیں،فراقؔ کی طرح۔ وہ مشاعروں کے حوالے سے بھی اپنی اچھی شناخت رکھتے ہیں اور اب تک ہزاروں مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں شرکت کرچکے ہیں۔
شریمد بھگوت گیتا کے بہت سے ترجمے ہوئے ہیں،جن میں کچھ منثور ترجمے ہیں تو کچھ منظوم۔ اس سے پہلے اردو میں پندرہ منظوم ترجمے ہوچکے ہیں مگر انورؔ جلال پوری کا یہ ترجمہ اس لئے خاص ہے کہ یہ بے حدآسان زبان میں ہے اور اس کے لئے بحر متقارب کا انتخاب کیا گیا ہے جو مشکل اور دقیق الفاظ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے ترجمہ کے بجائے ترجمانی کی کوشش ہے اور گیتا کے اس فلسفے کو انتہائی آسان کردیا ہے جس کی تشریح میں اب تک لاکھوں صفحات سیاہ ہوچکے ہیں۔ایک مثال ملاحظہ ہو:
خدا ہے ازل سے ابد تک خدا
نہیں اس کی قدرت کی کچھ انتہا
وہ موجود ہے اور دیکھے سبھی
وہ اِک لمحے کو بھی نہ سوئے کبھی
لطافت بھی بے انتہا اس میں ہے
جو گیانی سنیں وہ صدا اس میں ہے
سبھی کچھ سنبھالے ہوئے ہے وہی
مگر وہ نہ آئے تصور میں بھی
وہ ظلمت نہیں نور ہی نور ہے
اندھیرا تو اس سے بہت دور ہے
اوپر درج مصرعوں میں جہاں سلاست وروانگی ہے وہیں زبان وہ بیان بھی بہت سادہ ہے۔ انھیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویاگیتا نہیں قرآن کا ترجمہ ہے کیونکہ جس توحید کا پیغام قرآن کریم میں دیا گیا ہے اسی کی تعلیم گیتا میں بھی ملتی ہے۔نورِ وحدت سے معمور ان اشعار کو ذرادیکھیں جو گیتا کا ہی ترجمہ ہیں:
فضاؤں میں جیسے ہوائیں رہیں
اسی طرح سب جیو مجھ میں بسیں
مقدس ہوں، پھل دینے والا ہوں میں
مجھے جان لے سب سے اعلا ہوں میں
مرے بیج سے سب جگت جنم لے
برہمانڈ کی سلطنت جنم لے
کئی دیوتاؤں میں اٹکے ہیں جو
مرے راستے سے بھی بھٹکے ہیں وہ
’’اردو شاعری میں گیتا‘‘ایک قابل مطالعہ کتاب ہے جس میں ۳۲۸صفحات ہیں، بہترین کاغذو طباعت کے باوجود اس کی قیمت صرف ۳۵۰ روپئے ہے،جو انور جلال پوری، فلیٹ نمبر170-Aایف آئی، ڈینگرااپارٹمنٹ، لال کنواں، لکھنو(یوپی) سے حاصل کی جاسکتی ہے۔موبائل نمبر09648004080پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
جواب دیں