ہم ان کالموں میں کئی برسوں سے اس سچائی کو اجاگر کررہے ہیں کہ اردو کی صحافتی زبان معیاری زبان سے الگ ہونے کا دکھ جھیلنے کی متحمل نہیں۔ادب میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اس کے قاری بھرپور گرفت کرتے ہیں۔ ادب کے قاری کا معاملہ یہ ہے کہ بقول رتن سنگھ دو چار بھی نہیں۔ ایک چھوٹی سی محفل میں ادھر کی تاریخ ساز کتابوں میں سے ایک کی چار جلدوں میں اشاعت کے بعد اس کی تقویم کا معاملہ زیر غور آیا تو پتا چلا کہ شریک محفل ایک قاری بھی ایسا نہیں تھا جس نے چاروں جلدیں پڑھی ہوں ۔ یعنی ادب کا قاری تقریبا نہیں ہے۔ ادب وہی پڑھتا ہے جو لکھتا ہے۔ یعنی قاری اور ادیب دونوں خانے مل کر ایک ہوگئے۔ ادیب بھی شاید اپنا ہی لکھا ہوا دوبارہ پڑھ لیتا ہے۔ لیکن ادب کی معیاری زبان آج بھی برقرار ہے۔ من مانی کی گنجائشیں کم ہیں اور اگر کسی نے ضابطے توڑ کر من مانی کی کوشش کی تو اسے جوابدہی کے کسی نرم یا گرم مرحلے سے گذرنا ضرور پڑتا ہے۔ لیکن صحافت اس سے بالا ہوگئی ۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا انقلاب چاہے ساری دنیا کیلئے فیض اور برکت لے کرآیا ہو ، اردو کی صحافت پر تو اس نے مظالم ہی ڈھائے ہیں۔ کوئی بھی شخص اردوابجد سے واقف ہے اور کمپیوٹر پر ڈیسک ٹاپ پرنٹنگ کی تربیت لے کر آیا اور اسے معلوم ہے کہ گوگل نے ایک ایپ ٹرانسلیٹ کا بنا رکھا ہے تو وہ صحافی ہوگیا۔ پورا رویہ اس قدر جارحانہ ہے کہ اگر انگلی اٹھانے کی کوشش کی جائے تو سرخ آنکھوں اور چڑھے ہوئے تیوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اردو اخبار سے ایڈیٹر کے غائب ہونے کا المیہ بہت پہلے رونما ہوچکا ۔ اردو اخبارات سے اردو کے بیانیہ کا خاتمہ بھی تقریبا ہوچکا ہے۔ اب ایک ایسی زبان مختلف خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ اخبارات کے صفحات پر پھیل رہی ہے جو چاہے جو ہو ، اردو نہیں۔ اس کی فکر کس کو ہونی چاہئے۔ اردو اخبارات کے مالک کو کہ مالکان کو؟ شاید ہے شاید نہیں۔ہے تو سدھار پر دھیان دینا ہوگا۔ نہیں تو فاتحہ خوانی کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ اردو کے کارگذار صحافیوں کو؟ ہے؟ کہیں کم کہیں زیادہ، لیکن ان کے اختیارات کم ہیں۔ اگر کوئی صحافی متن کی درستگی میں لگ جائے تو اسے اپنا وقت بھی ضائع کرنا ہوگا اور آپریٹر سے تصحیح کرانے پر الگ سے دھیان بھی دینا ہوگا کیونکہ مشینی اعتبار سے کرکشن لگانے کا یا تصحیح کرنے کا عمل لائن بدل جانے کی وجہ سے اور بھی تباہی خیز ہوجاتا ہے۔ اس کی فکر مندی اگر قاری کے پاس ہے تو وہ بالکل لا چار ہے۔ وہ وہی پڑھے گا تو اسے دیا جائے گا۔ یہ صورتحال اب تشویش ناک کہے جانے کے مرحلے سے بھی نکل گئی۔ اب خطرناک ہے، تباہی خیز ہے، اردو زبان کی چاشنی اور سلاست روانی اور پرگوئی پر ضرب لگ چکی۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اس زبان کو اس بری طرح سے اکیسویں صدی میں تباہ کررہے ہیں وہ سب کے سب مجرموں کے کٹہرے میں ہیں۔ کوئی گھر سے سیکھ کر نہیں آتا۔ سیکھتا ہے ۔ محنت کرتا ہے، کوشش کرتا ہے، پڑھتا ہے، پوچھتا ہے، معلوم کرتا ہے، یاد رکھتا ہے، نوٹ لیتا ہے اور ہر نئے دن بہتر ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس وقت گوگل ٹرانسلیٹ پر مبنی اردو صحافت کے کارندے پوری روایت کو بوٹ کی نوک پر رکھ کر سینہ تنے چل رہے ہیں۔ انہیں اس کی قطعی فکر نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ انہیں صرف یہ طنطنہ آگے بڑھا رہا ہے کہ وہ ہندی کی کسی ویب سائٹ سے خبریں سلیکٹ کرکے کنورٹر کے ذریعہ کنورٹ کر کے گوگل ٹرانسلیٹ پر لے جا کر اس کا متبادل نکال لانے کے اہل ہیں۔ انہیں نہ یہ بتایا گیا، نہ وہ جاننا چاہتے ہیں، نہ یہ سمجھنے کو تیار ہیں کہ مشین متبادل لفظ دے سکتی ہے، جملے کی ساخت نہیں بدل سکتی ، الفاظ کی جنس نہیں بدل سکتی، فعل کی جنس کا احترام نہیں کرسکتی اور بہت صورتوں میں ہندی کے بہت سارے لفظوں کو اردو میں منتقل بھی نہیں کرسکتی۔ اگر یہ بتایا جائے کہ تو ایک اچھے طالب علم کی حیثیت سے سیکھنے کی رویہ کی جگہ تیوریوں پر بل آتے ہیں جن کو جھیلنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اردو کی بہت قدیم تہذیبی روایتوں کو پس پشت ڈال کر غیر زبانوں کے قلمکاروں کا رویہ اپنا لیا جائے۔وکاس سنگھ کو ترقی سنگھ، کلپنا دیوی کو تصور دیوی، کوئلہ بلاک بل کو کوئلہ خان بل لکھنا خبروں کو ترسیل کرنا اور چھپ جانے کے مرحلے تک کسی تصحیح سے نہ گذارنا ایسا عمومی رویہ ہوگیا ہے کہ اگر اب بھی اردو زبان اور ادب کی سربلندی کیلئے فکر مند لوگ کھڑے نہیں ہوئے تو چند ہفتوں میں یا چند مہینوں میں ایک ایسی زبان ٹیکنالوجی ، سہولت، جہل اور لالچ کے آمیزہ سے تیار ہو کر سامنے آجائے گی۔ جو اردو والوں کو اجنبی لگے گی اور اردو سے نابلد افراد کو آج کی معیاری ترقی یافتہ زبان محسوس ہوگی۔یہ مرحلہ تشویش اور فکر مندی کا ہے۔ یہ مرحلہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کا ہے۔ یہ مرحلہ فرزندان اردو کے متحد ہو کر سوچنے کا ہے کہ سہل پسندی کے رتھ پر چل کر آنے والی یہ بھیانک ہلاکت خیز زبان کیسے اردو کی معیاری زبان سے الگ کی جائے ۔ اس وقت نہ جاگے تو کبھی نہیں جاگیں گے۔
جواب دیں