یہ درست ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اردو ایڈیٹروں کا جس میں زیادہ تر اپنے اخبارات کے مالکان بھی ہیں اصل زور سرکاری اشتہارات پر رہا لیکن اس میں یہ نئی بات بھی شامل رہی کہ سنجیدگی اور باقاعدگی سے نکلنے والے اخباروں کے ایڈیٹروں اور مالکوں نے اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں کواپناخاص نشانہ بنایا۔ یہ کالی بھیڑیں ایک دو نہیں بلکہ آٹھ آٹھ دس دس اخبارات کا ٹائیٹل حاصل کئے ہوئے ہیں اور محض ماسٹر ہیڈ تبدیل کرکے سارے اخبارات ایک ہی پریس سے چھپواکر قانونی خانہ پری کرتے ہیں اور سرکاری اشتہارات ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ان اشتہاروں کے حصول کے لئے وہ مرکزی حکومت کی ایجنسی DAVPاور ریاستی محکمہ اطلاعات و نشریات کے عملے کو 50تا60فیصدی کمیشن دے دیتے ہیں ظاہر سی بات ہے کہ جو اخبارات سنجیدگی اور باقاعدگی سے نکل رہے ہیں اور جنہیں تمام قانونی ضروریات بھی پوری کرنی ہیں اور عملہ کو تنخواہ بھی دینا ہوتی ہے وہ اتنا لمبا کمیشن نہیں دے سکتے نتیجتاً انہیں زبردست مالی مشکلات کاسامنا کرناپڑتاہے ۔ اجلاس میں یہ مطالبہ زور شور سے اٹھاکہ ایسے فائلنگ والے اخبارات اور ان فرضی صحافیوں خصوصاً ایڈیٹروں کی شناخت کی جائے جو اردو کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں اور اخباروں کے ایڈیٹر و منظور شدہ صحافی بن کر تمام مراعات حاصل کرتے ہیں اور ان کے اخباروں کے اصل صحافی معمولی تنخواہ اور بغیر کسی سہولیت کے کام کرتے ہیں ۔بزرگ صحافی وید بھسین صاحب نے تجویز پیش کی کہ ایڈیٹر کے طور پر منظوری تبھی دی جائے جب اس صحافی کو اس زبان کی صحافت کا کم از کم 20سال کا تجربہ ہو ۔ اگرچہ یہ تجویز ابھی ٹھوس شکل نہیں لے سکی ہے کہ ایسے اخباروں اور صحافیوں کے شناخت کیسے ہو لیکن کالی بھیڑوں کا معاملہ اس سے پہلے کبھی اتنی زور شور سے نہیں اٹھا جتنا اس بار اٹھا اور امید ہے حکومت اور خود اردو صحافتی برادری اس مرض کا کوئی علاج ضرور تلاش کرے گی ۔
اس کا نفرنس میں پہلی بار اردو کے تربیت یافتہ صحافیوں کی شدید کمی کا معاملہ بھی زور شور سے اٹھا ان کی تربیت کے سلسلہ میں وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری نے انڈین انسٹی ٹیو ٹ آف ماس کمیونیکیشن (IIMC)میں ہندی انگریزی کے ساتھ اردو کے صحافیوں کی تربیت کاسلسلہ شروع کرنے کا وعدہ بھی کیا اور اسی شام سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے IIMCکے چیئرمین ادے کمار سے منتیش تیواری کے وعدے کے حوالے سے گفتگو بھی کی اور انہوں نے یہ سلسلہ شروع کرنے کا وعدہ کیا ۔ اردو صحافیوں کو مناسب اجرت کے ساتھ دیگر سہولیات اور قانونی واجبات دینے کی بات بھی اٹھائی گئی کیونکہ جب تک اردو صحافت میں ہندی اور انگریزی جیسی کشش نہیں پیداکی جائیگی تب تک نوجوان لڑکے لڑکیاں اس جانب راغب نہیں ہوں گے۔جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صحافت کے اچھے کورس کرائے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی طالب علم اردو صحافت میں دلچسپی نہیں دکھاتا کیونکہ اس میں اسے اپنا اچھا مستقبل نہیں دکھائی دیتا ۔آج اردو اخباروں میں اچھے سب ایڈیٹر اور رپورٹر جو کمپیوٹر پر کام کرسکیں شدیدقلت ہے مدرسوں کے فارغین کمپیوٹر اور اردو میں تو ماہر ہیں لیکن ہندی اور انگریزی سے نابلد ہیں ۔ کانفرنس میں ریاستی اردو اکاڈمیوں ،بڑے مدرسوں اور دیگر اداروں سے اردو صحافت کے تربیتی کورس شروع کرانے کی تجویز پیش کرنے کا بھی فیصلہ کیاگیا ۔ اس سے قبل اردو صحافت سے متعلق ایک سیمنار میں دہلی اردو اکاڈمی کی کے وائس چیئرمین پروفیسر اختراالواسع نے وعدہ کیاتھا کہ وہ قومی اردو کونسل کے اشتراک سے اردو صحافیوں کے لیے ریفریشر کورس شروع کرائیں گے دیگر ریاستی اردو اکاڈمیوں کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہئے ۔
کارپوریٹ گھرانوں کی جانب سے اردو اخبارات کی اشاعت میں دلچسپی لینے کا عمومی طور سے خیر مقدم کیاگیا لیکن اس آگاہی کو بھی شامل کیاگیاکہ اردو صحافت کا بنیادی اور تاریخی کردار کارپوریٹ ہاؤسیز کی چکاچوندمیں متاثر نہیں ہوناچاہئے ۔ حکومتوں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر بھی ایک بڑے مشتہر ہیں لیکن اردو اخبارات اس سے محروم ہیں اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت پر غور کیاگیا لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب اخبارات معیاری ہوں اور ان کا سرکولیشن خاطر خواہ ہو۔ پرائیویٹ سیکٹر کے علاوہ عوامی زمرے کی کمپنیاں (PSUs)بھی اردو اخبارات کے نظر انداز کرتے ہیں ۔غلام نبی آزاد نے وزیرشہری ہوابازی کی حیثیت سے ائیر انڈیا کو اردو اخباروں کو بھی اشتہار دینے کی ہدایت دی تھی جب کہ رام ولاس پاسوان نے کیمکل اور فرٹیلائزرکمپنیوں بھی ایسی ہدایت دی تھی ۔بزرگ صحافی اور راجیہ سبھاکے رکن احمد سعید ملیح آبادی نے مشورہ دیا کہ اردوایڈیٹروں کا ایک وفد اردو داں اور اردودوست وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملے اور متعلقہ وزارتوں کو ایسی ہدایت جاری کرائے ۔ سینئر صحافی وسیم الحق صاحب نے اس کے لئے کچھ فعال اور دہلی میں مقیم صحافیوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل کرنے کا مشورہ دیاتھا کہ جو تجاویز سامنے آئی ہیں ان پر عمل درآمد کرانے کی مہم شروع کی جاسکے ۔
اردو اخبارات کے مسائل بھی پرانے ہیں اور اس طرح کی کانفرنسوں کی بھی پرانی روایت ہے لیکن کچھ نئے مسائل اور نئی تجاویز کے لئے کانفرنس بہرحال دیگر کانفرنسوں سے کافی حد تک جد ا کہی جاسکتی ہے ۔
جواب دیں