مشتاق عامر۔ پریاگ راج (الہ آباد)
کسی زمانے میں مسلم سیاست کا گڑھ سمجھے جانے والے اتر پردیش میں مسلم سیاست ان دنوں اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ یو پی میں یوگی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی سیاست میں سرگرم علاقائی مسلم سیاست دانوں کے لیے مشکل حالات پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یو پی کی سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والے ایسے مسلم سیاست دانوں کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مسلم طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایسے سیاست دانوں کو مختلف قسم کے سنگین مقدمات میں جعلی طور پر پھنسا کر ان کاسیاسی کریئر تباہ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں کے دوران یو پی میں سیاسی استبداد اپنی بدترین شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔چار دہائیوں سے زیادہ یو پی کی سیاست میں کلیدی کردار رکھنے والے اعظم خاں کا سیاسی مستقبل ان دنوں داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یو پی کی سیاست میں اعظم خاں کو ایک جرأت مند اور بااثر سیاسی قائد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہ 1980 سے انتخابی سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ رامپور سے دس بار ایم ایل اے، ایک ایک بار راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ وہ محمد علی جوہر یونیورسٹی کے بانی اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔لیکن ان کا چالیس سالہ سیاسی سفر اب سخت مصائب کا شکار ہے۔ اعظم خاں پر 80 سے زائد فوجداری مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مقدمات یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد درج کیے گئے ہیں۔ اعظم خاں پر یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے، محمد علی جوہر یونیورسٹی کے لیے غیر قانونی طریقے سے زمین حاصل کرنے، ڈکیتی، جعل سازی، منی لانڈرنگ، ڈرانے دھمکانے اور کتاب چوری جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج کرائے گئے ہیں۔ 26 فروری 2020 کو اعظم خاں، ان کی اہلیہ تزئین فاطمہ اور بیٹے عبداللہ اعظم کو جعلی پیدائشی سرٹیفیکٹ معاملے میں عدالت نے قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پورا ملک کورونا وبا کے مہلک خطرات سے دوچار تھا۔ 27 مہینے کی قید گزارنے کے بعد اعظم خاں کو ضمانت پر جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اعظم خاں پر درج کئی سنگین مقدمات رامپور، الہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ اعظم خاں اور ان کے اہل خانہ کو اس وقت جیل بھیجا گیا جب پورا ملک کورونا وبا کی زد میں تھا۔سیتاپور جیل میں قید کے دوران اعظم خاں کورونا کا شکار ہوئے۔جیل میں ان کی حالت تشویش ناک ہو گئی لیکن ریاستی حکومت کی طرف سے ان کے علاج کا معقول بندوبست نہیں کیا گیا ۔ بعد میں عدالت کے حکم پر ان کو علاج کے لیے لکھنؤ کے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ 27 اکتوبر 2022 کو رامپور کی ایم پی ایم ایل اے عدالت نے نفرت انگیز تقریر معاملے میں اعظم خاں کو تین برس کی قید کی سزا سنائی۔ سزا سنائے جانے کے بعد اعظم خان کو رامپور اسمبلی سیٹ سے نااہل قرار دیا گیا۔ نا اہل قرار دیے جانے کے بعد رامپور میں ضمنی انتخاب کرائے گئے جس میں بی جے پی کے امید وار آکاش سکسینہ نے جیت حاصل کی۔ اعظم خاں نے ایم پی ایم ایل اے کورٹ کے فیصلے کو رامپور سیشن کورٹ میں چیلنج کیا۔ 24 مئی 2023 کو سیشن کورٹ نے نفرت انگیز تقریر معاملے میں اعظم خاں کو بری کر دیا۔ بری ہونے کے بعد بھی اعظم خاں کی مشکلیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ان کو ابھی بھی سنگین قسم کے ایسے درجنوں مقدمات کا سامنا ہے جس کی بنا پر انہیں دوبارہ جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ یوگی حکومت کی طرف سے درج کرائے گئے مقدمات کی کثرت اور ان کے خلاف پولیس کی مسلسل کارروائیوں نے اعظم خاں کو سیاسی طور پر بے اثر کر دیا ہے۔ اعظم خاں سیاسی تنہائی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس تنہائی کا اثر رامپور کے ضمنی انتخاب اور بلدیاتی انتخابات پر واضح طور سے دیکھنے کو ملا۔ ان انتخابات میں رامپور میں اعظم خاں کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ضمنی انتخابات کے دوران اعظم خاں نے پولیس پر الزام لگایا تھا کہ اس نے مسلم علاقوں میں لوگوں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا۔ بلدیاتی انتخابات میں اعظم خاں کے حمایت یافتہ سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کو نگر پالیکا کی کسی بھی سیٹ پر کامیابی نصیب نہیں ہوئی جبکہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں ایس پی کے امیدواروں کے حق میں مہم چلائی تھی۔ اعظم خاں سماج وادی پارٹی کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ سماج وادی پارٹی کی حکومت کے دوران اعظم خان کے پاس کئی اہم وزارتوں کے قلم دان رہے ہیں۔ سرکاری پروٹوکول میں ملائم سنگھ کے بعد اعظم خاں کا نمبر آتا تھا لیکن اکھلیش یادو کی حکومت میں ان کو درکنار کرنے کی شروعات ہو گئی تھی۔ یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی اعظم خاں کے ارد گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ یوگی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے۔ سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر کے خلاف یوگی حکومت کی تادیبی کارروائی پر پارٹی صدر اکھلیش یادؤ نے لگ بھگ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اس معاملے میں ان کا رد عمل سوشل میڈیا تک ہی محدود رہا ہے۔مشکل وقت میں اعظم خاں کا ساتھ نہ اکھلیش یادو نے دیا اور نہ ہی پارٹی کارکنان کو کچھ کرنے کی اجازت دی گئی۔ یو پی کے بعض شہروں میں اعظم خاں کے حق میں پارٹی کارکنان مظاہرہ کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی قیادت کی طرف سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ریاست کی مسلم قیادت کو براہ راست نشانہ بنانے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔یوگی حکومت نے اپنے طرز عمل سے اکثریتی فرقے کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلم سیاسی لیڈروں کی جگہ یا تو جیل ہے یا ان کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔سرکردہ مسلم لیڈروں کو ایک مجرم، مافیا، ملک مخالف اور سماج دشمن عناصر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔حکومت کی تادیبی کارروائیوں کا شکار ہونے والے مسلم لیڈروں کے ساتھ سابق ایم پی اور ایم ایل اے کے ٹائٹل کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ مغربی یو پی میں اعظم خاں کو نشانہ بنا کر مقامی سیاسی لیڈروں اور کارکنوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے لیکن ریاستی حکومت کی مسلم مخالف کارروائیوں کی سب سے کریہہ شکل مشرقی یو پی میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مشرقی یو پی میں سرگرم عمل پیس پارٹی نے 2012 کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی تھی۔ گورکھپور کے سرجن ڈاکٹر ایوب انصاری نے یہ پارٹی قائم کی تھی۔ دلت مسلم اتحاد کے ساتھ انتخاب لڑنے والی پیس پارٹی نے ریاست کی تین اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس انتخاب میں پیس پارٹی یو پی اسمبلی میں پانچویں نمبر کی پارٹی بن گئی تھی۔ پیس پارٹی کی غیر متوقع کامیابی سے یہ قیاس لگایا جانے لگا کہ مشرقی یو پی میں پیس پارٹی مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی متبادل بن سکتی ہے۔ 2017 کے یو پی انتخابات میں پیس پارٹی کو کسی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی۔ اگست 2020 میں پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایوب انصاری کو ایک اردو اخبار میں اشتعال انگیز اشتہار شائع کرانے کے الزام میں نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت جیل میں بند کر دیا گیا۔ 27 اکتوبر 2020 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے ڈاکٹر ایوب کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ایوب انصاری اپنی تقریروں میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے بعد پیس پارٹی پس منظر میں چلی گئی۔ تین دہائیوں تک مشرقی یو پی کی سیاست پر اپنی مضبوط گرفت رکھنے والے مختار انصاری کا سیاسی کرئیر بھی تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ 2005 میں مؤ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کو بھڑکانے کے الزام میں مختار انصاری کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس کے بعد سے مختار انصاری جیل میں بند ہیں۔ مختار انصاری پانچ بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔انہوں نے کئی انتخابات جیل میں رہتے ہوئے جیتے ہیں۔ یوگی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مختار انصاری پر کئی مقدمات درج کرائے گئے۔ اس وقت مختار انصاری کو 61 مقدمات کا سامناہے۔ مختار انصاری کو 1991 کے اودھیش رائے قتل کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مختار انصاری گزشتہ اٹھارہ برسوں سے جیل میں بند ہیں۔ان کے خلاف ابھی بھی کئی ایسے سنگین مقدمات زیر سماعت ہیں جن پر سزا سنائی جانی باقی ہے۔ مختار انصاری کو سزا سنائے جانے کے بعد اب ان کے سیاسی کریئر ختم ہونے کے قیاس لگائے جا رہے ہیں۔ مختار انصاری کے بڑے بھائی اور غازی پور سے بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ افضال انصاری کا بھی سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ 3 جون 2023 کو افضال انصاری کو گینگسٹر ایکٹ کے تحت عدالت نے چار سال کی سزا سنائی ہے۔ اس سزا کے بعد افضال انصاری کو لوک سبھا کی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے اور ان کو انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ الہ آباد مغربی اسمبلی حلقے سے پانچ بار کے ایم ایل اے اور پھول پور لوک سبھا سیٹ سے ایم پی رہنے سماجی وادی پارٹی کے عتیق احمد کو یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے شروع میں ہی جیل ڈال دیا تھا۔ عتیق احمد کے بھائی سابق ایم ایل اے خالد عظیم اشرف نے بھی خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ دونوں بھائی 2004 میں ہونے والے بہوجن سماج پارٹی کے ایم ایل اے راجو پال قتل کیس کے کلیدی ملزم تھے۔ عتیق احمد کے جیل میں رہنے کے دوران یوگی حکومت نے ان پر کئی نئے کریمنل کیس درج کرائے تھے۔ 24 فروری2023 کو راجو پال قتل کے اہم گواہ امیش پال کو الہ آباد کے سلیم سرائے علاقے میں اس کے گھر سامنے قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے امیش پال قتل معاملے میں عتیق احمد،ان کی بیوی شائستہ پروین، بھائی خالد اشرف اور ان کے بیٹوں سمیت نو افراد کے خلاف نام زد ایف آئی درج کی تھی۔امیش پال قتل کی پوری واردات سی سی ٹی وی کمیرے میں قید ہے لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والے حملہ آوروں کی قطعی شناخت ابھی تک عدالت میں ثابت نہیں ہو پائی ہے۔ 28 مارچ 2023 کو راجو پال قتل کیس کے گواہ امیش پال کو اغوا کرنے کے ایک پرانے معاملے میں عتیق احمد کو الہ آباد کی ایم پی ایم ایل اے کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی اور عتیق احمد کو الہ آباد کے نینی سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ایک دوسرے مقدمے کے سلسلے میں 13 اپریل 2023 کو عتیق احمد اور ان کے بھائی خالد عظیم اشرف کی پیشی عدالت میں تھی جس وقت عتیق اور اشرف الہ آباد کی ضلع عدالت میں پیش ہو رہے تھے اسی دوران عتیق احمد کے بیٹے اسد احمد اور اس کے ساتھی غلام محمد کو ایس ٹی ایف نے جھانسی کے بڑا گاؤں کے پاس انکاؤنٹر کرکے ہلاک کر دیا۔ اسد کے انکاؤنٹر والے دن ہی پولیس نے دوسرے معاملوں میں عتیق احمد اور اشرف کو جسمانی ریمانڈ پر لینے کی عدالت سے درخواست کی۔ اس سے پہلے عتیق اور اشرف نے عدالت کے سامنے اپنی جان کو خطرہ بتایا تھا۔ عدالت نے پولیس کی درخواست قبول کرتے ہوئے چار دنوں کی جسمانی ریمانڈ منظور کر لی۔ریمانڈ پر لینے کے بعد پولیس دونوں بھائیوں کو اپنی حراست میں لے کر ان کے آبائی محلے کے قریب واقع دھومن گنج تھانے لائی ۔جانچ کے نام پر دونوں بھائیوں کو ہتھکڑی لگا کر ان کے آبائی محلے چکیہ کی سڑکوں پر گھمایا گیا۔ 15 اپریل (23ویں رمضان )کو رات تقریباً ساڑھے دس بجے پولیس کی جیپ عتیق احمد اور اشرف کو میڈیکل چیک اپ کرانے کے لیے شہر کے کالون سرکاری اسپتال لے کر پہنچی جہاں میڈیا کی بھیس میں موجود تین نوجوانوں نے بہت قریب سے عتیق اور اشرف کو گولی مار دی۔ پولیس نے ڈرامائی طریقے سے حملہ آروں کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے اپنی حراست میں لے لیا۔ عتیق احمد کی بیوی اور ان کی بہن کو پولیس نے مفرور قرار دیا ہے اور ان کی گرفتاری پر انعام کا اعلان کیا ہے، حالانکہ ان کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ہے۔ عتیق احمد کا ایک بیٹا علی بھی جیل میں ہے۔ پولیس حراست میں عتیق اور اشرف کے قتل پر کچھ لوگوں نے سوال اٹھائے ہیں لیکن میڈیا نے ان سوالوں کو بے اثر کر دیا ہے۔
یو پی میں مسلم آبادی کا تناسب بیس فیصد کے قریب ہے۔ یو پی کے بعض شہروں میں تو مسلمان آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ یو پی اسمبلی کی لگ بھگ پچاس ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ براہ راست نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوگی حکومت کی کارروائیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ریاست میں منظم طریقے سے مسلم لیڈرشپ کو جیلوں میں ڈالنے یا ان کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے تاکہ مسلم رائے دہندگان کے اندر خوف اور مایوسی پیدا کی جا سکے۔ یو پی میں اب تک سیکڑوں مکانات بلڈوزروں کے ذریعے منہدم کیے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔صرف عتیق احمد اور ان کے رشتہ داروں کے سو سے زائد مکانوں کو یا تو منہدم کر دیا گیا ہے یا ان کو سیل کیا جا چکا ہے۔ اس طرح کے معاملوں میں پولیس کے دعوؤں کو ہی درست اور حتمی مان لیا جا رہا ہے۔یو پی میں اعظم خاں، افضال انصاری، مختار انصاری، ڈاکٹر ایوب اور جاوید محمد اب ایسے نام ہیں جن کو یا تو سیاسی طور پر بے وزن کر دیا گیا ہے یا ان کے سیاسی کریئر کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک بات جو انہتائی تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ مسلم قیات کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تذلیل اور تحقیر بھی جا رہی ہے۔مسلم سماج کے معزز اور سرکردہ افراد کو جعلی معاملات میں پھنسا کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ پولیس اور مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔اہانت آمیز طریقے سے ان کے نام لیے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن جاوید محمد کی ہے۔ جاوید محمد یو پی کی معروف سماجی اور سیاسی شخصیت ہیں۔ انسانی حقوق اور سماجی کام کرنے والی کئی سرکردہ تنظیموں سے وابستہ ہیں۔بی جے پی لیڈر نوپور شرما کی طرف سے توہین رسالت کے واقعے خلاف گزشتہ سال 10 جون کو الہ آباد میں نماز جمعہ کے بعد ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ایک دن پہلے پولیس نے کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرہ نہ کرنے وارننگ دی تھی۔جاوید محمد کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے اپیل کی گئی تھی کہ لوگ سڑکوں پر جمع نہ ہوں اور نہ ہی کسی طرح کا مظاہرہ کریں لیکن نماز جمعہ کے بعد شہر کے مسلم اکثریتی علاقے اٹالہ چوراہے پر لوگ اکٹھا ہوگئے اور نوپور شرما کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ علاقے میں بھاری پولیس فورس پہلے سے تعینات کر دی گئی تھی۔ ہجوم میں شامل افراد کچھ دیر تک پر امن طریقے سے احتجاجی نعرہ لگاتے رہے۔ اسی درمیان نا معلوم افراد کی طرف سے پتھراؤ شروع ہو گیا جس کے جواب میں پولیس نے ہجوم پر لاٹھی چارج کر دیا۔ ایک ہزار نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس معاملے میں پچاس سے زائد نوجوانوں کو گھروں سے گرفتار کیا گیا۔ گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے اور ان کو ریاست کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ اس پورے معاملے میں میڈیا کی طرف سے جاوید محمد کو ’’ماسٹر مائنڈ ‘‘ بتایا گیا۔ پولیس نے ان کو گھر سے گرفتار کر لیا۔ 12 جون کو پولیس نے کریلی میں واقع ان کے گھر کو بلڈزر سے منہدم کر دیا۔جاوید محمد پر کئی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے دیوریا جیل بھیج دیا گیا۔ چند دنوں بعد ان پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) لگا دیا گیا۔فی الحال پولیس کی طرف سے درج تمام مقدمات میں جاوید محمد کو ضمانت مل گئی ہے لیکن این ایس کے کے تحت وہ ابھی تک جیل میں بند ہیں۔ جاوید محمد کی طرف سے این ایس اے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے جس پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔سیاسی قیادت کے علاوہ مسلم سماج کے معزز افراد کے خلاف پولیس کی اہانت آمیز کارروائی نے مسلم طبقے کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔سیاسی نمائندوں اور سماجی کارکنوں کے جیلوں میں بند ہونے کی وجہ سے آئینی حقوق کی آواز لگاتار کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ بنیادی حقوق کی بازیابی کے لیے دانشمندی اور استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار نیوز 18 کے سابق چیف رپورٹر ہیں)
بشکریہ : ہفت روزہ دعوت
جواب دیں