کوئی بچہ والد سے اپنے عید کے کپڑوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا، کوئی توتلی زبان سے اپنی ماں کے آنچل سے لگ کر افطاری اور سحری کے بارے میں پوچھ رہا تھا…. مگر،، مگر،، یہ کیا ہوا…. معصوم بچوں کی دلدوز چیخیں سنائی دے رہی ہیں، ہر طرف آہ و بکا ہے، شمعیں بجھادی گئی ہیں، یک بہ یک پھول مرجھانے لگے ہیں، ماں کے کوکھ تڑپ تڑپ اُٹھے ہیں، سرخ فصلیں کاٹے جارہی ہیں، ہر طرف افراتفری ہے ، بربادی اور تباہی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں، ہمارے بھائی، معصوم بچے،عورتیں ، خون سے لہولہان، دشمن کے برسائے بم کے سایوں میں امان کے لیے مارے مارے گھوم رہے ہیں۔باپ خون میں لہولہان اپنے جگر کے ٹکڑے کو لے کر خاموش لبوں سے آسمان کی جانب دیکھے شکوہ کنا ں ہے۔ ماں اپنے ان بچوں کو جو بچ گئے ہیں سینے سے لگائے آنچل میں چھپا بیٹھی ہے کہ کہیں مقدر اُس سے اُس کا دوسرا جگر بھی نہ چھین لے۔معصوم بچوں کی لاشیں ایک جگہ جمع دیکھ کر دل خون کے آنسو رورہا ہے، اجتماعی نمازِ جنازہ میں میتوں کو دیکھ کر دل چیرہ چیرہ ہورہا ہے.. درندوں نے تین سالہ سینکڑوں معصوم بچوں کے جسم کو ایسے چھلنی کردیاکہ جسم کے اعضاء بکھر کر رہ گئے،..وہ منظر، وہ منظر دردناک، وہ منظر کربناک، وہ نظارہ ہولناک، ہر طرف دھواں ہی دھواں، جو کچھ دیر قبل خوبصورت آشیانے تھے کھنڈروں میں تبدیل ہوچکے تھے، لہلہاتا چمن اُجڑ چکا تھا، وہ ،منظر ایسا کہ ناقابلِ بیان !!!
اچانک یہ کیا ہوا؟جی ہاں! ہمیشہ کی طرح ظالم و جابر،انسانیت کے قاتل یہودیوں نے تین یہودی نوجوانوں کا قتل کا الزام حماس پر لگاکر فلسطینی بھائیوں کے قتل عام کی سازش رچی ،خبیث اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن یاہو نے فلسطینوں کو تہہ تیغ کرنے کا خبیث ارادہ کرلیا،اب تک سینکڑوں فلسطینی مسلمان شہید ہوگئے اور روزانہ درجن بھر کے حساب سے شہید ہورہے ہیں، معصوم بچوں کی چیخوں سے فلسطین کی فضائیں گونج رہی ہیں، سینکڑوں گھر مسمار کرکے ہزارہا خاندانوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، اسرائیل جنگی جرائم میں انتہا کرچکا ہے ، اُسے عالمی قانون کا پاس اور نہ ہی انسانیت کا ذرہ بھر لحاظ،مگر قربان جائیے دین کے مجاہدوں پر ،وہ فلسطینی بھائی بالکل نہتے او رمجبور ہیں، ان کی ایمانی قوت و طاقت ایسی ہے کہ اسرائیل کے سامنے نصف صدی سے زائد عرصے سے سینہ سپر ہیں،وہ اسرائیل کے گولیوں کا جواب پتھر سے دیتے ہیں، خالی ہاتھ ہونے کے باوجود وہ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہیں،اسلحہ سے بھری گاڑیوں پر سنگ باری کرکے بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں، فلسطین کا بچہ بچہ ’’ بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ہے،دلوں میں ایمانی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوا ہے، وہ قبلہ اول کی حفاظت میں اپنے خون کا آخری خطرہ بھی گرادینا چاہتے ہیں۔مگر عالمی برادری، اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی طاقتیں، ایر کنڈیشن دفاترمیں بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہی ہیں، راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے بیان بازی پر ہی اکتفا کررہے ہیں،ہر دن نیا بیان جاری کرکے عوام کے سامنے یہ جھوٹا تاثر دینے کوشش کررہے ہیں کہ وہ ظالم کے خلاف ہیں اور مظلوم کے تئیں آواز اُٹھارہے ہیں،اس میں چونکنے کی بات نہیں ہے ،یہ تماشہ نصف صدی سے جاری ہے، اور ہمیں ان سے شکوہ بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ظاہر میں عالمی سطح پر انسانیت کا درس دیتے ہیں مگر پسِ پردہ صیہیونی اور صلیبی مقاصد کو پورا کرنا ہی ان کا منشااور مقصد ہے۔
ہاں مگر ہم شکایت کرسکتے ہیں کچھ اپنے کہلانے والے حکمراں سے.آئیے ہم شکایت کرتے ہیں کچھ اپنے کہلانے والوں سے…جی ہاں مجھے شکایت ہے، ان ملکوں اور حکمرانوں سے جن پر اسلامیت کا ٹھپہ لگاہوا ہے، مجھے ان سے پوچھنے کی اجازت دیں کہ کیا ان کے کانوں تک غزہ کی معصوم او رنھنی جانوں کی چیخیں، آہ وبکائیں نہیں پہنچ رہی ہیں،قبلہ اول کی حفاظت کے لئے لاچار و بے بس فلسطینیوں کی خبریں کیاان کے کانوں کے پردوں سے نہیں ٹکرا رہی ہیں؟
آمر مزاج عیاش حکمرانوں نے سیاد ت کو خدائی امانت کی بجائے دادِ عیش دینے کا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں، مصر میں اخوانیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے مجاہد محمد مرسی کو حکمرانی سے اُتارنے میں مسلم حکمرانوں نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر جو سازش رچی آج اسی کا ثمرہ ہے کہ اسرائیل بے خوف و خطر ہزاروں فلسطینوں کے خون سے ہولی کھیل رہاہے۔نہتے ، زخمی فلسطینی، اپنے کٹے ہاتھوں اور جسم کے اعضاء کے ساتھ مصر کے بارڈر تک پہنچتے ہیں کہ کچھ راحت رسانی مل جائے مگر دنیا کا منحوس ترین انسان اور یہودیوں کے تلوے چاٹنے والا نام نہاد جنرل سرحد کو بند کردیا ہے۔ خالص اسلامی اور صلح پسند تنظیم کی حکومت کو گرانے کے لیے باغیوں پر کھربوں ڈالر کے امداد کا اعلان کرنے والا حکمراں معصوم بچوں کے آہ و بکا پر ’’ہوں ‘‘ تک نہیں بولتا،امداد کا اعلان کرکے یہ سمجھتا ہے کہ حق ادا کردیا۔ عرب لیگ جو 22مسلم ممالک پر مشتمل ہے ان کی بزدلانہ خاموشی پر بھی ’’تھو‘‘ ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ عرب ایک انتہائی طویل خفتگی کے عالم میں ہے، اس کا سلسلہ نہ جانے کس دھماکے کے ساتھ ٹوٹنے والا ہے۔ عیاشی، سیادت سے لگاؤ نہ جانے ان حکمرانوں کو تباہی کے کس دہانے لے جائے گا، مگر ہماری تو دعا یہی ہے کہ عرب حکمران جلد ہی خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر عرب کی حساسیت کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔
ساتھیو!کلیاں مسل دی گئی اور مسلی جارہی ہیں، سلسلہ جاری ہے، کسی لکھنے والے نے لکھا تھا کہ ’’میرا خوف اور میرا ڈر اپنی جگہ ، میری تحریر کی پردرد آواز اپنی جگہ ۔نفرت کے سیلاب کی آنکھیں نہیں ہوتیں،اس کے سر میں دماغ بھی نہیں ہوتا اور عوامی غیض و غضب کے سینے میں درد مند دل بھی نہیں دھڑکتا۔ یو ں تو بس سیلاب ہوتا ہے اندھا گونگا، بہرا، مستقبل سے بے نیاز اور حال کے غصے کا غلام۔اس سیلاب کو اگر راستہ نہ دیا گیا، اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ ہوئی، اس کے جذبات کو آواز نہ ملی تو پھر نام نہادحکمرانوں کے انجام کی تاریخ کوخون جگر سے تحریر کی جائے گی۔
ہم عید بھی منائیں گے، عیدگاہ تک بھی جائیں گے، کیوں کہ یہ ہمارے نبی کا فرمان ہے ، مگر دھڑکتے دل اور تڑپتے آہوں کے ساتھ لرزتے ہاتھ اللہ کے روبرو اُٹھائیں گے اور اپنے فلسطینی بھائی ، بہنوں اور معصوم بچے جو شہید ہوچکے ہیں ان کے لیے دعائے مغفرت کریں گے اور جو ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں زخمی نہیں بلکہ اپنی بقیہ زندگی زندہ لاش کی طرح گذاریں گے ان کی صحت یابی کی دعا کریں گے۔کیوں……….کریں گے نا؟؟
جواب دیں