زعیم الدین احمد، حیدرآباد وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے سے واپس ہوتے ہی اپنی پارٹی کے بوتھ درجے کے کارکنوں کے اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے سنگھ کے دیرینہ خواہش یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی بات کہی ہے۔ امریکہ میں تو انہوں نے ٹکنالوجی، سیمی کنڈکٹر، مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ جیسے […]
یکساں سول کوڈ کی نہیں یکساں مساوی قوانین کی ضرورت ہے
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے سے واپس ہوتے ہی اپنی پارٹی کے بوتھ درجے کے کارکنوں کے اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے سنگھ کے دیرینہ خواہش یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی بات کہی ہے۔ امریکہ میں تو انہوں نے ٹکنالوجی، سیمی کنڈکٹر، مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ جیسے عنوانات پر تقریریں کیں، جمہوریت و سیکولرازم پر زور دیتے ہوئے اس کو فروغ دینے کی بات کی، ماحولیاتی آلودگیوں پر کام کرنے اور اس سے باہر نکلنے کی راہوں پر گفتگو کی، عالمی تحفظ پر بھی لچھے دار تقریر کی، لیکن جیسے ہی وطن واپس آئے اچانک یکساں سول کوڈ کا نعرہ لگا دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی نے یکساں سول کوڈ کا نعرہ لگا کر انتخابات کا ایجنڈا طے کردیا ہے، اگر وہ واقعی اس میں سنجیدہ ہوتے تو اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کرتے نہ کہ اپنی پارٹی کے بوتھ درجے کے کارکنوں کے سامنے اس کی گفتگو کرتے؟ بوتھ لیول ممبروں کے سامنے پیش کرنے کا مطلب یہی ہے کہ بی جے پی نے انتخابات کا ’ٹون‘ سٹ کر دیا ہے، اس سے یہ بات طے ہوگئی کہ بی جے پی اب انتخابات جیتنے کے لیے عوام میں مذہبی جذبات کو ابھارنا چاہتی ہے، منافرتوں کو بھڑکانا چاہتی ہے، اسے یہ یقین ہو چلا ہے کہ وہ مذہبی منافرت پھیلائے بغیر انتخابات جیت نہیں پائے گی، یہی وجہ ہے کہ اس نے عوام میں یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے، اور جیسے ہی یہ شوشہ چھوٹا اس کے ٹی وی چینلوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور روزانہ کی اساس پر خود ساختہ ماہرین یکساں سول کوڈ کو بلا بلا کر اس موضوع پر مباحثے شروع کردیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کامن سول کوڈ کے مطالبے کا ذکر دستور میں درج ہے، لیکن اس کو دستور میں کیوں درج کیا گیا، کن وجوہات سے اس کو دستور کے احکامات کی شقوں میں درج کیا گیا وہ ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن یہاں یکساں سول کوڈ کی نہیں بلکہ یکساں مساوی سول قوانین کی ضرورت ہے، یکساں مساوی انفرادی قوانین ہونے چاہئیں یعنی یونیفارملی ایکول سول لاز ہونے چاہئیں، یونیفارملی پرسنل لاز ہونے چاہئیں نہ کہ یونیفارم سیول لاز؟ یونیفارم سیول لاز کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ایک ہی قانون ہو گا۔ مثلاً اگر کسی مذہب میں دو شادیوں کا لزوم ہے تو کیا یہ ہر ایک پر لاگو ہو گا، یا اس کو قانون میں شامل کیا جائے گا، یا مسلم پرسنل لا میں شامل ساری باتوں کو سب پر یکساں لاگو کیا جائے گا؟ کیا ہندو پرسنل لا میں شامل باتوں کو سب پر یکساں پر لاگو کیا جائے گا؟ حالانکہ سب کے اپنے اپنے پرسنل لاز ہیں اور کسی کو کسی میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ یکسانیت کے ساتھ تمام مذاہبِ کے اپنے انفرادی قوانین ہونے چاہئیں نہ کہ سب کے لیے ایک ہی قانون؟ مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ ہر مذہب کا اپنا اپنا قانون ہو، نہ کہ سارے مذاہب کے لیے ایک قانون؟ بدقسمتی سے اس وقت یکساں سول کوڈ کی بحث کا رخ سماج کو مذہبی بنیادوں پر بانٹنے کی طرف ہے، ساری بحث سماج میں مذہبی منافرت کو فروغ دینے پر ہو رہی ہے۔ امریکہ میں کی جانے والی تقاریر اور بھارت میں کی جانے والی تقاریر میں بنیادی فرق یہی ہے۔ وہاں جمہوریت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی باتیں اور یہاں سماج کو مذہبی کی بنیاد پر تفریق کرنے کی باتیں؟ یہ کیسی منافقت ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اس بحث کو چھیڑ دیا ہے؟ بات واضح ہے کہ انتخابات سامنے ہیں۔ سنگھ پریوار کے تین اہداف ہیں، ایک رام مندر، دوسرا آرٹیکل 370 اور تیسرا یکساں سول کوڈ۔ دونوں کی تکمیل ہوچکی اب تیسرے کی باری ہے۔ جیسے ہی مودی نے اس پر گفتگو کی این ڈی اے نے جو بی جے پی کے ساتھی ہیں مخالفت کو ظاہر کردیا ہے۔ اکالی دل نے یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی، وائی ایس آر نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا، اسی لیے بی جے پی آندھرا پردیش میں ایک نیا سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔ اگر بی جے پی محض ترقی کے نام پر عوام میں ووٹ مانگنے جائے گی تو اسے یقین ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہو گی، اس لیے اس نے بڑی چالاکی سے اس بحث کو چھیڑا ہے۔ حال میں این ڈی ٹی وی اور سی ایس ڈی ایس کی جانب سے کیے گئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ مودی کے ترقیاتی کاموں اور منصوبوں سے محض دس فیصد عوام ہی مطمئن ہیں۔ اسی لیے بی جے پی نے طے کیا ہے کہ وہ مذہبی جذبات کو ابھار کر سماج میں منافرت پھیلا کر انتخابات جیتے جائیں، ورنہ کوئی دوسری صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ وہ یہ سمجھ چکی ہے کہ رام مندر، آرٹیکل 370، سی اے اے، ین آر سی جیسے موضوعات میں اب عوام کو کوئی دلچسپی نہیں رہی، اس لیے اس نے یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا ہے۔ بی جے پی یا اسی قبیل کے فسطائی سیاسی پارٹیوں کا ایک خاص وتیرہ ہوتا ہے کہ وہ ایک گروہ کو مستقل دشمن بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں، تاکہ ان کی سیاسی حیثیت باقی رہے ورنہ وہ باقی نہیں رہیں گی، وہ ایک گروہ کو دشمن کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہی ہے جو تمام مسائل کی جڑ ہے، اسی سے تمام مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کی ساری سیاست اسی گروہ کے اطراف گھومتی ہے۔ یہی کام بی جے پی کر رہی ہے، وہ مسلمانوں کو تمام مسائل کی جڑ بتاتے ہوئے ہندوؤں کو یکجا کر رہی ہے، مسلمانوں کو دشمن بتا کر ہندوؤں کے ووٹ بٹورتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مودی نے یکساں سول کوڈ کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے مسلمانوں کی ہی مثال دی، انہوں نے مسلمان خواتین کا ذکر کیا تاکہ اس کے خلاف مسلم تنظیموں کا رد عمل آئے اور آیا بھی۔ گِدھوں کی طرح منڈلانے والے ٹی وی چینلوں کے اینکروں نے اس پر مباحث کا آغاز کیا اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لازمی بات ہے اس کے نتیجے میں ہندوؤں ایک طرف ہونا ہی تھا، لہٰذا بحث ہندو مسلم پر آ ہی گئی جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ ادھر بی جے پی فائدہ اٹھائے گی اُدھر مسلمانوں کی بعض سیاسی پارٹیوں کو بھی فائدہ ہوگا، کیوں کہ وہ مسلمانوں میں خوف پیدا کریں گی کہ بی جے پی آئے گی تو مسلمان بحیثیت مسلمان باقی نہیں رہے گا یا مسلمانوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا وغیرہ، اور اس کا بھی بالواسطہ طور پر فائدہ بی جے پی کو ہی ہو گا۔ پھر اس مسئلہ سے بی جے پی کو اپنی مخالف سیاسی جماعتوں پر نکیل کسنے میں آسانی ہو گی۔ وہ اس مخمصے میں پڑے ہوئی ہیں کہ اس پر کیا موقف اختیار کیا جائے؟ اگر وہ یکساں سول کوڈ کی حمایت کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ بی جے پی کی تائید کر رہی ہیں، اگر وہ مخالفت کرتی ہیں تو وہ مسلمانوں کی تائید کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ماحول بنایا جا رہا ہے، ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب ہوں گے ویسے ویسے حزب اختلاف کی جماعتوں میں دراڑیں دیکھنے میں آئیں گی۔ عام آدمی پارٹی نے تائید کا اعلان پہلے ہی کر دیا ہے، ٹی آر ایس مرکز میں ہمیشہ سے بی جے پی کی تائید ہی کرتی رہی ہے۔ جنتا دل سیکولر نے بھی تائیدی راگ الاپا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ جو اس کی مخالفت کرے گا اس پر مسلمانوں کی خوشامدی کرنے والی پارٹی کا مہر لگایا جائے گا اور ہندوؤں کو اس سے دور کیا جائے گا۔ جس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ یہ بات بھی سیاسی ایوانوں میں گردش کر رہی ہے کہ سنگھ پریوار میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، مودی اور امیت شاہ کی جوڑی اس قدر طاقتور ہوگئی ہے کہ وہ سنگھ پریوار پر بھی بھاری پڑ رہی ہے، ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا لیڈر نظر ہی نہیں آتا، بظاہر سب کچھ ٹھیک نظر آ رہا ہے لیکن اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی ہے، کئی لیڈروں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ آر ایس ایس میں بھی ان دونوں کے تئیں ناراضگی پائی جاتی ہے، اسی لیے مودی نے یکساں سول کوڈ کی بحث شروع کردی کیوں کہ یہ آر ایس ایس کا اصولی موقف ہے اور سب سے پسندیدہ موضوع بھی ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ ہو، اب جبکہ مودی نے اس بحث کا آغاز کر دیا ہے تو یہ امید کرتے ہیں کہ سارا سنگھ ان کی پشت پر آ جائے گا، ان کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے شاید یہ حربہ کارگر ثابت ہو۔ اگر سنگھ پریوار ساتھ آتا ہے تو اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ ہمارے ملک کی معاشی صورتحال کیا ہے یہ سب جانتے ہیں، معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے والی مودی سرکار معاشی میدان میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، بے روزگاری اپنی اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، غیر منظم شعبے کے مزدوروں کی حالت دگرگوں ہے، غریب عوام میں بی جے پی کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے جس کی ایک جھلک ہم نے کرناٹک انتخابات میں دیکھی ہے۔ عوام میں مودی حکومت کے معاشی منصوبوں پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے، ہر کونے سے مخالفت ہو رہی ہے، معیشت کا ہر پیمانے لڑکھڑا رہا ہے، تو ایسی صورت میں یکساں سول کوڈ کا شوشہ بی جے پی کو اپنی معاشی ناکامیوں کو چھپانے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ 2019 میں بھی اسی طرح کی صورت حال تھی، لیکن اس وقت پلوامہ نے بی جے پی کو زندگی بخشی، بی جے پی یہ گر اچھی طرح سے جانتی ہے کہ عوام کو کس طرح بے وقوف بنایا جائے، اسی وقت بھی عوام نے قومیت کے نشہ میں چور ہو کر بی جے پی کی بھر پور تائید کی، اور اب بی جے پی نے ایک نیا شوشہ یکساں سول کوڈ کی شکل میں چھوڑ دیا ہے، اسے یقین ہے کہ یہ شوشہ اسے انتخابات میں پھر ایک بار کامیابی دلائے گا، کیونکہ اس نے بارہا جذباتی نعروں کا سہارا لے کر ہی کامیابی حاصل کی ہے۔ باشعور عوام کو چاہیے کہ اس کی ناکامیوں کی تشہیر کریں۔ اگر وہ بی جے پی کے اس پُر فریب نعروں کے جال میں نہیں پھنستے ہیں تو یقین جانئے بی جے پی کا بھی وہی حشر ہوگا جو آج کانگریس کا ہوا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ملک کی سیکولر عوام سنجیدگی سے ان مسائل پر غور کریں اور اس سے باہر نکلنے کی راہیں تلاش کریں۔ اس کے لیے خاص طور پر ان غیر سرکاری تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا جو سماجی خدمت میں لگی ہوئی ہیں، ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی صحیح رہنمائی کریں، وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ درج فہرست طبقات کو بھی ساتھ لیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ اس قانون کی زد میں آنے والے سب سے زیادہ یہی طبقات ہیں، اگر یہ لوگ متحد ہو جائیں تو بڑی آسانی کے ساتھ بی جے پی کو مات دی جاسکتی ہے، ان کی فرقہ پرست سیاست کو اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں