یکساں سول کوڈ: مسلمانوں کو خوف زدہ اور ہندوؤں کو گمراہ کرنے کا آلہ

نوراللہ جاوید

سات دہائیوں بعد بھی یکساں سول کوڈ کا کوئی بھی مسودہ پیش کیوں نہیں کیا گیا؟
یکساں سول کوڈ کے نام پر گزشتہ 70 سالوں سے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تاثر قائم کر دیا گیا کہ ’یکساں سول کوڈ‘ کا اگر نفاذ ہو جاتا ہے تو اس سے صرف مسلمان ہی متاثر ہوں گے۔ آزاد بھارت میں نفسیاتی خوف میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں نے بھی ’یکساں سول کوڈ‘ کا ذکر آتے ہی فوری رد عمل دے کر اس تاثر کو مزید تقویت پہنچائی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ تنوع سے بھر پور اس ملک میں کیا کوئی آسان کام ہے؟ کیا اس کی زد صرف مسلم پرسنل لاز پر ہی پڑے گی؟ یہ سوالات اس لیے بھی اہم ہیں کہ ’’ایک ملک اور ایک قانون‘‘ کا راگ الاپنے والی بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستیں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں وہاں ’یکساں سول کوڈ‘ کے نفاذ کا وعدہ کر کے ووٹروں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر متحد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اترا کھنڈ کے بعد ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات میں بھی ’یکساں سول کوڈ‘ کے نام پر بی جے پی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ گجرات میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے عین قبل یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے سابق جج کی قیادت میں ایک کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ اتر اکھنڈ میں بھی اسی طرح کی ایک کمیٹی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے کام کر رہی ہے۔
یکساں سول کوڈ کا نفاذ بی جے پی کا سیاسی عقیدہ رہا ہے۔ تین طلاق پر قانون سازی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، شہریت ترمیمی ایکٹ اور جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بظاہر یکساں سول کوڈ ہی ایک ایسا ایجنڈا ہے جس کا نفاذ باقی ہے۔
یہ الگ سوال ہے کہ جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات دفعہ 370کے خاتمے سے ملک نے حاصل کیا ہے؟ کیا کشمیر میں علیحدگی پسند طاقتی ختم ہوگئیں؟ کیا عالمی رائے عامہ بھارت کے حق میں ہموار ہوئیں؟ ظاہر ہے کہ ان سوالوں کا جواب نفی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں امن و امان کا ماحول قائم تو کیا ہوا الٹا حالات بدتر ہی ہوئے ہیں۔ کشمیری امور کے ماہرین بتاتے ہیں کہ کشمیری پنڈت کی بازآبادکاری تو دور وہاں پہلے سے مقیم پنڈت نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ عدم اعتماد کی فضا ہموار ہوئی ہے، تین سال بعد بھی حکومت انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، پریس پر قدغن ہے، کشمیری لیڈروں کے آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہے، اس کی وجہ سے عالمی رائے عامہ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اب تک عالمی طاقتیں جموں و کشمیر کے تنازعہ کو ہندو پاک کا آپسی تنازعہ قرار دے کر نظر انداز کرتی تھیں مگر اب وہ کھل کر اس پر اپنا موقف پیش کرنے لگی ہیں۔بین الاقوامی تنظیمیں اور عالمی لیڈر ملک کے جذبات واحساسات کی پروا کیے بغیر جموں وکشمیر کے ایشوز پر بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ’’تین طلاق‘‘ پر قانون سازی کے ذریعہ مسلم خواتین کی ہمدردی اور انہیں انصاف دلانے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر دوسری طرف خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کے شانہ بشانہ بی جے پی کھڑی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اپنی مرضی کا لباس پہننے والی مسلم طالبات کو کالجوں میں جانے سے روکا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ تین طلاق پر قانون سازی کے بعد عدالتوں میں تین طلاق کے کتنے مقدمات آئے ہیں؟ غیر سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تین طلاق سے زیادہ خلع کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں عجلت میں پاس کیے گئے شہریت ترمیمی ایکٹ کو قانون کا درجہ حاصل ہونے کے تین سال گزر جانے کے باوجود مرکزی حکومت اب تک اس قانون کے اصول و ضوابط مرتب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قانون سازی کے بعد پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان سے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں اور عیسائیوں کی آمد میں اضافہ تو نہیں ہوا ہے مگر رپورٹوں کے مطابق اپنا ملک چھوڑ کر آنے والے ہندو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملنے سے مایوس اپنے ملک واپس ہوئے ہیں۔ اس قانون کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سے عالمی پلیٹ فارمس پر مسلسل تنقیدوں کا سامنا ہے۔ جہاں تک بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا سوال ہے تو یہ عدالت کا فیصلہ تھا جسے مسلمانوں نے بے شمار نقائص و خامیوں کے باوجود بلا چوں و چرا تسلیم کر لیا۔ اگر اس کا کریڈٹ مرکز اور بی جے پی لیتی ہے تو وہ خود ملک کے قانونی نظام کو مشکوک بنا کر پوری دنیا میں یہ تاثر قائم کر رہی ہے کہ بابری مسجد پر عدالت کا فیصلہ حکومت کے اثر انداز ہونے کا نتیجہ تھا۔ مرکزی حکومت کے عاجلانہ اور غیر دانش مندانہ اقدامات سے بی جے پی کو بھلے ہی سیاسی فائدے حاصل ہوئے ہوں اور مستقبل میں بھی ہو سکتے ہوں لیکن اس سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ متاثر ہوئی ہے اور ملک میں تناو، فرقہ واریت اور عدم اعتماد کی فضا بنی ہے اور غیر مالی بحران کی شکل میں نقصانات سامنے آ رہے ہیں۔
’’ایک ملک، ایک آئین، ایک زبان‘‘ کا نعرہ لگانے والی بی جے پی آخر ریاستی سطح پر یکساں سول کوڈ پر قانون سازی کرنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟ یکساں سول کوڈ پر قانون سازی کرنے کے اختیارات کس کے پاس ہیں؟ اگر ریاستی حکومتیں اپنے اپنے طور پر یکساں سول کوڈ کے لیے قانون سازی کرتی ہیں تو پھر یکسانیت کہاں باقی رہے گی۔ اس سوال پر اس لیے بھی غور کیا جانا ضروری ہے کہ جب ریاستیں اپنے اپنے یہاں یکساں سول قانون سازی کریں گی تو اس میں فرق ہونا لازمی ہے، اس صورت میں ملک بھر میں یکساسول قانون کس طرح نافذ ہو گا؟ کیا بی جے پی انتخابی ہتھکنڈے کے تحت اسمبلی انتخابات میں فائدے حاصل کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کے لیے کمیٹیاں بنا رہی ہے یا پھر اس کے پیچھے سنگھ پریوار کی کوئی حکمت عملی ہے؟
قانون سازی کے اختیارات کس کے پاس ہیں؟
ماہرین قانون کے درمیان اس سوال پر اختلاف رائے ہے۔ لوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل اور آئین کے ماہر پی ڈی ٹی اچاریہ کے مطابق مرکز اور ریاست دونوں کو شادی، طلاق اور وراثت کی تقسیم سے متعلق قوانین سازی کے اختیارات ہیں۔ دوسری طرف وزارت قانون کے سکریٹری اور ماہر قانون پی کے ملہوترا کہتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ پر قانون سازی کے اختیارات صرف مرکزی حکومت کے پاس ہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 44 میں ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے قانون سازی کی سفارش کی گئی ہے اور یہ کام صرف مرکزی حکومت ہی کر سکتی ہے۔جہاں تک گوا کا سوال ہے تو وہاں یکساں سول کوڈ کا نفاذ بھارت کے الحاق سے قبل کیا گیا تھا۔ ماہرین کی رائے اپنی جگہ لیکن اس سلسلے میں خود مرکزی حکومت کا موقف واضح ہے۔ 2019 میں دہلی ہائی کورٹ میں بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے ایک عرضی دائرکی تھی۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں مرکزی وزارت قانون و انصاف سے جو حلف نامہ طلب کیا تھا دو سال بعد مرکزی وزارت قانون و انصاف نے 12 صفحاتی اپنے حلف نامہ میں واضح کیا کہ یکساں سول کوڈ پر قانون سازی کے اختیارات صرف پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت قانون نے عدالت پر یہ بھی واضح کیا کہ وہ اس معاملے میں کوئی بھی ہدایت دینے سے گریز کرے کیونکہ ہدایتی دفعات سے متعلق عدالت کو کوئی حکم جاری کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ عدالت میں حلف نامہ داخل کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ میں ایک تحریری سوال کے جواب میں مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا کہ موضوع کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر مختلف پرسنل لاز کی دفعات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مودی حکومت نے 2016 میں لا کمیشن آف انڈیا سے درخواست کی کہ ملک میں ہزاروں پرسنل لاز کی موجودگی میں کوڈ کیسے بنایا جائے۔ 2018 میں جسٹس بی ایس چوہان کی سربراہی والی 21ویں لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ کی ضرورت پر ہی سوال کھڑا کر دیا ہے۔ عائلی قوانین میں اصلاحات پر 185 صفحات پر مشتمل مشاورتی مقالہ پیش کیا۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ ایک متحد قوم کو لازمی طور پر یکسانیت کی ضرورت نہیں ہے۔ سیکولرازم ملک میں رائج تکثیریت سے متصادم نہیں ہو سکتا۔ مقالے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اس وقت مطلوب ہے۔ 21ویں لا کمیشن نے عائلی قانون میں تمام طبقات کے لیے یکساں قوانین بنانے کے بجائے مختلف طبقات میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے قانون سازی پر زور دیا ہے۔ کمیشن نے ثقافتی اور سماجی تانے بانے کی تشکیل اور اس کے تحفظ کے لیے تنوع اور تکثیریت کا بقا ضروری ہے۔ ملک میں ذات پات کے تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے موجود قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے لا کمیشن نے کہا کہ مختلف طبقات کے ثقافت اور اس کی روایات کو کیوں نہیں برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے کمیشن یکساں سول کوڈ کے لیے سفارشات پیش کرنے کے بجائے امتیازی قوانین سے نمٹنے پر زور دیتی ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ کسی خاص مذہب اور اس کے ذاتی قوانین میں امتیازی سلوک، تعصبات اور دقیانوسی تصورات کا مطالعہ کیا جانا چاہیے اور اس میں ترمیم کی جانی چاہیے۔
یکساں سول کوڈ حقائق کی روشنی میں
آئین ساز اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو لے کر بنگال کے نذیر احمد حسین اور دیگر ممبران کے درمیان کافی تفصیلی بحث ہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر کا موقف سب سے زیادہ متضاد تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ رضاکارانہ طور پر ہونا چاہیے۔ اس کو شہریوں پر مسلط نہیں کیا جانا چاہیے۔سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت والی ذیلی کمیٹی نے 5-4 کی اکثریت سے یہ تجویز پاس کی کہ یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کا حصہ نہیں ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے حامیوں کی دلیل ہے کہ ملک میں زیادہ تر فوجداری اور دیوانی معاملات، جیسے کریمنل پروسیجر کوڈ، سول پروسیجر کوڈ اور کنٹریکٹ ایکٹ میں یکسانیت ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سی آر پی سی اور آئی پی سی میں ریاستوں نے اپنے اپنے طور پر ریاستوں کے حالات کے تناظر میں ترامیم کیے ہیں۔ پیشگی ضمانت کے قوانین مختلف ریاستوں میں الگ الگ ہیں، اسی طرح مرکزی حکومت کے موٹر وہیکلز ایکٹ میں بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں نے ترمیم کر کے جرمانے کی رقم کم کی ہے یعنی کریمنل، فوجداری اور ضابطہ اخلاق قوانین میں تکثیریت ہے تو پھر مختلف طبقات کے متنوع پرسنل لا میں یکسانیت کیسے لائی جاسکتی ہے؟
یکساں سول کوڈ کے حامیوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ ہندو کوڈ بل کی تشکیل دے سکتی ہے تو دیگر پرسنل لاز میں پارلیمنٹ کے ذریعہ یکسانیت کیوں نہیں لائی جا سکتی ہے۔ مگر ہندو کوڈ بل کے خلاف ہندو حق کی مزاحمت کی تاریخ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کے تمام ہندو یکساں پرسنل لا کے تحت نہیں چل رہے ہیں۔ مشہور اسکالر اور سابق وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ 1955 کے ہندو میریج ایکٹ کے تحت قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادیوں پر پابندی ہے لیکن جنوب میں قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں۔ 1956 کے ہندو جانشینی ایکٹ میں بھی کئی ترامیم کیے گئے ہیں۔
نوآبادیاتی دور 1937 میں منظور کیا گیا شریعت ایکٹ (مسلم پرسنل لا) بھی ملک کے تمام ریاستوں میں یکساں طور پر نافذ نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں شریعت ایکٹ نافذ نہیں ہوتا ہے اور مسلمان روایتی قانون کے تحت چلتے ہیں جس کے کئی قوانین شریعت ایکٹ سے متصادم ہیں۔ عیسائی پرسنل لا کی بھی صورت حال کچھ اسی طرح کی ہے۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے ’’گوا میں نافذ یکساں سول‘‘ کی روشن مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب گوا میں یہ نافذ ہو سکتا ہے تو باقی ملک میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ مگر ماہرین قانون نے گوا یکساں سول کوڈ میں کئی ایسے قوانین کی نشان دہی کی ہے جس میں ہر طبقے کے لیے الگ قوانین ہیں۔ 1867 کا گوا سول کوڈ جو پرتگالیوں نے دیا تھا، خدا اور پرتگال کے بادشاہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ ہندوؤں کی مخالفت پر کوڈ نے ہندوؤں کے لیے کچھ شرائط پر محدود تعدد ازدواج کی اجازت دی جس میں مرد کے مسئلے کی مطلق غیر موجودگی، پچھلی بیوی کا 30 سال مکمل ہونا اور کم عمر ہونا، آخری حمل سے دس سال گزر جانے کے بعد دوسری شادی کی اجازت ہے۔ گوا سول کوڈ میں کیتھولک فرقے کو بھی کچھ رعایتیں دی گئی ہیں۔ کیتھولک فرقہ کو اپنی شادیوں کو رجسٹر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور کیتھولک پادری چرچ میں کی جانے والی شادیوں کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ چرچ ٹربیونل شرعی عدالتوں سے ملتے جلتے ہیں۔اسی طرح میزورم، منی پور اور میگھالیہ میں ہندو کوڈ بل نافذ نہیں ہے بلکہ وہاں الگ قوانین نافذ ہیں۔ آسام کی بی جے پی حکومت بھی یکساں سول کوڈ کے نام پر غیر مطمئن ہے کیونکہ آسام میں کئی ایسی کمیونٹیاں جن کے اپنے پرسنل لاز ہیں اور اگر ان کے پرسنل لاز کو ختم کیا گیا تو وہ مخالفت میں آسکتے ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے قبائلیوں کے بھی اپنے رسم و رواج ہیں جن میں چھیڑ خانی کو وہ برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم پرسنل لا انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے۔ دیگر پرسنل لاز کی طرح مسلم پرسنل لا میں من مانی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی وجہ سے مسلمانوں کا رد عمل فطری ہے۔ تاہم اس معاملے میں اگر حکمت عملی سے کام لیا جائے تو یکساں سول کوڈ کے نام پر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی حکمت عملی کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ سات دہائیوں بعد بھی اب تک کوئی یکساں سول کوڈ کا مسودہ حکومت پیش نہیں کر سکی ہے جس پر ملک کے تمام ہندو ہی متحد ہو جائیں۔ دراصل اس پورے معاملے میں عدلیہ کے جج صاحبان بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ ملک کے 80 فیصد قوانین میں یکسانیت ہے اس کے باوجود ملک متحد اور منظم کیوں نہیں ہے، بلکہ دیکھا جا رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت ملک کے عوام کو کئی خانوں میں تقسیم کر رہی ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ریاستی سطح پر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا شوشہ چھوڑ کر کیا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ زرعی ایکٹ پر منہ کے بل گرنے کے بعد مرکزی حکومت کوئی بھی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہے گی جس کی وجہ سے اسے اپنے قدم پیچھے ہٹانا پڑے۔ مرکزی حکومت کو یقین ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات جب بھی آئے گی مسلمانوں اور عیسائیوں کے علاوہ سیکڑوں طبقات ہیں جو مخالفت میں سڑکوں پر اتر جائیں گے۔کوئی بھی اپنی قدیم روایات کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نام پر ہندوؤں کو پولرائز کر کے انتخابات جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں اس لیے بی جے پی چاہتی ہے کہ یہ ایشو کبھی ختم نہ ہو بلکہ باقی ہی رہے۔

( بشکریہ دعوت نیوز )

«
»

’پسماندہ مسلمانوں‘ سے ہمدردی حقیقی یا تقسیم کرنے کی سازش؟

جناب مقصود حسن صاحب: ایک مخلص اور کامیاب استاذ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے