اُمّت ِ مسلمہ ایک عظیم محسن سے محروم

 تحریر : صفی اللہ قاسمی

 مہتمم جامعہ تعلیم البنات،شیموگہ

آہ مظفر کولا صاحب!
    رات کے تقریباً 30۔11/ بجے مولانا شکیل صاحب ندوی قاضی منکی بھٹکلی کا میرے موبائیل پر مسیج کی دھیمی سی آواز آئی جب میں نے وائس مسیج سنا تو حواس باختہ ہوگیا،مجھ پر فوراً گریہ طاری ہوگیا،پھر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا،اس دردناک خبر پر مجھ کو یقین نہیں آرہا تھا تو میں نے اُسی وقت مولانا شکیل صاحب ندوی کو فون ملایا تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے مکمل تحقیق کے بعد آپ کو یہ میسج بھیجا ہے،اُس کے بعد میں نے مرحوم مظفرکولا صاحب کے فرزند ِ ارجمند مولوی عبداللہ ندوی سلمہٗ کو فون ملانے کی بار بار کوشش کی لیکن مسلسل موبائیل بزی تھا پھر میں نے مرحوم کے داماد مولوی موسی ندوی صاحب سے فون پر رابطہ کیا تو اُنہوں نے اس خبر کی تصدیق کی اور یہ کہا کہ اب مظفرکولا صاحب سفر ِ آخرت پر روانہ ہوچکے۔انا للہ وانّا الیہ راجعون
    یہ جملہ سنتے ہی میرے اوسان خطاہوگئے اس لئے کہ مجھے مرحوم سے گہرا تعلق تھا،پھر اس کے بعد مولوی موسی ندوی صاحب نے بتایا کہ ابھی میّت کو منگلور سے بھٹکل لے جانے کی کوشش چل رہی ہے انشاء اللہ تفصیلات بعد میں بتاؤں گا۔میں نے اُسی وقت بھٹکل جانے کی تیاری شروع کی پھر نماز ِ فجر سے فارغ ہوکر چلنے کا ارادہ کیا لیکن ڈرائیور کا نظم نہ ہو سکا،میں خود ڈرائیونگ کرنے پر بھی آمادہ ہوگیا، لیکن بھٹکل اپنے ایک ساتھی کو فون ملایا تو معلوم ہوا کہ نماز ِ فجر سے پہلے بھی ہی تدفین ہوچکی،یہ خبر سن کر میں مزید افسردہ ہوگیا،میں نے یہیں سے مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کیا، تاکہ اس کے ذریعہ مرحوم کو نذرانہ ئ عقیدت ومحبت پیش کیا جائے۔

مرحوم سے میرے تعلقات:
    مرحوم مظفر کولا صاحب کا ہمارے جامعہ تعلیم البنات شیموگہ سے گہرا تعلق تھا،مرحوم بار بار جامعہ کی خبر لیا کرتے تھے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا کرتے تھے،اور ساتھ میں اُن کا ہمارے جامعہ کے ساتھ مالی تعاون بھی رہتا اور اپنے فرزند مولوی عبداللہ ندوی اور داماد مولوی موسی صاحب ندوی سے کہتے کہ اس جامعہ کا خاص خیال رکھنا اور اُس کا تعاون بھی کرتے رہنا،جب اُن کے صاحب زادے مولوی عبداللہ ندوی کی شادی ہوئی تو مرحوم شیموگہ پہنچ کرہمارے جامعہ تعلیم البنات میں بکرا ذبح کیااور جامعہ کی طالبات کو ولیمہ کی دعوت دی،اور دوبی ئ فون کرکے اپنے صاحب زادوں سے کہا کہ میں جامعہ تعلیم البنات کے بچیوں کو شیموگہ میں ولیمہ کی دعوت کھلارہا ہوں اور بڑی خوشی کا اظہار کیا،ایسا محسن اب ہمیں کہاں ملے گا،جامعہ کی طالبات ایسے مشفق محسن وکرم فرما سے محروم ہوگئیں،اس طرح ہمارے جامعہ کے ساتھ اُن کی یہ دل چسپی تھی جب بھی میں بھٹکل جاتا تو مجھ سے یہ کہتے کہ جامعہ کے لئے جلد سے جلد آپ زمین مہیا کرلو انشاء اللہ بلڈنگ کی تعمیر میں کرادوں گا،دوسری مرتبہ پھر مجھے مرحوم نے خود یہاں تک کہا کہ آپ دوکروڑ کی عمارت کا بہترین پلان اچھے ماہر انجینئر سے بنالو انشاء اللہ میں اپنے صَرف ِ خاص سے تعمیر کرادوں گا۔

ہندوستا ن کے علماء و مدارس کا تعاون:
    اس کے علاوہ ہندوستان کہ بڑے بڑے اداروں سے اورمعروف علماء وصلحاء سے مرحوم کا تعلق رہا،دارالعلوم دیوبند ہو یا دارالعلوم ندوۃ العماء لکھنو ہو یا جامعہ اسلامیہ بھٹکل یا ہندوستان کے دیگر مدارس ہوں سب اداروں سے ان کا خصوصی تعلق وربط رہا،اسی طرح وہ ہر ایک کے ذاتی طورپربھی محسن رہے ہم نے اُنہیں بہت قریب سے دیکھا ہے، مرحوم واقعی اُمّت ِ مسلمہ کے حق میں منجانب اللہ نعمت ِ عظمیٰ کا درجہ رکھتے تھے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ مرحوم کا دل اسلامی جذبہ سے سرشار تھا وہ چاہتے تھے کہ حضرات ِ علماء کرام اور دینی اداروں کے ذریعہ تبلیغ ِ اسلام کا کام ساری دنیا میں خوب پھیلے اور تمام دنیا کے مسلمانوں میں دینی تعلیم عام ہواس طرح ملّت ِ اسلامیہ کا سر اونچا ہونیز مسلمانان ِ عالم سکون و اطمینان کی سانس لیں، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن پاؤں میں پامال ہوں،بہر ِ کیف ملّت ِ اسلامیہ کا درد اور سوز انتہائی طورپر مرحوم کے قلب میں موجزن تھا،اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو مال ودولت سے خوب نوازا تھا،مرحوم بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اپنا مال خوب خرچ کرتے اور مرحوم کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ وہ خود ہندوستان کے دینی اداروں کا بھر پور تعاون فرماتے اور دیگر اصحاب ِ ثروت سے بھی اداروں کا تعاون کرواتے اور اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کی ایسی صفت مرحوم کے اندر ودیعت کردی تھی کہ جس کا تصور نہیں کرسکتے ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ رمضان المبارک کے ایام میں بیت اللہ کے احاطہ میں افطاری و سحری کے لئے باقاعدہ لنگر لگایا کرتے تھے اور یتیموں غریبوں اور مسکینوں پر بے تحاشا مال خرچ کرتے ہر ایک کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آتے اور مرحوم کو علماء و صلحاء سے بہت قریبی تعلق تھا چنانچہ جب بھی علماء وصلحاء اُن سے ملاقات کرتے تو اُن کا خوب اعزاز واکرام فرماتے اور دعائیں لیتے،بھٹکل میں ”باغ ِ رحمت“اُن کا مکان گویا علماء وصلحاء اور اولیاء کے لئے بطور ِ مہمان خانہ وقف تھا ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے علماء کرام بھٹکل تشریف لاتے تو اسی ”باغ ِ رحمت“ میں قیام فرماتے اس کے علاوہ مرحوم اپنی طرف سے بھی علماء کرام کو اپنے یہاں مدّعو بھی کرتے،جب مرحوم نے بھٹکل میں اپنا نیا مکان تعمیر کروایا تو اُس کا افتتاح خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی سابق مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند کے دست ِ مبارک سے کروایا،چونکہ مرحوم کا خاندان ِ قاسمی سے والہانہ ربط تھا اور ہمیشہ ملاقاتوں کے دوران حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیّب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے قیمتی اقوال کا ذکر کرتے اور حضرت تھانوی کے بہت بڑے معتقد تھے،اسی طرح مفکر ِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے بھی مرحوم کا خصوصی تعلق رہا،دوران ِ گفتگو انہیں علماء کرام کے اقوال کا حوالہ دیکر بات کرتے اور علماء کرام سے بہت خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے اور اُنکا اکرام و اعزاز کرتے۔ایک مرتبہ اُنہوں نے مدرسہ مظہر العلوم شیموگہ کو ترقی دینے کی خاطر مفتی مجیب اللہ صاحب رشادی وقاسمی کو دوبی ئ مدّعو کیا تھا اور الحمد اللہ وہاں سے مظہر العلوم کا کافی تعاون کروایا تھا اسی طرح سوائی پالیہ کا تعمیری کام سن1996ء میں چل رہا تھا تو کمیٹی کی طرف سے بات رکھی گئی کہ ماربل بچھانے کے لئے ایک لاکھ روپئے کا تخمینہ ہے تو الحمدللہ انہوں نے اپنی طرف سے ایک لاکھ روپئے عطا کئے۔ اسی طرح شیموگہ کی مشہور مسجد ”مسجد رضوان“ کے چندہ کے سلسلہ میں کمیٹی کے افراد کے ساتھ جب مرحوم مظفر صاحب سے بات چیت ہوئی تو وہاں کے لئے 2002ء میں پچاس ہزار روپئے کا تعاون کیا تھا۔ 

ہندوستان میں مساجد کا جال:
    ”تعمیر ِمساجد جمعےۃ السنۃ الخیریہ الہند“کی جانب سے سارے ہندوستان میں جو مساجد کا جال پھیلا ہوا ہے اُس کی روح ِ رواں  یہی تھے،اس لئے کے حضرت مولانا ایوب صاحب ندوی اورمولانا اقبال صاحب ندوی مرحوم کو گلف لے جانے والے یہی تھے جس کا اعتراف خود مولانا ایوب صاحب ندوی نے بار ہا کیا ہے اور ہم نے مرحوم کو بالمشافہ دیکھا ہے کہ جب عربوں کا وفد آتا،یا عرب کے مخصوص مہمان آتے تو مرحوم ہی کے گھر ان لوگوں کا قیام رہتا اور ہم سب مل کر مختلف قریوں کا سفر کرتے اور وہاں کی تعمیر شدہ یا زیر ِ تعمیر مساجد کا جائزہ لیتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کرتے تھے۔مرحوم دیہاتیوں سے بے انتہا خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آتے اور اُن کے چھوٹے بچوں کو اپنے ہاتھوں اور گودی میں کھلاتے اور پیار و محبت سے پیش آتے،مرحوم کا یہ روےّہ ہم ساتھ میں جانے والے احباب کو بہت گراں گزرتا تو مرحوم ساتھیوں کو سمجھاتے کہ بھائی یہ لوگ غریب ہیں مسلمان ہیں اور اللہ کے بندے ہیں لہٰذا ان سے پیار ومحبت سے پیش آنا چاہئے اور بعض قریوں میں خود اپنے ہاتھوں سے رقم تقسیم کرتے۔حضرات علماء کرام اور مطالعہ
 کے شوقین حضرات کو جسٹس حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی تفسیر”آسان ترجمہ ئ قرآن“خود طبع کرا کے مفت تقسیم کیا کرتے۔بڑے مہمان نواز اور فیاض مزاج انسان تھے اُن کی مہمان نوازی کو ہم کبھی نہیں بھلا سکتے اور مرحوم کے ساتھ کے شب وروز کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔اور یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ مرحوم مولانا محمد اقبال صاحب ندوی سے بارہا یہ کہا کرتے تھے کہ ہندوستا ن میں مساجد کی تعمیر کا کام مسلسل چلتے رہنا چاہئے اوریہ کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے ساتھ اپنے معاون صفی اللہ کو بھی دوبی ئ لے کر آئیے تاکہ یہ مساجد کا تعمیری کا م ہم لوگوں کے بعد بھی مسلسل جاری رہے اور مجھ سے خود کہتے کہ تم مولانا اقبال صاحب کے ساتھ دوبی ئ کیوں نہیں آتے؟اور اپنا پاسپورٹ میرے حوالے کردو میں دوبی ئ کا ویزا لگوادوں گا۔اس طرح مساجد کے کام کو آگے بڑھاؤ اور ترقی دو،اُس وقت مرحوم کی یہ سب باتیں سن کر ہم ٹال دیتے اور خاموش ہوجاتے،اب اُن کی یہ سب باتیں قصہئ پارینہ معلوم ہورہی ہیں۔
    ہم نے مرحوم سے بہت ساری چیزیں اور سلیقہ سیکھا جو ناقابل ِ بیان ہے ”کولا“خاندان کا ہر فرد ہمارے لئے خاص ہے،اللہ تعالیٰ اُمّت ِ مسلمہ کو مرحوم مظفر کولا کا نعم البدل عطاء فرمائے اور مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور متعلقین اور گھر والوں کو صبر ِ جمیل عطاء فرمائے،اُن کی اولاد وذرےّت کو اُن کے نقشہ قدم پر چلائے،اپنے والد کی طرح اعمال ِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین برحمتک یا ارحم الراحمین

  26  جولائی 2020 (ادارہ فکروخبر بھٹکل) 

«
»

عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے