محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل
عصر کے قریب ہم ڈربن پہنچے، یہاں ہمارا قیام حاجی یوسف دیسائی نے شہر سے دور زیمبالی اسٹیٹ میں کیا تھا اور وہ خود وہاں ہمارے منتظر تھے، حاجی صاحب یہاں کے ایک دین دار اور صاحب خیر بزرگ ہیں، بڑے پیمانے پر تجارت بھی کرتے ہیں، مولانا عبد الحمید صاحب دامت برکاتہم (آزاد ویل) کے خلیفہ ہیں، مولانا خلیل صاحب کے بڑے کرم فرما ہیں، حاجی صاحب نے ہمارے قیام کے لیے ایک پرسکون مقام کا انتخاب کیا تھا، پھر مزید کرم یہ کہ بحیرۂ عرب کے ساحل پر بسنے والے ہم جیسوں کی خواہش کے احترام میں شام کی ضیافت بھی سمندری کھانے (سی فوڈ) سے کی۔ زیمبالی اسٹیٹ کے نام سے پہاڑ کے اوپر جنگل کے بیچ ایک وسیع قطعۂ اراضی پر انفرادی نوعیت کی بھی رہائش ہے اور کئی ایک شیش محل بہ نام معیاری ہوٹل بھی موجود ہیں، جہاں کے مقیمین کے لیے انفرادی طور پر بیٹری کی گاڑیاں بھی دست یاب ہیں۔ شہر کے ہنگاموں سے دور کچھ وقت گزارنے کے خواہش مند حضرات کے لیے یہ ایک مناسب مقام ہے مگر اس کی قیمت کی ادائی ایک متوسط طبقے کے شخص کے لیے دشوار ترین بھی۔
ڈربن میں ہمیں ایک کئی ملاقاتیں کرنی تھیں، جن میں ایک اہم ترین ملاقات یادگار اسلاف اور جانشین سید الطائفہ ڈاکٹر سلمان ندوی (ابن علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمۃ) سے تھی، سید صاحب کا نام آئے اور ایک ندوی کے دل میں ان سے عقیدت اور محبت کے جذبات نہ ابھریں شاید ناممکن ہے، علامہ سید سلیمان ندوی اور حضرت مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہم اللہ ندوی برادری ہی کیا اہل علم واصحاب دل کے سر کا تاج ہیں، ڈاکٹر صاحب سے ندوے اور رائے بریلی کے قیام میں بھی ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے، ۲۰۰۷ میں مرکز الإمام أبو الحسن الندوي کے قیام کے موقع پر آپ تشریف لائے تھے اور اس موقع پر حضرت تھانوی اور سید صاحب کے تعلقات پر آپ نے جو خطاب فرمایا تھا اسے تعمیر حیات کے لیے قلم بند کرنے کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی تھی، بھٹکل کی تشریف آوری کے موقع پر میں کسی اور سفر میں تھا اس لیے دست بوسی ممکن نہ ہوسکی تھی، سو ڈربن کے سفر بلکہ جنوبی افریقہ کے سفر سے قبل ہی نیت کرلی تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے اجازت لے کر ان کے دولت کدے پر حاضری اور ان کے دیدار سے آنکھیں ضرور منور کی جائیں گی۔
ڈاکٹر صاحب کا نمبر حاصل کرکے ان سے ملاقات کی اجازت چاہی، وہ کسی میٹنگ میں مصروف تھے، اس لیے ہم لوگوں نے وقتی طور پر ڈربن کے شمالی ساحل (North coast) کا رخ کیا، جہاں کی سڑکوں پر مولانا موسیٰ کے بقول کسی زمانے میں کسی سیاہ فام شخص کا گزرنا بھی ممکن نہیں تھا اور آج پوری دنیا ہی بدلی ہوئی ہے، ایک رَستاخیز برپا، ایک بھیڑ تماشائیوں کی، کبھی سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر اور کبھی پانی میں اتر کر موجوں کا لطف لے رہے ہیں، لبِ ساحل ہوٹلوں میں دادِ عیش دے رہے ہیں۔
اتنے میں ڈاکٹر صاحب کا فون آیا اور ہم لوگ ان کے دولت کدے پر پہنچ گئے، پرنور چہرہ، سید الطائفہ کی یادگار، یہاں کے علمی حلقوں کی اب بھی جان بنے ہوئے ہیں، دروس ہوتے ہیں، عمر کی دسویں دہائی میں بھی ماشاء اللہ چاق وچوبند اور نشیط، اللہ تعالیٰ سلامت رکھے، خود فرمایا کہ میری عمر ترانوے برس ہے اور اب بھی میں ڈرائیو کرتا ہوں۔ تعارف ہوا، مختلف موضوعات پر رہ نمائی فرمائی، زیادہ تر سید الطائفہ اور حضرت تھانوی ہی کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
زنجبار کے مہمان بھی پہنچنے والے تھے اس لیے ہم لوگ با دل ناخواستہ اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اور دعا کی درخواست کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے۔
شام کے وقت حاجی یوسف دیسائی نے دعوت کی تھی، پر لطف عشائیہ کے ساتھ ان کی پرلطف گفتگو نے بھی محظوظ کیا۔
یہاں کی زیادہ تر عمارتوں اور اکثر محلوں میں محافظ (سیکوریٹی گارڈز) ہوا کرتے ہیں، بلکہ بعض احباب تو اپنے دفاع کے آلات بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں، کیوں کہ بدامنی اور جان ومال کا عدم تحفظ ایک عام اور گمبھیر مسئلہ ہے جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔
(سفرنامہ جنوبی افریقہ 10)
(سخنؔ حجازی۔ زیمبالی اسٹیٹ۔ ڈربن۔ جنوبی افریقہ۔ بارہ اکتوبر 2024)۔