اتفاق سے روس نے بھی اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کے لئے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے کان کھڑے ہوگئے۔پرویز مشرف نے اپنی کتاب In Line Of Fire شعلوں کے درمیان میں لکھا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو سمجھایا کہ اگر افغانستان پر روس کی بالادستی قائم ہوجاتی ہے تو نہ صرف ایشیا میں اس کے واحد اتحادی پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ روس ہندستان کے ساتھ مل کر ایران ،عراق سعودی عرب سے لے کر شام اور مصر پر اپنی بالادستی قائم کرکے خود کو ایک زبردست طاقت میں تبدیل کرلے گا اور پھر امریکہ سپر پاور بھی رہے گایا نہیں اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔امریکہ نے وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرلیا اور پھر دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں نے جنگوں کی تاریخ میں جد ید روایت کی شروعات کردی جسے ہم Proxy War یعنی سرد جنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی جنگ میں دشمن کی موجودگی کا احساس تو کیا جاسکتا ہے مگر اس کا چہرہ واضح نہیں ہوتا ۔اس جنگ میں روس اپنے انجام کوتو پہنچ گیا مگر خود امریکہ نے افغانستان کے علاوہ ویتنام ،لیبیا اور صومالیہ وغیرہ میں مداخلت کرکے اپنے آپ کو بری طرح زخمی کرلیا یا یوں کہہ لیجئے کہ سپر پاور وں کے سپر پاور نے حالات کو ایسے بدلا کہ امریکہ بھی اس کی دلدل میں قید ہوتا چلا گیا اور بعد کے حالات میں طالبان ،القاعدہ،اسامہ بن لادن ،آیت اللہ خمینی اور صدام حسین کی دہشت سے وہ آزاد نہیں ہو سکا۔پھر بھی دنیا کے دیگر چھوٹے ملکوں کے حکمرانوں کی عافیت اسی میں رہی کہ وہ ان دونوں تھکے ہارے ہوئے شکاریوں کے خیموں میں بٹے رہیں۔خاص طور سے عرب کے موجودہ نام نہاد خودساختہ حکمراں اس لعنت سے پاک نہیں ہوسکتے تھے تو اس لئے کہ جہاں یہ لوگ شیعہ سنی جیسے شدید مسلکی اختلاف میں مبتلا رہے ہیں اکثر ان کے سروں پر عوامی بغاوت کا بھی خطرہ منڈلا تارہا ہے۔ ۲۰۱۰میں یہ خطرہ حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ممکن تھا کہ تیونس سے اٹھنے والی عرب بہار کی سونامی میں سارے عرب کے حکمرنوں کا صفایا ہو جاتا ۔مگر شام اور مصر میں ایران اور سعودی عرب نے روس اور اسرائیل کی مدد لے کر (امریکہ اور اسرائیل کی نہیں جیسا کہ عام خیال ہے)وہی کردارادا کیا جو افغانستان میں پاکستان نے امریکہ کی مددسے حالات کا رخ بدل دیا۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ کے پرنسپل سکریٹری محمد محمدی کلبا بکانی شیراز شہر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف بھی کیا ہے کہ اگر تہران شام کی مدد نہ کرتا تو ہم عراق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے اور ایران کے لئے خطرہ پیدا ہو جاتا ۔
یوکرین اور خلیج میں روس اور امریکہ کی مداخلت کے تناظر میں خود روس کے سابق صدر گوربا چوف نے بھی جرمنی کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی صورتحال میں مبتلاہے۔چونکہ سرد جنگ میں جھوٹ اور منافقت کے ہتھیار کا بھی اہم کردار ہوتا ہے اس لئے ایرانی عہدیدار اور ان کے معاون صحافی حضرات ایران اور شام میں روس کی مداخلت کو نظر انداز کرجاتے ہیں اور شام میں اپنی مداخلت کے اخلاقی جواز کو درست ثابت کرنے کے لئے مسلسل یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ شام اور عراق میں امریکہ اور اسرائیل خفیہ طریقے سے دہشت گردتنظیم دولت اسلامیہ کی مدد کررہے ہیں ۔جبکہ ۲۰۱۰ کے عرب بہار کو ناکام بنانے میں ایران نے ظالم اسد رجیم کی مدد کرکے جو گھناؤنا کردار ادا کیا ہے اس کا اپنا گناہ بھی امریکہ اور اسرائیل سے کم نہیں ہے ۔مگر چونکہ عالم اسلام میں امریکہ اور اسرائیل کو شیطان کا درجہ حاصل ہے اس لئے وہ اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کو ہر معاملے میں گناہ گار ٹھہرا کر عالم اسلام کو گمراہ کرتے رہتا ہے۔خلیج کے اکثر اسلام پسند تبصرہ نگار ایران کی اسی منافقانہ روش کی وجہ سے شک کرتے ہیں کہ ایران خود خفیہ طریقے سے سی آئی اے اور موساد کے رابطے میں ہے اور اس نے پورے مشرق وسطیٰ پراپنی خلافت قائم کرنے کے لئے دولت اسلامیہ کو بھی کھڑا کیا ہے ۔ہمیں اس مفروضے پر اس لئے یقین نہیں ہے کیوں کہ اس نظریے کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے ۔نہ تو ایران خود سپر پاور ہے اور نہ ہی وہ بیک وقت روس اور امریکہ دونوں سے تعلقات قائم کرکے اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنے کا جوکھم لے سکتاہے۔اس کے برعکس زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ دنیا کے منظر نامے اور سپر پاور کے اتحادی ڈھانچے میں زبردست تبدیلی واقع ہو رہی ہے ۔یوکرین میں روس کا جارحانہ رویہ اور جزیر ۃالعرب میں امریکہ کی خاص دلچسپی مستقبل کی دنیا کو اپنے اپنے رنگ میں ڈھالنے کی ہی ایک ناکام کوشش ہے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو سپر پاور بنانے میں پاکستان اور اسرائیل نے اہم کردار ادا کیا تھا اب یہ دونوں ہی ممالک ایک تیسرے ابھرتے ہوئے سپر پاور ملک چین کے حق میں اپنی وفاداری بدلنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں ۔چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی اور تعلقات سے پوری دنیا واقف ہے جیسا کہ چین نے اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کے لئے پاکستان میں ایک وسیع سفارتخانے کی تعمیر کا آغاز بھی کردیا ہے۔پاکستان کے وزیر دفاع غلطی یا جان بوجھ کر یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ امریکہ اب اس کے لئے قابل اعتماد ساتھی نہیں رہا اور خود پاکستانی حکومت امریکہ کے حریف ملک روس کے ساتھ بھی دفاعی سودا کرکے امریکہ کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے وہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے ۔دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے سیاستدانوں کے درمیان تلخ بیانی کی خبروں کو یوں ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات نظر بھی آرہی ہے کہ یوروپ کے بیشتر ممالک نے اسرائیل کی مرضی کے بر خلاف فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دینے کی مہم شروع کرکے اسرائیل کو ایک طرح سے سرد جنگ کی کیفیت میں میں مبتلا کردیا ہے ۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے قیام کے لئے یوروپ اور امریکہ سے جو مدد لینی تھی وہ لے چکا اب اسے اپنی سلامتی اور بقا کے لئے آہنی سلاخوں کی ضرورت ہے۔ایک عرصہ اور زمانے سے یوروپ اور امریکہ کے حکمراں اسرائیل کویہ تحفظ مہیاکرابھی رہے ہیں لیکن جدید نسل بریڈ اور بٹر کے عوض اسرائیل کے لئے اپنا خون بہانے سے قاصر ہے ۔آپ سوچتے ہوں گے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اسرائیل کے عزم وا رادے میں کوئی فرق کیوں نہیں پڑا اور وہ مسلسل فلسطینیوں پر ظلم کرتا جارہاہے۔اس کا جواب خود قرآن دے رہا ہے کہ ’’انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں،مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگر چہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں‘‘۔
اسرائیل کی دوسری چال یہ ہے کہ اس نے خفیہ طریقے سے جو بہت خفیہ بھی نہیں ہے اپنے اسی بریڈ بٹر اور اقتصادی فریب اور جھانسے میں روس اور چین کے حکمرانوں کو قید کرلیا ہے۔بد قسمتی سے یوروپ اور امریکہ میں تو کچھ اخلاقی قدریں اور مذہبی رواداری کی روایت بھی زندہ ہے اور اکثر ظلم و جبر کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوتی رہی ہیں۔مگر روسی اور چینی تہذیب میں ایک ہی دسترخوان پر انسان اور حیوان دونوں کے گوشت کھائے جاتے ہیں۔جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے ہم نے لینن اور اسٹالن کے دور کی تاریخ پڑھی ہے جنہوں نے مساجد و خانقاہوں اور مسلمانوں کی لائبریریوں تک کو مسمار کردیا۔موجودہ چین میں سرکاری اور غیر سرکاری کمپنیوں کے مسلمان ملازمین پر صوم و صلوٰۃکی ادائیگی پر پابندی عائد ہے ۔مذہبی رواداری اور عقیدے کے خلاف چین کی شدت اور دشمنی کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کاذکر انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر ارون شوری نے اپنی کتاب Self Deception خود فریبی میں کیا ہے ۔واقعہ یوں ہے کہ تبت کی سرحد کے قریب جب ہندوستانی فوج نے دیکھا کہ چین کے فوجی بار بار ان کی سرحد کے ایک خاص مقام پر گھس آتے ہیں۔ہندوستانیوں نے وہاں پر بودھ کا مجسمہ نصب کردیا ۔ چین نے ہمارے فوجیوں کو تنبیہ کی کہ وہ اسے ہٹالیں۔جب ہمارے فوجیوں نے ایسا کرنے سے انکار کیاتو چینی فوجیوں نے اپنی ٹینک کھڑی کرکے بودھ کے مجسمے کو اڑادیا ۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ جن کے یہاں مذہب اور رواداری کا کوئی تصور ہی نہ ہو،جہاں انسان اور حیوان کو ایک ساتھ غذا کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی کراہیت نہ محسوس کی جاتی ہو یہ لوگ بریڈ اور بٹر کے پہاڑ کو قبضہ کرنے کے لئے کسی بھی حد کو پار کرسکتے ہیں۔ایسے میں طاقت کی دیوی اگر روس اور چین کے محور پر نمودار ہوتی ہے تو پھر دنیا کو یاجوج ماجوج اور یہود کی تباہی سے بچانے کے لئے کسی ذوالقرنین کو پھر سے پیدا ہونا پڑے گا!یہ قدر ت کی طرف سے ہے کہ یوروپ بدل رہا ہے اور مشرق وسطیٰ میں بھی نئے حکمرانوں کی آمد کا اشارہ ہے جو فتح اور شکست کی کشمکش سے مسلسل گذر رہے ہیں ۔ممکن ہے کہ ان کی مددکے لئے یوروپ سے کسی نجاشی اور ذوالقرنین کی آمد ہو۔جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل دولت اسلامیہ کی معاونت کررہے ہیں وہ درست ہیں مگر انہیں اسرائیل کو اپنے اس منفی پروپگنڈے سے باہر نکالکر سوچنا چاہئیے کہ اسرائیل اپنی دہلیز کے قریب موت کو دعوت کیوں دے گا ۔ہاں امریکہ اس لئے خفیہ طریقے سے دولت اسلامیہ کے ساتھ ہو سکتا ہے کیوں کہ اسرائیل اب اس کا وفادار نہیں رہا اور اسے بھی تو مستقبل کے یاجوج ماجوج کی طاقت کو سرد کرنے کے لئے طاقتور بازو کی ضرورت ہے جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے کہ دولت اسلامیہ کے قبضے سے عراق کے شہر تکریت کو آزاد کرانے کے لئے عراق اور ایران کی تیس ہزار فوجوں نے آگے بڑھنا شروع کردیا ہے مگر امریکہ نے یہ کہہ اس مہم سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے کہ عراق کے سنی مسلمانوں کے تئیں ایران اور عراق کی نیت درست نہیں ہے۔
جواب دیں