الٹی ہو گئیں سب تدبیریں …….

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

ان دنوں جھارکھنڈ میں بی جے پی کی شکست اور شہریت قانون کے خلاف احتجاج خبروں میں ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے دوسری بار حکومت میں آتے ہی تین طلاق، جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور شہریت قانون میں ترمیم کا بل پاس کرا دیا۔ اس کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے سبھی غیر مسلموں کو شہریت دینے کا التزام کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں برسوں سے التوا میں پڑے بابری مسجد، رام جنم بھومی مقدمہ کا فیصلہ بھی مندر کے حق میں کرا دیا۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے اپنے سنکلپ پتر میں درج بالا وعدے کئے تھے اور آر ایس ایس کی یہ برسوں پرانی مانگ تھی جسے پورا کیا گیا۔ کامن سول کوڈ کا نفاذ اور آبادی کنٹرول حکومت کے آئندہ منصوبہ کا حصہ ہے۔ ان اقدامات کے ذریعہ بی جے پی اکثریتی ووٹ بنک کو پولرائز کر اس پر ایک چھتر راج کرنا چاہتی ہے۔ لیکن جھارکھنڈ انتخاب کے نتائج اور شہریت قانون میں ترمیم کے بعد ہوئے ملک گیر مظاہروں نے ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا۔ 

جھارکھنڈ کی ایک ریلی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے چار مہینے کے اندر ایودھیا میں رام مندر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بوکارو میں ملک گیر این آر سی کا راگ الاپا تو نریندرمودی نے دمکا میں تشدد، فساد کرنے والے کپڑوں سے پہچانے جانے کی بات کرکے الیکشن کو پولرائز کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی نے ووٹ پولرائز کرنے کے لئے رام چندر جی کو بھی نہیں بخشا۔ انکو ہمیشہ جنگ جو کی شکل میں پیش کیا مگر یہ شری رام کا اصل روپ نہیں۔ وہ مریادہ پرشوتم تھے، ہتھیار انہوں نے مجبوری میں عوام کی بھلائی کے لئے اٹھایا۔ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے یا ذاتی مفاد کے لئے نہیں۔ راون کو مارنے کے بعد نہ جنگ کی اور نہ ہی شری لنکا پر حکومت۔ شری کرشن پوری زندگی محبت (کروڑاں) کا درس دیتے رہے۔ اور شیو نے تو دنیا کی بھلائی کے لئے خود زہر پی لیا تھا۔ 

شبری و کیوٹ کی اولاد اور برسامنڈا کے وارثوں نے جھارکھنڈ میں بی جے پی کو بتا دیا کہ رام مندر سے پہلے انہیں روٹی، روزگار اور کھیت میں پانی چاہئے۔ انہیں تقسیم کرنے والا قانون نہیں بلکہ تعلیم، صحت، سکون اور بھائی چارہ چاہئے۔ انہیں گؤ رکشا کے نام پر جھارکھنڈ میں فرقہ وارانہ غنڈہ گردی برداشت نہیں، جل، جنگل، زمین اور دیگر قدرتی وسائل کو لوٹنے کی وہ کارپوریٹ گھرانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے نکسل واد کو ختم کرنے کے نام پر بے گناہ آدی واسیوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ آدی واسیوں کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات کو بھی قبول نہیں کیا۔ جن کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے گھروں کے باہر پتھروں پر لکھ دیا تھا کہ آئین میں انہیں جو حقوق دیئے گئے ہیں وہ ان کی بات کریں گے۔ کسان مخالف کاشت کاری قانون میں بدلاؤ کو بھی ریاست کے لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ 

پانچ سال کے دوران ریاست نفرت کی بنیاد پر جرم اور مجرموں کے لئے جائے امان بن گئی تھی۔ یہاں ہجومی تشدد کے 22 واقعات ہوئے۔ حد تو تب ہو گئی جب ہارورڈ ریٹرن مرکزی وزیر نے ہجومی تشدد کے گناہ گاروں کو پھول مالا پہنا کر عزت کی۔ آدی واسی اکثریت والی ریاست میں غیر آدی واسی کو وزیر اعلیٰ بنایا جانا بھی عوام نے قبول نہیں کیا۔ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ بی جے پی نے ریاست کی بدعنوانی کے خلاف اپنی ہی پارٹی کے سریو رائے تک کی بات کو ان سنا کر دیا۔ اس لئے عوام نے ان سبھی مدعو کو خارج کر دیا جن پر مودی شاہ نے ووٹ مانگے تھے۔ اس الیکشن میں انتخابی کمیشن نے بھی بی جے پی کے مدد گار کے طور پر کام کیا۔ جھارکھنڈ کا انتخاب مہاراشٹر کے ساتھ نہیں کرایا گیا تاکہ مودی و شاہ جھارکھنڈ پر پوری توجہ دے سکیں۔ جبکہ بی جے پی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی حامی ہے۔ 81 سیٹوں والی جھارکھنڈ اسمبلی کا انتخاب تین ہفتوں میں پانچ مراحل میں کرایا گیا۔ مگر انتخابی کمیشن کی یہ حکمت عملی بھی بھاجپا کے کام نہیں آسکی۔ 
شہریت ترمیمی قانون کی جس طرح پورے ملک نے مخالفت کی وہ انیکتا میں ایکتا کی مثال ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے عوام کو مذہب کے نام پر وقتی طور پر غصہ دلایا جا سکتا ہے یا مشتعل کیا جا سکتا ہے مگر وہ مستقل اس پر قائم نہیں رہ سکتے۔ یہ ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ بنیادی طور پر یہاں کے عوام امن پسند ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہوئے زندہ رہنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہندو مذہب میں اتنے تہوار بھی اس کا اشارہ ہیں۔ ایک عام ہندو کو لمبے وقت تک کسی ایک مسئلہ میں ٹانگ پھنسائے رکھنا پسند نہیں ہے۔ یہ بات بی جے پی اور اس کی آئیڈیل آر ایس ایس بھی جانتی ہے۔ اس لئے وہ الگ الگ ریاستوں کی زبان، مذہب، ذات، رسم و رواج، کھان پان، پہناوا، تہذیب و ثقافت اور ادب و فن کی انفرادیت میں جو یکسانیت پائی جاتی ہے اسی کو ٹکراؤ کی وجہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ سب کچھ وہ ہندو راشٹر کے خیالی تصور کے جذبہ کو ابھار کر کرتی ہے۔ اس حکومت کو سب کچھ ایک جیسا چاہئے، قدرت پر ان کا بس چلتا تو وہ باغیچہ میں کوئی اور پھول اگنے ہی نہ دیتے۔ جس طرح باغیچہ کو کھر پتوار، خود رو گھاس، جنگی پھولوں کی کٹائی چھں ٹائی کرکے خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ سرکار این آر سی، سی اے اے اور اب این پی آر کے ذریعہ ملک کی خوبصورتی کو گرہن لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

ملک اس بات کو سمجھ چکا ہے، تبھی بلا لحاظ مذہب و ذات سب شہریت قانون کے خلاف عوامی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے اس قانون کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ پورے ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں لیکن سرکار کا رویہ مظاہرین کے ساتھ ایک جیسا نہیں ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے وہاں اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ احتجاجی عوام پر لاٹھی، ڈنڈا اور گولیاں برسائی گئیں۔ سرکار کی طرف سے پولیس کی پینٹھ تھپتھپائی گئی۔ مگر پھر بھی شہریت قانون کے بہانے بی جے پی کی عوام کو بانٹنے کی تدبیر کامیاب نہیں ہو سکی۔ حکومت عوام سے اور عوام کے لئے ہوتی ہے۔ اگر عوام حکومت کے کسی فیصلہ کے خلاف ہیں تو ان پر اپنی مرضی تھوپنے کے بجائے سرکار کو عوام کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ حکومت چاہے تو یہ کہہ کر پیچھا چھڑا سکتی ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اور چاہے تو شہریت قانون سے مذہب کی قید کو ہٹا کر اس کا دائرہ شری لنکا، میانمار اور نیپال تک وسیع کر کے وہاں کی مظلوم اقلیت کے لئے راستہ کھول سکتی ہے۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو نہ صرف سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات ختم ہو جائیں گے بلکہ آئین کی لاج اور ملک کی تکثیریت کا بھرم دنیا میں قائم رہے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

یکم جنوری 2020

 

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے