عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
یہ ایک ظاہر و باہر حقیقت ہے کہ ہمارا زمانہ علم وعمل،تقوی و تدین اوراخلاص و للہیت ہر اعتبار سے قحط و افلاس کا زمانہ ہے،حرف علم سے آشنائی رکھنے والے تو بہت ہیں؛مگر نسبت علم کی لاج رکھنے والے،حق تعالی سے تعلق خاص رکھنے والے اور امت کے تئیں نصح و خیرخواہی کا جذبہ رکھنے والے معدودے چند ہیں۔شاید ایسے ہی زمانے کی پیشین گوئی کرتے ہوئے نبی پاکﷺنے ارشاد فرمایا تھا: اللہ علم کو چھین کر نہیں اٹھائے گا۔یعنی لوگوں سے علم کو یوں نہیں ختم کرے گا کہ ان کے درمیان سے علم کو آسمان پر اٹھا لے؛ بل کہ علم علماء ربانیین کی وفات سے اٹھتا چلاجائے گا۔یہاں تک کہ جب اللہ کسی بھی عالم کو نہیں چھوڑے گا یعنی ہر عالم کی روح قبض کر لے گا تو لوگ ایسے افراد کو اپنا خلیفہ، قاضی، مفتی، امام اورسردار بنا لیں گے جو جاہل ہوں گے،ایسے لوگوں سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جائے گا تو وہ بغیر کسی علم کے فتوی دیں گے اور بلا علم فیصلہ کر دیا کریں گے، یوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس طرح سے جہالت عام ہو جائے گی۔(بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر یہ (دین کا) علم (حاصل کرنا) لازم ہے اس سے پہلے کہ اسے اٹھا لیا جائے اور اس کا قبض ہونا(علماء کی موت کے سبب) اس کا اٹھا لیا جانا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو ملا کر فرمایا: عالم اور متعلم اجر میں برابر کے شریک ہیں اور (ان کے علاوہ) باقی لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(ابن ماجہ)
علم و عمل کے اعتبار سے اس گئے گزرے دور میں بھی جہاں کہیں فکرمند علماء موجود ہیں،وہاں کی عوام بڑی حد تک فتنوں سے محفوظ و مامون ہے اور جہاں علماء موجود نہیں یا متفکرو فعال نہیں وہاں باطل فرقے اور گم راہ جماعتیں سرگرم عمل ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنا جال پھیلانے اور حلقہئ اثر بڑھانے میں مصروف ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم سماج میں علماء ربانیین کی کیا اہمیت و حیثیت ہے۔حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں، وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں، جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔(ابو داؤد)
حدیث پاک میں نبی اکرمﷺنے علماء کو انبیاء کا نائب و خلیفہ قراردیاہے اور یہ نیابت ان تمام کاموں میں ہے جنہیں دے کر انبیاء کرام ؑکومبعوث کیا گیا۔اورنبیوں کے مقاصد بعثت میں اصلاح و تزکیہ بھی شامل ہے۔محترم مفتی تنظیم عالم قاسمی زید مجدہ ارقام فرماتے ہیں: اہل علم کی زندگی کا بڑا مقصد مسلمانوں کی رہنمائی اور ان کی اصلاح و تزکیہ ہے اور اس کے لیے ان سے رابطہ ضروری ہے۔رابطہ جتنا مضبوط ہوگا اتناہی ان کو نفع حاصل ہوگا اور اسی قدر عوام ان سے فیض یاب ہوں گے۔ تعلق کے بغیر علم کا نفع عوام کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ان کی اصلاح کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے کبھی اپنے لئے خطِ امتیاز قائم نہیں کیا۔آپ صحابہئ کرام سے اس طرح گھلے ملے رہتے تھے کہ نئے آنے والوں کو پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ ان میں کون امام اور کون مقتدی ہیں،کون تابع اور کون متبوع ہیں۔آپ جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو بالکل تمام کے برابر،زانوئے مبارک کبھی ہم نشینوں سے نکلے ہوے نہ ہوتے،مہمانوں کی خاطر تواضع خودآپ کرتے اور ان کی تمام ضروریات کی تکمیل کیا کرتے تھے۔صحابہئ کرام دل وجان سے آپ پر قربان تھے،آپ کے ایک اشارے پر سیکڑوں افراد تعاون کے لئے کھڑے ہو جاتے؛ مگر آپ نے انہیں سونپ کر کبھی یکسوئی اختیار نہیں کی۔
ایک مرتبہ نجاشی کے دربار سے چند سفراء آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوے۔آپ نے ان سب کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور بہ نفس نفیس مہمان داری کے تمام فرائض انجام دیئے۔صحابہئ کرام ؓنے عرض کیا کہ یہ خدمت ہم لوگ انجام دیں گے، آپ یہ خدمت ہمارے حوالے کر دیجئے۔آپ نے یہ کہتے ہوے اس سے انکار کردیا کہ ان لوگوں نے میرے دوستوں کی خدمت گزاری کی ہے؛لہذا میں خود ان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں (بیہقی)۔ حضرت جابر بن سمرۃ ؓبیان فرماتے ہیں کہ نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک آپ اپنی جگہ ذکر میں مشغول رہتے تھے۔سورج نکلنے کے بعد آپ اپنی جگہ سے اٹھتے پھر صحابہئ کرام کے ساتھ بیٹھ جاتے۔وہ لوگ زمانہئ جاہلیت کی باتیں کرتے اور اپنی مشرکانہ حرکتوں کو یاد کرکے آپس میں ہنسا کرتے تو آپ بھی ان کے تذکروں میں شامل رہتے، لطف اندوز ہوتے اور بعض باتوں پر مسکرایا کرتے تھے۔ (ملخص از؛علماء اور عوام کے مابین بڑھتی دوریاں)
اس وقت کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان‘علماء کرام سے نہ صرف دور ہوچکے ہیں؛بل کہ انٹرنیٹ سے دین سیکھنے کے عادی بن چکے ہیں،گوگل سرچ اور یوٹیوب کے ذریعہ اپنے سارے مسائل حل کررہے ہیں؛حالانکہ امام مالک ؒ نے اپنے زمانے کے حالات کو پیش نظر رکھ کر فرمایا تھا:یہ علم، دین ہے لہذا دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو، میں نے ستّر لوگوں کو اللہ کے نبی ﷺ کی مسجد میں ستون کے پاس یہ کہتے ہوئے پایا کہ فلاں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ لیکن میں نے ان سے کچھ نہ لیا، جبکہ وہ سب سب اس قدر امین تھے کہ اگر انہیں مال پر نگراں مقرر کر دیا جاتا تو وہ امانت دار نکلتے؛ لیکن وہ اس فن کے اہل نہ تھے۔ (ان کے بالمقابل) محمد بن شہاب الزہری رحمہ اللہ جب ہمارے پاس تشریف لاتے تو ان کے دروازے پر ہجوم لگ جایا کرتا۔(الفقیہ والمتفقہ علیہ)
آج لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتا کر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے انہیں علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانان ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، اسی لیے آج آپ کو سوشل میڈیا پر خاص طور سے نام نہاد مبلغین و دعاۃ اور محققین و برادرس کے القاب کے مصداق بہت سے افراد مل جائیں گے جو بزعم خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا ایک دو لکچر سن لئے وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز بنارہا ہے اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کررہا ہے۔اور ان سب کا واحدمقصد یہ ہے کہ عوام کا رابطہ علماء سے منقطع ہوجائے اور وہ بڑی حدتک اپنے مقصد میں کام یاب ہوچکے ہیں۔
ان پر آشوب حالات میں جہاں عوام الناس کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء سے مربوط رہیں،چھوٹے بڑے تمام مسائل میں انہی سے رجوع کریں،ان کی صحبت کو اپنے لیے نعمت و غنیمت سمجھیں،وہیں ائمہ و خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ منبر و محراب کے امین ہونے کی حیثیت سے عوام الناس سے اپنا رابطہ مضبوط کریں،ان کی خوشی اور غم کے موقعوں پر برابر کے شریک رہیں،ان کی اصلاح و تربیت کے لیے باضابطہ وقت فارغ کریں اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر ان کو شریعت سے جوڑے رکھیں۔اس سے ان شاء اللہ ہمارا مستقبل ماضی کی طرح تاب ناک اور روشن ہوسکتا ہے اور ہم تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کرسکتے ہیں۔
اخیر میں مفکر اسلام علی میاں ندویؒ کے پرسوز خطاب سے ایک چشم کشا اقتباس نقل کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں،مولانا نے طلباء اور علماء کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
حضرات!آپ علماء کرام ہیں، آپ زعماء قوم ہیں، آپ میں بڑے بڑے خطیب ومقرر ہیں، آپ انجمنوں کے بانی اور اس کے ستون ہیں،پہلی بات یہ ہے (یعنی آپ کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس کی فکر اور کوشش کریں)کہ اس سرزمین کی اسلامیت باقی رہے، یہ آپ کے ذمہ واجب ہے، کل حشر کا میدان ہوگااور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہوں گے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ عدالت کی کرسی پر ہوگا، اور رسول صلی اللہ علیہ کا ہاتھ ہوگا، اور آپ کا گریبان یا دامن ہوگا، آپ سے سوال ہوگا کہ اللہ نے اس سرزمین کو دولت اسلام سے مشرف کیا، اولیاء کرام کو وہاں بھیجا وہ اپنے کو خطرے میں ڈال کر اس وادی میں پہونچے انہوں نے خدا کا کلام اور پیغام وہاں کے باشندوں کو پہونچایا، پھر ہم نے اسلام کے پودے کو تن آور اور بار آور اور پر ثمر درخت بنایا اوروہ درخت سینکڑوں برس تک سرسبز شاداب اور پر ثمر وسایہ دار رہا، ہزاروں مسجدیں بنیں، سینکڑوں مدرسے خانقاہیں قائم ہوئیں، جلیل القدر علماء ومحدثین وفقہاء پیدا ہوئے؛ لیکن تمہاری ذرا سی غفلت وسستی یا اختلاف وانتشار یا کوتاہ نظری وکم نگاہی سے اسلام کا یہ باغ خزاں کی نذر ہوگیا۔ (خطبات علی میاں ص۲۰۴ج۵)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے
31جنوری2021(فکروخبر)
جواب دیں