کیف:(فکروخبر/ذرائع) روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے روس کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، تاہم انہوں نے اس کے لیے شرط عائد کی ہے کہ روس پہلے اپنے حملے بند کرے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حالیہ دنوں یوکرین کے ساتھ براہ راست بات چیت کا اشارہ دیا تھا، جس کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ اگر روس جنگ بندی پر راضی ہو جائے تو ہم کسی بھی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ماسکو اور کیف کے درمیان 24 گھنٹوں میں معاہدہ کروا سکتے ہیں۔ ان کی جانب سے یوکرین پر روس کے ساتھ جلد از جلد ڈیل کرنے کا دباؤ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس حوالے سے امریکی صدر نے بھی دو روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ رواں ہفتے کے دوران یوکرین اور روس کے درمیان امن معاہدہ ممکن ہے، جبکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ امن کوششیں درست سمت میں بڑھ رہی ہیں اور امریکی ایلچی روسی صدر سے بات چیت کے لیے جلد دوبارہ روانہ ہوں گے۔
ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جنگ بندی کے فوری امکانات پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کا کوئی فوری حل ممکن نہیں، ایک مختصر اور سخت وقت میں قابل عمل معاہدے کی امید رکھنا غیر حقیقی ہوگا۔
روسی صدر پیوٹن نے گزشتہ روز پیش کش کی تھی کہ روس موجودہ فرنٹ لائن پر حملے روکنے پر غور کر سکتا ہے۔ اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں پیوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والی ایک ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو بتایا تھا کہ ماسکو یوکرین کے چار جزوی طور پر زیر قبضہ علاقوں سے دستبردار ہونے پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے، جو تاحال کیف کے کنٹرول میں ہیں۔
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں فریق جنگ بندی کے کسی حتمی معاہدے سے ابھی دور ہیں، لیکن سفارتی سرگرمیوں میں تیزی امن کی طرف ایک مثبت اشارہ ہے۔