مظاہروں میں شریک ایک شخص سرگے بیلوف نے نے بی بی سی نیوز کو موجودہ صورتحال اور اپنی کیفیات کے بارے میں بتایا:میں یوکرین کا باشندہ ہوں میرے والدین بھی یوکرینین ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ کرائمیا بھی یوکرین کا حصہ ہے اور روس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے ہتھیا لے یا وہاں اپنی فوج بھیجے۔لیکن میں اس کے تحفظ کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔ معلوم نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ لڑائی نہیں ہے جس کے لیے جان دی جائے۔ یہ سیاسی جنگ ہے۔ یہ لوگوں کے لیے نہیں ہے۔
جب ہم میدان میں مظاہرہ کر رہے تھے تو ہمیں علم تھا کہ ہماری لڑائی کس کے خلاف ہے۔ یہ بد عنوانی کے خلاف تھی اور صدر کو ہٹانے کے لیے تھی۔ حکومت میں جرائم پیشہ لوگ تھے اور ایک سال میں یوکرین دیوالیہ ہونے کو تھا۔لیکن کوئی بھی چیز لوگوں کی زندگیوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ میرے لیے اس جگہ جانا بہت کٹھن ہے جہاں لوگوں کو مارا گیا۔ وہاں لوگ صرف مرے نہیں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ میں اور میرے بیوی انہیں کلینکس میں دیکھنے جاتے ہیں۔ انہیں اب ساری عمر مشکلات برداشت کرنا ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ اس لمحے میں دوبارہ پہنچ جائیں جب وہ زخمی ہوئے تھے تو کیا وہ تب بھی وہاں موجود رہنا چاہیں گے۔ تو ان میں سے بیشتر کا جواب تھا کہ قوی امکان ہے کہ وہ وہیں موجود ہوں گے۔
موت کا خوف:کیئف میں بلوہ پولیس کے ہاتھوں 100 کے قریب مظاہرین ہلاک ہوئے۔ ہم نہیں جانتے کہ یانو کووچ کو معزول کر دینے سے جنگ ہوگی یا نہیں۔ میں جنگ نہیں لڑنا چاہتا۔ شاید میں موت سے ڈر جاں۔لیکن اگر روسی فوج نے یوکرین کی فوج سے لڑنا شروع کر دیا اور میرے سر پر بندوق رکھ دی گئی تو شاید میں اس کے لیے تیار ہو جاں۔ لیکن میں ایسا کرنا نہیں چاہوں گا۔
کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا، میرے کئی روسی دوست ہیں اور میرے کئی رشتہ دار روس میں رہتے ہیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں ان پر گولی چلاں یا وہ مجھ پر گولی چلائیں۔میں آئی ٹی پروگرامنگ کے شعبے میں کام کرتا ہوں اس سے پہلے میں نے کبھی کسی مظاہرے یا ہڑتال میں حصہ نہیں لیا۔ پولیس کے اقدام نے سارے معاملے کو ہوا دی اور بدعنوانی کے حوالیسے میری آنکھیں کھولیں۔
پہلے پہل تو یہ احتجاج یورپی یونین میں انضمام کے لیے تھا لیکن مجھے اس کی اہمیت کا احساس اتنی شدت سے نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ پولیس نے مظاہرین کے ساتھ برتا کس طرح کیا۔ اس کے بعد یہ احتجاج حکومت کے رویے کے خلاف بھی ہو گیا۔اس ہفتے میں معمول کی طرح کام پر گیا اور قانون کی پاسداری کی۔ ہفتے کے اختتام پر میں میدان گیا اور نو روزہ احتجاج میں شریک ہوا۔ میرے پاس نہ تو کوئی پلے کارڈ تھا اور نہ ہی کوئی ہتھیار تھا، میں صرف وہاں دیگر لوگوں کے ساتھ کھڑا رہا۔میرے لیے یہ بہت تھا کہ میں وہاں موجود ہوں اور یہ میری بات پہنچانے کے لیے کافی تھا۔میرے لیے شرمندگی کی بات یہ ہے کہ فروری کے اختتام پر مشکل گھڑی کے دوران میں وہاں موجود نہیں تھا۔ میں بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔
مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب کیسے ختم ہوگا۔ میں نے سوچا یہ سب یونہی جاری رہے گا اور کچھ عرصے کے بعد لوگ تھک کر گھروں کی راہ لے لیں گے۔ مجھے بالکل یقین نہیں تھا کچھ بھی بدلے گا لیکن میں پھر بھی کچھ کرنا چاہتا تھا۔
جنگ ٹالی جا سکتی ہے:جب مجھے علم ہوا کہ یانوکووچ چلے گئے ہیں تو ان کے لیے کوئی احساس نہیں جاگا۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ میں صرف ان لوگوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو مارے گئے۔ وہ سابق سیاستدان ہے اور اسے کسی کو خون بہانے کا کوئی حق نہیں۔میں وہاں کھڑا تھا جہاں وہ لوگ ہلاک ہوئے تھے اور رو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں اس بات پر خوش تھا کہ یانو کووچ چلے گئے۔
مجھے نئی حکومت پر بھی یقین نہیں ہے۔ وہ بھی اسی گروہ سے ہیں اس میں بھی وہی سیاستدان ہیں جو ایک کابینہ سے دوسری میں آ گئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جھنڈے کا رنگ بدل گیا ہے۔ یہ وہی مراعات یافتہ طبقہ ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے حیران کن تھا کہ عوام ایک صدر کو ہٹانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ مستقبل میں اسے یاد رکھیں گے۔میں امید کرتا ہوں کہ دنیا کے دیگر ممالک پوتن کو اپنی فوج واپس بلانے کے لیے راضی کر لیں گے۔
اس وقت فوجیں کرائمیا میں ہیں وہ لڑ نہیں رہے لیکن ایک دوسرے کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ لیکن اب بھی جنگ کو ٹالا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارا ملک جارجیا یا چیچینیا بن جائے گا اور بہت سے لوگ زندگیاں گنوا دیں گے۔۔۔ میں بھی ان میں سے ایک ہو سکتا ہوں۔(نیوز ذرائع )
جواب دیں