اُجالوں کے زخم

اچھے ہی ہوں گے۔ اس کا لہجہ دھیما تھا۔ جانے کیوں مجھے اس کا لہجہ آنسوؤں سے بھیگا بھیگا سالگا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں کچھ جاننا چاہتا تھا‘ اسے لے کر قریب کی ایک ہندوستانی ہوٹل آیا۔ کچھ اپنی داستان سنائی۔ تیس بتیس سال کی محنت و مشقت کے باوجود آخر کیوں میں اپنا ذاتی گھر نہ بناسکا۔ اگر میں بھی چند برس سعودی یا گلف میں ہوتا تو شاید میرا اپنا ذاتی گھر ہوتا۔ تقدیر سے یہ شکوہ محض اس کا دل کا حال جاننے کے لئے تھا اور میں اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا۔ اس نے کہا۔ بھائی۰۰۰ آپ ناشکری کیوں کرتے ہو۔ اللہ کے فضل سے آپ اپنی جگہ کامیاب ہیں۔مکان کا ذاتی ہونا یقیناًاہم ہے مگر صرف در و دیوار یا چہار دیواری کا نام تو نہیں ہوتا۔ اس میں رہنے والوں سے مان گھر بنتا ہے۔ آپ نے بھلے ہی گھر نہ بنایا ہو‘ بھلے ہی آپ کا بنک بیلنس زیرو ہو مگر آپ کا سرمایہ آپ کا اثاثہ آپ کی اولاد ہیں۔ تعلیم یافتہ اولاد سے آپ کے کرایہ کا مکان بھی جنت بن سکتا ہے۔

اس نے فلسفیانہ لہجہ میں مجھے دلاسہ دیا۔ اچھا میاں تم نے گھر کہاں بنایا۔ میرے اس سوال کی اسے توقع نہیں تھی۔ کچھ دیر تک وہ خلاء میں گھورتا رہا۔ پھر دھیمے ہی لہجہ میں کہا۔ ابھی تک تو نہیں بنا میرا بھی گھر۔ کیوں۰۰۰۰ تم تو پندرہ بیس سال سے ہو یہاں پر ۰۰۰۰ہاں پرویز بھائی پندرہ بیس سال سے نہیں پندرہ بیس صدیوں سے ہوں۔ ہم جو گھر بار بیوی بچوں ماں باپ سے دور رہتے ہیں ان کے لئے ہر لمحہ ایک صدی ہوتا ہے۔ ہم مقدس مقامات پر ہیں یہاں ہم دعائیں کرسکتے ہیں مگر ہمارے دل و دماغ اپنے گھر ہی میں ہوتے ہیں۔ رہی بات میں اتنے برسوں سے یہاں رہنے کے باجود گھر کیو ں نہیں بناسکا تو اس کی وجہ شاید آپ بھی جانتے ہوں گے۔ کیوں کہ میری اپنی کہانی نئی نہیں ہے۔ یہاں رہنے والے سبھی این آر آئیز کی ایک ہی داستان ہے۔ تھوڑا بہت فرق ہوسکتاہے مگر سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں لیبر کے ویزا پر یہاں آیا تھا۔ دوسال تو ویزے کی فیس اداکرتے کرتے گزرگئے۔ پہلی بار گھر گیا تو ہر ایک کی خواہشات فرمائشیں تھیں‘ یہاں سے قرض لے کر گیا۔ حیدرآباد سے واپس ہوا تو وہاں سے قرض لے کر آیا۔ دوسال اسی قرض کی ادائیگی میں اور گھریلو اخراجات میں گزرگئے۔ چوں کہ دنیا والوں یا گھر والوں کے لئے میں ’باہر‘ تھا اس لئے شادی کی فکر تھی۔ کسے معلوم کہ ہم باہر کیا کام کررہے ہیں۔ تپتی ہوئی دھوپ‘ کڑاکے کی سردی ہو کام کرنا ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ اچھے ویزوں پر اچھی ملازمتو ں پر ہیں ان کے لئے مسائل نہیں ہیں‘ وہ اے سی میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں‘ بڑی بڑی کاروں میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ مگر مجھ جیسے لیبر کے لئے یہ سب محض خواب سے ہیں۔ کام کرکے تھک جاتے ہیں تو بھوک کا احساس بھی ختم ہوجاتا ہے۔ ویسے مجھ جیسے کتنے نام نہاد این آرآئیز ہیں جن کی بھوک خیالی پلاؤ سے مٹ جاتی ہے۔ بہرحال پرویز بھائی‘ شادی بھی ہوگئی‘ ظاہر ہے کہ ایک بار پھر قرض لے کر ہی کی گئی۔ باہر‘ رہنے والے کی شادی تو معیاری ہی ہوتی ہے نا۔؟ اس کا قرض آج تک ادا ہورہا ہے۔ دوسال میں ایک مہینے کی چھٹی پر گھر جاتاہوں۰۰۰ اس ایک مہینے کے لئے دوسال سے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ تین کی بجائے دو وقت کھالیتے ہیں۔ کبھی حرم میں تقسیم ہونے والے کھجوروں پر بھی رات کٹ جاتی ہے۔ اوور ٹائم کرکے ایک ایک ریال جمع کرتا ہوں اور ایک ایک آئٹم جمع کرتا ہوں۔ بیوی بھی ہے اور ماشاء اللہ دو بچے بھی ہیں۔ باہر سے واپس ہونے والوں کے لئے ضروری ہے کہ بیوی بچوں کے ساتھ دیگر ارکان خاندان کے لئے کچھ نہ کچھ تحائف ضرور خریدے جائیں۔ امی کو ایک شال بابا کو ایک محرومہ کافی ہوجاتا ہے۔ وہ کبھی فرمائش کرتے بھی نہیں۔ اور اب آپ سے کیا چھپاؤں شادی کے بعد پہلی بار بیوی اور امی دونوں کے لئے ایک ہی قسم کے کپڑے لے گیا تھا تو بیوی صاحبہ کا موڈ سعودی واپس ہونے تک بگھی بگڑا ہوا تھا ۔ امی کو اس کا اندازہ ہوگیا تھا انہوں نے آئندہ کسی قسم کے کپڑے یا تحفے لانے سے منع کردیا۔ اب کبھی شال یا کبھی ہلکی پھلکی سستی سی چیز لے جاتا ہوں۔ باہر ہوں اس لئے بچوں کا اچھے اسکول میں پڑھنا بھی ضروری ہے۔ مشنری اسکول میں پڑھتے ہیں ہیں میرے بچے۔ آپ کو تو معلوم ہوگا نا کتنا ڈونیشن دینا پرتا ہے۔ پھر گھر سے اسکول آنے جانے کے لئے آٹو لگاناہی پڑتا ہے۔ یہ سب اخراجات کیسے پورے ہوسکتے ہیں۔ یہاں دن رات کام کرنے اور پیٹ کاٹ کر گزارا کرنے کے باوجود یہ اخراجات بجٹ سے بہت زیادہ ہیں۔ اس کا نتیجہ۰۰۰ اپنے ساتھی این آرآئیز کا مقروض ہوچکا ہوں۔ گزشتہ مرتبہ گھر گیا بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنا ہاتھ روک کر خرچ کیا کرو۰۰۰ بس ہنگامہ ہوگیا۰۰۰ کہنے لگی۰۰۰ باہر کماتے ہو کس کے لئے۰۰۰ اصل میں اندر ہی اندر اپنے گھر والوں کو بھر رہے ہوگے۔ فلاں کو دیکھو وہ بھی تو باہر ہیں۰۰۰ ان کی بیوی کے پاس کتنا زیور ہے۰۰۰ ان کے گھر کی حالات کیسی ہے۰۰۰ ہمارے گھر میں تو کسی کو بلانے کے لئے بھی شرم آتی ہے۔ پرویز بھائی ۰۰۰ مرد کو ظالم کہتے ہیں مگر حق تو یہ ہے کہ کوئی بھی مرد‘ عورت سے بحث میں نہیں جیت سکتا۔ اگر جیتنے کا فیصلہ کرلے اپنی بات منوانے کا اراداہ کرلے تو گھر ٹوٹ جاتے ہیں‘ کیوں میں صحیح کہہ رہا ہوں نا۔۔۔؟ بچے ابھی پرائمری سیکشن میں ہیں مگر ان کی فرمائشیں اللہ کی پناہ۔ پلے اسٹیشن سے شروعات ہوئی۔ اب اسمارٹ فون کی خواہش کی جارہی ہے۔ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ اس عمر میں اتنے قیمتی فون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ضرور دلاؤں گا۔ بچے مان بھی جائیں تو ان کی اماں ان کی حمایتی بن کے اٹھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ ہاں ہاں۰۰۰ ابھی کوئی رشتہ دار فرمائش کرے تو اس سے قیمتی فون بھیج سکتے ہیں آپ۰۰۰ اپنے بچوں کی خواہش پوری نہیں کرسکتے۔ بچوں کو بھی اپنے دوستوں میں اپنی حیثیت بتانی پڑتی ہے۔ جن کے باپ باہر نہیں وہ بھی قیمتی سے قیمتی فون رکھتے ہیں۔ پرویز بھائی۰۰۰ بچے فون کا کیا استعمال کرتے ہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر گھر والوں کو سمجھانا مشکل ہے۔ ابھی تقاضہ ہوا تو گھر پر کمپیوٹر لایا گیا تاکہ ویب کیمرہ کی مددسے گھر والے مجھ سے بات چیت کرسکیں۔ اب آپ ہی بتاؤ کہ اپنے حالات‘ گھر والوں کی فرمائشوں سے میں اس قدر بیزار ہوں کہ کسی قسم کا رابطہ رکھنے سے بھی گریز کرنا چاہتا ہوں۔ گھر والوں کو بھی محض بہانہ چاہئے صرف دنیا کو دکھانے کے لئے کہ ہمارے گھر میں بھی ویب کیمرہ ہے۔ ورنہ بھائی سیدھے منہ بات کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ اب آپ بتاؤ ان اخراجات کی پابجائی میں زندگی گزرجارہی ہے تو گھر بنانے کے لئے ایک اور زندگی کہاں سے لاؤں۔
میاں تمہارے دو بھائی اور بھی تو ہیں دونوں ہی ماشاء اللہ مزے میں ہیں۔انہوں نے تو اپنے ذاتی فلیٹس خرید لئے پھر تم کیوں ان سے پیچھے رہ گئے۔ میرے اس سوال پر ایک بار پھر اس کے چہرہ پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی‘ پرویز بھائی۰۰۰ آپ سب کچھ جان کر انجان بن رہے ہیں۔ بخدا میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ میں نے صفائی پیش کی۔ میرے دونوں بھائی الحمدللہ! مزے میں ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اچھے ویزا پر ہیں۔ اچھی تنخواہ ہے۔ بیویاں بھی سمجھدار ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے گھر کے آنگن میں دیواریں کھڑی کیں‘ اپنے اپنے گھر بنالئے۔اپنی بیوی اپنے بچے۔۔۔۔ باقی سب لچھے۔ اگر ایک گھر ہوتا‘ سب کی کمائی ایک گھر میں آتی۔۔۔ خرچ کم ہوتا‘ بچت ہوتی۔۔۔ دو بھائیوں کے ساتھ اس تیسرے بھائی کے لئے بھی شاید گھر بن جاتا۔۔۔ مگر بھائیوں اور بہنوں کے رشتے شاید ان کی شادیوں تک خون کے رہ جاتے ہیں۔ شادیوں کے بعد جانے کیسے خون سفید ہوجاتا ہے۔
تو کیا تمہارا خون بھی سفید ہوچکاہے۰۰۰ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے سوال کربیٹھا۔
خون بچا ہی کہاں۔۔۔ سب چوس لیا۔۔۔ اور ہاں اگر میرے پاس بھی پیسہ آجاتا تو شاید میرا بچا کچھا خون بھی سفید ہوجاتا۔
حرم جیسے مقدس مقام پر تو تم گڑگڑاکر اپنے حالات کی بہتری کیلئے دعا کرسکتے ہو۔
ہاں میں جب بھی موقع ملتاہے دعا کرتا ہوں اللہ مجھے اس حرم میں ایمان پر موت دے۔ میرے بعد میرے بچو ں کا مستقبل تاریک نہ ہو۰۰۰ انہیں باپ کی کمی کا احساس نہ ہو۔ بس یہی ایک دعا مانگتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اچانک اٹھ گیا۔ تیزی سے حرم کی طرف چلا گیا۔ میں اس سے یہ پوچھ نہ سکا کہ وہ حرم میں اپنی بیوی کیلئے کیا دعا مانگتا ہے۔؟

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے