سہیل انجم
کیا کوئی انسان اتنا بھی وحشی ہو سکتا ہے کہ کم عمر بچیوں کو اپنی ہوس کا شکار بنا لے؟ کیا کوئی اتنا بھی وحشی ہو سکتا ہے کہ 80 سالہ ضعیفہ کو بھی نہ چھوڑے؟ کیا کوئی اتنا بھی وحشی ہو سکتا ہے کہ اپنی ہی لخت جگر کی عزت و آبرو پر ہاتھ ڈال دے؟ کیا کوئی اتنا بھی وحشی ہو سکتا ہے کہ اپنے ہی گھر کی خواتین کی چادر عصمت تار تار کر دے؟ کیا کوئی اتنا بھی وحشی ہو سکتا ہے کہ کسی مجبور و بے بس خاتون کی عزت لوٹنے کے بعد اسے زندہ جلا دے؟ اس کا جواب تو نفی میں ہونا چاہیے لیکن کیا کیجیے کہ ہمیں اس کا جواب ہاں میں دینا پڑ رہا ہے۔
حیرت انگیز اور شرمناک بات یہ ہے کہ ایسا کسی مغربی معاشرے میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہندوستان جیسے ایک مذہبی معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں خواتین کو دیوی کا درجہ حاصل ہے۔ جہاں خواتین کی پوجا کی جاتی ہے اور جہاں انھیں انتہائی مقدس مانا جاتا ہے۔ اسی ہندوستانی معاشرے میں عورتوں اور معصوم بچیوں کی عزت سے ایسے کھیلا جاتا ہے جیسے کہ وہ کوئی بہت ہی مرغوب اور پسندیدہ کھیل ہو۔
اس وقت ہمارے معاشرے میں جو ماحول پیدا ہو گیا ہے وہ سرزمین عرب کے دور جاہلیت کے ماحول سے بھی گندہ، وحشی اور غیر انسانی ہے۔ اُس معاشرے میں تو بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن اِس معاشرے میں پہلے ان کی روح کو زخمی کیا جاتا ہے پھر زندگی چھین لی جاتی ہے۔ دہلی کی نربھیا کا واقعہ ہو یا حیدرآباد کی خاتون ڈاکٹر کا یا پھر اناؤ کی لڑکی کا۔ یہ واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندوستانی معاشرے سے انسانیت کا جنازہ اٹھ گیا ہے اور شیطانیت کا بول بالا ہو گیا ہے۔
نربھیا سے لے کر اناؤ کی لڑکی کے واقعہ کے درمیان ایسے اور بھی جانے کتنے بہیمانہ واقعات ہوئے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو کم کم ہی معلوم ہو سکا ہے۔ مذکورہ واقعات تو میڈیا کی زینت بن گئے اور سیاست دانوں کی توجہ پا گئے۔ لیکن اس درمیان ایسی جانے کتنی وارداتیں انجام پا چکی ہیں جو ہندوستانی معاشرے کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گئیں لیکن وہ عوامی نگاہوں سے دور رہیں۔ جن کو میڈیا کے کیمرے پکڑ نہیں پائے او رجو سیاست دانوں کی توجہ سے محروم رہیں۔
کیا کسی دن کے اخبارات عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کی خبروں سے اچھوتے ہوتے ہیں۔ نہیں بالکل نہیں۔ روزانہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی خاتون کی عزت پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر پندرہ منٹ پر کسی نہ کسی عورت کی عزت پامال ہوتی ہے اور خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے۔
جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے حکومت کے ایک ادارے کے مطابق 2017 میں عصمت دری کے 32500 واقعات رجسٹر ہوئے تھے۔ یعنی 90 واقعات یومیہ۔ اس سال ریپ سے متعلق 18300 مقدمات کو عدالتوں نے نمٹایا اور اس وقت تک عصمت دری سے متعلق ایک لاکھ 27 ہزار 800 واقعات معرض التوا میں تھے۔
اگر ہم اکیسویں صدی میں عصمت دری کے معروف واقعات پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلے دسمبر 2012 کا نربھیا کا واقعہ سامنے آتا ہے۔ وہ فزیوتھریپی کی طالبہ تھی۔ اسے ایک چلتی بس میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور پھر انتہائی بیدردی کے ساتھ اس پر تشدد کیا گیا۔ پہلے دہلی میں اس کا علاج ہوا اور پھر سنگاپور میں۔ لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکی۔ اس وقت پورے ملک میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور حکومت نے خواتین کے خلاف جرائم کے سلسلے میں موجود قوانین کو بہت زیادہ سخت کر دیا تھا۔ خیال تھا کہ اس کے بعد ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ لوگوں کا خیالِ خام ثابت ہوا۔ اس طرح کی وارداتیں اب بھی ہو رہی ہیں۔
اس کیس میں تیز رفتاری کے ساتھ قانونی و عدالتی کارروائی کی گئی اور عدالتوں نے تمام ملزموں کو مجرم ٹھہراتے ہوئے انھیں سزائے موت سنائی۔ لیکن ابھی تک اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔
2018 میں کٹھوعہ، جموں کی ایک بکروال خاندان کی ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ ایک مندر میں کئی دنوں تک ریپ کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد اس کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی موت کو یقینی بنانے کے لیے اس کا سر پتھر سے ٹکرایا گیا۔ اس پر بھی پورے ملک میں احتجاجی لہر اٹھی تھی۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ ریاست کی بی جے پی پی ڈی پی کی مخلوط حکومت میں شامل بی جے پی کے دو وزرا اور مقامی ہندووں نے ملزموں کے حق میں ریلیاں کیں اور بھارت ماتا کے نعرے لگائے۔ اس کیس میں بھی فیصلہ آچکا ہے اور ملزموں کو سزا سنائی جا چکی ہے۔
2018 ہی میں چنئی کی ایک بارہ سالہ لڑکی کے ساتھ 19 افراد نے سات ماہ تک منہ کالا کیا۔ اس دوران اسے نشہ آور چیزیں کھلائی پلائی جاتی رہیں۔ اسی سال کیرالہ کے ایک کیتھول بشپ فرانکو ملکل نے ایک راہبہ کی عصمت دری کی۔ یہ معاملہ بھی کافی اچھلا تھا۔ اگر چہ بشپ نے الزام کی تردید کی لیکن عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔
2019 میں اترپردیش کے اناؤ میں ایک نابالغ لڑکی کی عصمت دری بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر نے کی۔ لڑکی نے اس کے خلاف رپورٹ درج کرائی اور جب یہ معاملہ کافی اچھلا اور عوام اور سیاست دانوں کی جانب سے زبردست دباؤ پڑا تب کہیں جا کر سینگر کو گرفتار کیا گیا۔ اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ مقدمہ چل رہا ہے۔ اور اس دوران لڑکی کے والد اور اس کے خاندان کے کئی افراد کی مشکوک حالات میں موت ہو چکی ہے۔
27 نومبر 2019 کو حیدرآباد میں ایک ویٹرینری ڈاکٹر کے ساتھ چار لوگوں نے حیوانیت کی اور پھر ثبوت مٹانے کے لیے اسے زندہ جلا دیا۔ دو روز کے بعد چاروں پکڑے گئے۔ اس کے خلاف بھی پورے ملک میں زبردست احتجاج ہوا اور بالآخر حیدرآباد کی پولیس نے 6 دسمبر کی صبح کو ان چاروں کا انکاونٹر کر دیا جس پر مختلف حلقوں سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
مارچ 2019 میں یو پی کے اناؤ کی ایک 23 سالہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس نے گاؤں کے پردھان کے بیٹے سمیت پانچ لوگوں کے خلاف رپورٹ درج کرائی۔ تین گرفتار ہوئے تھے دو فرار تھے۔ گرفتار شدگان ضمانت پر رہا ہو گئے۔ مذکورہ خاتون پانچ دسمبر کو اسی کیس کی عدالتی سماعت میں شرکت کے لیے رائے بریلی جا رہی تھی کہ ملزموں نے اس پر مٹی کا تیل ڈال کر اسے جلا دیا۔ وہ 90 فیصد جلی حالت میں پہلے رائے بریلی، پھر لکھنؤ اور پھر دہلی کے اسپتال میں داخل کی گئی۔ لیکن 6 دسمبر کی شب میں اس کی موت ہو گئی۔
یہ وہ چند واقعات ہیں جو بہت زیادہ مشہور ہوئے اور جنھیں میڈیا، عوام اور سیاست دانوں کی توجہ حاصل ہوئی۔ ورنہ اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جو عوامی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اگر 2000 ء سے پہلے جا کر دیکھیں تو اور بھی کئی ایسی وارداتیں انجام دی گئیں جو رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا آج کا انسان جتنی زیادہ ترقی کر رہا ہے اتنی ہی زیادہ وہ تنزلی کے غار میں بھی گرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال ہندوستان جیسے ملک کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کیا ہمارا معاشرہ اتنا بے حس ہو گیا ہے کہ اسے انسانیت کا ذرا بھی احساس نہیں اور کیا یہاں کے انسان وحشی جانو ربن چکے ہیں؟
جواب دیں