ازقلم۔محمد قمر انجم قادری فیضی
ہندوستان میں غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لئےایک قانون (UAPA) بنایا گیا تھاجسکے بارےمیں کہاجاتاہے کہ یہ ایسا قانون ہے جسمیں ضمانت ملنا مشکل ہوتاہے اس قانون کو سمجھنے کےلئے بس اتناہی سمجھ لینا کافی ہوگا کہ جس پر بھی یہ قانون لگ جاتاہے پھر وہ سیدھا مجرم ہوجاتاہے اسکے برعکس دیگر قوانین میں یہ ہے کہ جب تک عدالت سےجرم ثابت نہیں ہوتا اس وقت تک وہ مجرم نہیں ہوتامگر، یواےپی اے، کےتحت وہ سیدھا مجرم گرداناجاتاہے جیسے کسی کودہشت گردی کے الزام میں اٹھایا جاتاہے تووہ فوراً دہشت گرد قرار دے دیا جاتاہےویسے ہی دہلی پولیس نے سی اے اور این آر سی کےخلاف احجاجات کرنےوالوں کو کچھ دنوں سےتلاش تلاش کراسی قانون کے تحت اٹھارہی ہے اور جیلوں میں قید وبند کی زندگی گزارنےپر مجبور ومقہور کررہی ہے اسی کے تحت، صفورازرگر، کو بھی اٹھایاگیاہےصفورازرگر کون ہیں۔صفورازرگر کشمیرکے کستواڑ ضلعے کی رہنے والی ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک ریسرچ اسکالر ہیں اور جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی(جےسی سی) کی میڈیا کوآرڈینیٹرہیں، ان پر ماہ فروری میں شمالی مشرق دہلی میں ہونے والے فسادات کے اہم سازشی ہونےکا الزام لگایا گیاہے سی اےاے، این آر سی، کےخلاف پورے ملک میں بہت سارے شہروں میں پُرامن احتجاجات ہوئے اور یہ احتجاجات کئی مہینوں تک چلے، میڈیا اور حکومت نے انکو بدنام کرنے کا کبھی بھی کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا،کبھی بریانی کے بہانے،کبھی گولی چلانے اور کبھی پولیس کی بربربیت کےبہانے سے،بدنام کرنے کی ہر ممکنہ طورپر کوششیں کی گئیں مگر خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی، چند ہندتوا سنگھیوں نے ان پر گولیاں لاٹھیاں بھی چلائیں، مگر ان کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہیں پڑا، جب دشمنوں نے اس چال میں کامیابی حاصل نہیں کی تو پھر سازشاً ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک خوفناک فساد کروایاگیا، جس میں بے گناہوں کی کئی جانیں گئیں اور سیکڑوں لوگ بےگھر ہونےپر مجبورہوگئے، مگر اصلی مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں،
جب بہت دنوں سے سوشل میڈیا ٹوئیٹر اور فیسبک نیزقلمکارحضرات کے ذریعے سے اخبارات وغیرہ میں بھی صفورہ زرگر کے بارے میں مضامین وغیرہ لکھے جاتے رہے تب بھی حقوقِ نسواں کے فرائض کی انجام دہی کرانے والی تنظیمیں خوابِ غفلت میں سورہی تھیں جوکہ کچھ کہہ اور کر نہیں پائیں،مگر سوشل میڈیا میں خاص طور سےملک کے باشعور افراد، دانشوران قوم، ماہرین اپنے مشترکہ بیان میں شدید برہمی کااظہاراور سخت ناراضگی جتانے کے بعد دلی ویمن کمیشن کی چیئر پرسن سواتی مالیوال کی طرف سےایک لیٹر پیڈ جاری کیاگیاتھا اور انہوں نے اخلاق باختہ، انسانیت کےدشمن ہندتواکےچیلوں کے خلاف کارروائی کرنےکا اعلان کیاتھا، مگر ایک صفورازرگر ہوں تو کچھ کہاجائے یہاں آج ہندوستان میں بڑی بڑی سوشل ایکٹوسٹ، قدآورشخصیات، جو کہ جب ملک کے سلگتےہوئے مسائل پر کچھ بولتےہیں تو فوراً انہیں دیش دروہی، اور ملک سےغداری کے الزام میں جھوٹے معاملات بناکر گرفتار کرلیاجاتاہے
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان ،ہرش مندر، پروفیسر اپوروانند، پروفیسر رام پنیانی، انجینئر سعادت اللہ حسینی، ڈاکٹر منظورعالم، ایس آرداراپوری، جان دیال، سیدہ حمیدہ سیدین، مجتبی فاروق، تپن بوس،منیشاسیٹھی،وغیرہ جیسی آفاقی شہرت کی حامل عظیم شخصیتوں کی غداروطن اور ملک میں دو قوموں کے بیچ نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتاریاں ہوچکی ہیں اورساتھ ہی ساتھ شرجیل امام،میران حیدر، عمرخالد جیسے انقلابی بہادروں پر(یواےپی اے)لگا کرگرفتارکیا جاچکاہےکتنے افسوس کا مقام اور قابل مذمت ہے کہ این آر سی اور این پی کےخلاف پر امن احتجاج کرنےوالی صفورازرگر، کو گرفتار کر کےجیل میں ڈالاگیاتھا مگر انکے ساتھ ساتھ احتجاج کرنے والی قوم کی غیور بیٹیاں، جسمیں گل افشاں اور، عشرت جہاں کو بھی گرفتار کرکےجیل کے اندرطرح طرح کی اذیتیں دی جارہی ہیں، جھوٹے معاملات میں پھنسا کر قیدمیں رکھ کر جھوٹے معاملات کےذریعے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں قابل مذمت ہے، سیکڑوں معلامات کے ذریعے صفوارزرگر،عشرت جہاں اور گل افشاں جو سی اےاے، این آر سی، مخالف احتجاج میں پیش پیش تھیں، انکی گرفتاری پر سبھی لوگ کافی مضطرب وبےچین ہیں، انکے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کے قانون (یواےپی اے) کی دفعات کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں ساتھ ہی ساتھ ملک سے غداری کا بھی الزام لگاتے ہوئے تہاڑ جیل میں محروس رکھا گیاہے، حکام جھوٹے بیانیہ کا استعمال کررہاہے تاکہ مخالف سی اےاے، این آر سی، احتجاج کو2020 میں ہونے والی دہلی تشددسے جوڑا جاسکے، ان سنگھیوں کا اسکے پیچھے یہی مقصد کارفرماہیں کہ ان خواتین پر اصلی سازشی ہونےکا الزام لگایا جا سکے، عشرت جہاں سابق بلدیاتی کونسلر اور سماجی کارکن ہیں، انھوں نے بھی احتجاج میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاتھا، انکو دہلی میں تشددکےدوران اقدام قتل کا ملزم بنایاگیاہے اور جیل میں اذیتیں تکلیفیں دی جارہی ہیں،اس ظلم وجبرکے خلاف بہت سارے تنظیموں نےحکومت سےصفورازرگر گل افشاں اور عشرت جہاں کو فوری طور پر رہاکرنے کامطالبہ کیاہے
مضمون نگار۔سدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگر کے ریسرچ اسکالر ہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
31مئی 2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں