گذشتہ ۱۷ دسمبر سے ترکی میں وزیر اعظم رجب طیب اردگان کے خلاف اسلام کے دشمنوں نے طوفان اٹھایاہو تھا۔۱۷ دسمبر کو سب سے پہلے کرپشن کا ایک اسکینڈل منظر عام پر لایا گیا جس میں اردگان کابینہ کے تین وزراء کے فرزندوں پر کرپشن کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا۔پھر اس معاملے کو اتنا بڑھایا گیا کہ خود رجب طیب اردگان کے لڑکے بلال کو بھی اس میں ملوث قرار دیا گیا۔یہ سب کچھ ترکی کا The financial crimes and Battle against criminal income department خود اپنی مرضی سے کر رہا تھا۔مذکورہ افراد کے ساتھ ساتھ فتح شہر کے مئیر اور ایرانی تاجر رضا زراب کو بھی گرفتار کیا گیا ۔کل ۹۱ گرفتاریاں ہوئیں۔اردگان نے اسے Judicial coup قرار دیا ۔اور چونکہ یہ سب کچھ پولس بالا ہی بالا حکومت کی مرضی کے خلاف کر رہی تھی اس لئے اردگان نے پولس کی تطہیر شروع کی ۔
سینکیڑوں پولس والوں کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ۔عدلیہ کو بھی اپنی حدود بتائی گئی۔۲۵ دسمبر کو ان تینوں وزراء نے جن کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔چند گھنٹوں بعد ہی اردگان نے اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کرتے ہوئے ۱۰ نئے وزراء شامل کئے۔دوسری طرف حکومت کے خلاف مظاہروں کا دور بھی جاری تھا۔شوشل ویب سائٹس اور پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعے افواہوں کا بازار گرم کیا گیا حکومت کو عدم استحکام کے حوالے کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکانے حکومت سے بد ظن کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیااور اسمیں حکومت کی تنخواہ دار پولس اور عدلیہ کا بڑا حصہ شامل رہا۔رجب طیب اردگان مردانہ وار ان حالات کا مقابلہ کرتے رہے ۔انھوں نے ان حالات کو بین الاقوامی سازش قرار دیا ۔انھوں نے کہا کہ ہم صحیح وقت پر بدلہ لیں گے۔انھوں نے ٹوئٹر اور دیگر شوشل ویب سائٹس پر پابندی لگائی۔جس پر مزید ہنگامہ مچااور عدلیہ نے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ان حالات میں ترکی کے مختلف شہروں میں ہونے والے لوکل باڈیز کے الکشن اردگان حکومت کے لئے زندگی اور موت کا سوال بن چکے تھے۔خود ساری دنیا کے اسلام پسند بھی پروپگنڈے کے غلبے کے باعث تذبذب کا شکار ہو چکے تھے۔اندازے یہی تھے کہ اس باراردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹیAKP کا ووٹ بینک کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوگاووٹ فی صد میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آئے گی۔
ہم ذیل میں گذشتہ دو لوکل باڈیز الکشن کا موازنہ ترکی کی دو مین اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ پیش کر رہے ہیں جس میں دونوں وقت کے ووٹنگ فی صد کا پتہ چلے گا
۱] لوکل باڈیز الکشن ۲۲ مارچ ۲۰۰۹
AKP=38.99 CHP=23.23 MHP=16.13
۲]لوکل باڈیز الکشن ۳۰ مارچ ۲۰۱۴
AKP=43.31 CHP=25.59 MHP=17.63
ان نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام دشمنوں کے تمام ہنگاموں کے باوجود عوام میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور حکومت کا رسوخ بڑھا ہے۔لوگ اردگان اور ان کی حکومت سے اب بھی بہت ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔اور کیوں نہ ہوں۔ اردگان نے اپنے ۱۰۔۱۲ سالہ دور حکومت میں ترکی کی اقتصادیات کو پہلے کے کئی گنا
بہتر بنا دیا ہے ترکی لیرا ڈالر کے مقابلے کافی مضبوط ہوا ہے عوام نے تمامFabricatedہنگاموں کو نظر انداز کر دیا ہے۔عوام نے یہ بھی نظر انداز کردیا(یا عوام کو شاید یہی پسند ہو)کہ ملک میں اسلامی قدریں اسلامی ثقافت واپس لائی جا رہی ہیں۔عوام یہ بھی بھول گئے کہ ابھی ۱۹ دسمبر کو اردگان کے بھائی مصطفیٰٗ اردگان کا ایک سیکس ٹیپ عام کیا گیا ہے عوام کی یادداشت میں یہ بھی نہیں رہا کہ ۲۳ دسمبر کو ایک ۳۵ سالہ پولس کمشنر اپنی کار میں مردہ پایا گیا اور اس کی موت کا ذمہ دار بھی اردگان حکومت کو ٹہرایا گیا۔
ہم اسلام پسندوں کی طرح شاید ترکی کے عوام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ۹۲ میں الجیریا میں اسلامک فرنٹ کا راستہ روک کر اسلام کو روکا گیا تھا ۔شاید وہ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کے پیچھے بھی اسلان کا ہی خوف تھا۔۲۰۰۶ میں حماس سے حکومت چھین کر فتح کے حوالیبھی اسی لئے کی گئی کہ جمہوری راستوں سے بھی
اسلام کا غلبہ گوارا نہیں۔تیونس لیبیا اور مصر میں اسلام پسندوں کا قلع قمع کرنے کے بعد اسلام پسندوں کی آخری امید اردگان حکومت کی صورت میں باقی بچی تھی اور یہ تو طے تھا کہ اس آخری حصار کو بھی ڈھانے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جائے گا۔الکشن کی تازہ ترین فتح نے ابھی اس کشمکش کا خاتمہ نہیں کیا ہے ۔یہ سمجھنا کہ دشمنوں کے حوصلے پست ہو گئے ہونگے،حماقت ہوگی بلکہ یہ شکست انھیں اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیگی وہ اور اوچھے وار کرینگے مگر یہ بھی ہے کہ اب اسلام پسندوں کو نیاحوصلہ نئی قوت ملے گی وہ بھی یقینا نئے حملوں کے خلاف اپنے آپ کو مجتمع کرینگے۔انتخابی نتائج بتاتے ہیں اس جنگ میں انھیں کچھ نئے ساتھی بھی میسر آئے ہیں۔مگر اس ساری کشمکش کا ایک بدترین پہلو بھی ہے۔جس سے دل مسوستا ہے۔خون کے آنسو روتاہے اور وہ ہے اندر کے آدمیوں کادشمنوں سے مل جانا۔گھر کے بھیدیون کا لنکا ڈھانا۔
فتح اللہ گولن ترکے کے ایک بڑے اسلامی اسکا لر ہیں۔وہ ۲۷ اہریل ۱۹۴۱ کوپیدا ہوئے تھے ۔نجم الدین اربکان کی طرح وہ بھی سعید نورسی کے شاگرد ہیں۔جبکہ رجب طیب اردگان نجم الدین اربکان کے شاگرد ہیں۔فتح اللہ گولن سیاست سے الگ رہ کر عوامی فلاح و بہبود کے لئے گولن مومنت قائم کی ۔انھوں نے ملک میں تعلیمی اداروں کا
اسپتالوں کا اور دیگر عوامی فلاح کے اداروں کا جال بچھایا۔۱۹۹۹ میں انھوں نے ملکی حالات سے گھبرا کر پیننسلوانیا امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی۔انھیں چاہئے تھا کہ ملک میں اسلام پسند حکومت قائم ہونے کے بعد وہ ترکی واپس آجاتے مگر معلوم نہیں کیوں انھوں نے ملک سے دور رہنا ہی پسند کیا۔شاید وہ پاکستان کے الطاف حسین بننا چاہتے ہوں۔اب عملا صورتحال یہ ہے کہ آرایس ایس کی طرح ترکی کی بیورو کریسی پر ان کے ماننے والوں کا ہی قبضہ ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کرپشن اسکینڈل اور دیگر ہنگامے دراصل اردگان اور گولن کی درمیاں طاقت کی لڑائی کے مظاہر ہیں۔اردگان حکومت گولن مومنت کے ذریعے چلائے جانے والے بہت سارے پرائیویٹ اسکول بند کرنا چاہتی ہے اور گولن مومنٹ اسے اپنے لئے خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔شاید گولن مومنٹ بھی آر ایس ایس کی طرح ایک باطنی حکومت چلانا چاہتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ فتح اللہ گولن ملک واپس آجائیں۔وہاں رہتے ہوئے کوئی بھی یہ شک کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ وہ امریکہ کے اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اگر وہ ملک میں موکود ہونگے تو افہام و تفہیم کی راہیں نکالی جا سکتی ہیں۔بہرحال ہم تو دونوں لیڈروں کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور دونوں کے لئے دعاگو ہیں۔(
جواب دیں