تمہیں اپنی حفاظت اب خود کرنی ہوگی

ذوالقرنین احمد

محترم قارئین آج ملک عزیز میں کرونا کے خوف سے پوری طرح سے کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور ضرورت کی چیزوں کے علاوہ تمام دوکانیں بازار ، آمد و رفت کے زرائع بند کردیے گئے ہیں یہاں تک کے ضلعوں کو سیل کردیا جارہا ہے۔ کرونا وائرس ایک متعدی بیماری ہے جو بڑے تیزی چین سے لے کر کافی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اس کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ عوام کے ساتھ سختی کریں، کیونکہ ملک اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ ایمرجنسی کے حالات میں اگر مریضوں کی تعداد بڑھتی ہے تو اس کا مقابلہ کر سکے اس وائرس کی جانچ کیلئے ملک میں صرف 62 مراکز ہے، دیکھنے میں تو یہ آرہا ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے ساتھ کس طرح کا غیر انسانی سلوک برتا جارہا ہے، جو انسانیت کے خلاف ہے۔ اس لیے احتیاطی تدابیر اور اقدامات کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ ملک کی عوام کو اس خطر ناک وائرس سے بغیر خوف و ہراس سے تحفظ فراہم کریں کسی بھی نا گہانی صورت حال سے نمٹنے کیلے ہمہ وقت تیار رہے۔ لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ جیسے ہی کرونا وائرس کے مریض ہندوستان میں پائے گئے حکومت کو جیسے ایک بہانہ مل گیا اور اسی طرح حکومت کیلے یہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے۔
حکومت کے ناپاک عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں پہلے دن کرفیو نافذ کیا گیا اور عوام کو تھالی بجانے گھنٹے بجانے کا کہے کر بے وقوف بنایا گیا، جس سے فرقہ پرست حکومت کے اقتدار میں لانے والی عوام کی اندھ بھگتی کا پتہ چلتا ہے ۔ کہ یہ لوگ کس قدر اندھیرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جو نفرت کے وائرس فرقہ پرستوں نے بوئے ہیں آج وہ زہریلے درخت بن چکے ہیں اور اپنی شاخوں اور پھلوں سے تمام انسانیت کو ظلم و جبر کی چکھی میں بسنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت نے شاہین باغ کو اٹھانے کیلے ہر ممکن کوشش کی فائرنگ کروائی گئی، لاٹھی چارج کی گئی، مصالحت کا ڈرامہ رچا گیا۔ اور اب کرونا وائرس کو مضبوط ہتھیار کہ طور پر استعمال کیا گیا پہلے دن پٹرول بم پھینک کر ٹرائل لیا گیا کہ عوام کی اور مسلمانوں کی طرف سے کیا رجحانات دیکھنے ملتے ہیں۔ اور پھر عوام کو وائرس کے خوف میں مبتلا کرکے فرقہ پرست حکومت نے اپنا کام شروع کیا جبرا سویں روز دہلی کے شاہین باغ کو پولس فورس کے زریعے توڑ دیا گیا جبکہ وہاں صرف دو تین بزرگ خواتین بیٹھی ہوئی تھی۔ اور سبھی نے حکومت کے کہنے پر وائرس کی روک تھام کیلے احتیاطی تدابیر اختیار کی لیکن حکومت نے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کیا جس نے ۳ مہینوں سے اس حکومت کے ناک میں دم کر رکھا تھا جسے اپنے عزائم چکنا چور ہوتے دیکھائیں دے رہے تھے۔

لیکن اب یہ بات بھی مسلمانوں کو سمجھ لینی چاہیے کہ وائرس کے خوف کے پیچھے سازش رچی جارہے ہیں جو ابھی ہمارے سامنے نہیں آئیں گی لیکن کبھی نہ کبھی اسکے اثرات مرتب ہوگے جب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ اس لیے مسلمانوں کو یہ بات واضح طور پر گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کے اب تمہیں اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی ، اللہ کو راضی کرنے کیلے اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا ہوگا، جتنے گناہ ہوئے ہے ان تمام پر شرمندگی اور دوبارہ نا کرنے کے عزائم کے ساتھ اللہ کے حضور توبہ کرنا ہوگی اور ملک میں اپنے وجود کی بقاء کیلے حالات کا مقابلہ کرنے کیلے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔ کیا پتہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کب یہ فرقہ پرست اپنا اصل چہرہ دیکھانا شروع کردے۔ میں یہ بات نہ ڈرانے کیلے کہ رہا ہوں اور ناہی خوف پیدا کرنے کیلئے ، بلکہ جو صورتحال ہے وہ ہمارے سامنے ہیں مسلمانوں کے اقتصادی، معاشی، سیاسی حالات ملک میں خستہ ہے۔ ہماری لیڈر شپ صرف مسلمانوں کے اندر ہیروں بنی ہوئی ہے۔ ہم دیگر قوموں کو متاثر کرنے یا ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لائق نہیں ہے۔ نا ہی کسی کو اعتماد میں لے کر اپنی بات کو منوانے کے لائق ہے۔ ایسی صورت میں جب کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمیں ملک کی حکومت پر بھروسہ نہیں ہے تو پھر کیا کرونا وائرس کے خوف سے ڈر کر سہم کر فرقہ پرستوں کی غلامی کے جال میں پھنسنے کیلے تیار ہیں۔ ہم احتیاطی تدابیر اختیار ضرور کریں اور جہاں تک ضروری ہے ملک کے حفظان صحت محکمہ کے اعلانات پر عمل بھی کریں لیکن ہم بے بس و یار و مددگار حالات میں نا رہے ہر وقت چوکنا رہے۔ مسلمانوں نے حالات کے شعور سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے ایک تو ہمارے پاس اتنا پاور نہیں ہے کہ ہم گھروں میں رہ کر غیر معینہ مدت تک کرفیو نافذ ہونے کی صورت میں کھانے پینے کے اور میڈیکل کے اخراجات کو برداشت کرسکتے ہیں اسی طرح ناہی ہمارے پاس دفاعی اقدامات ہے۔
یہ بات بہت ہی ضروری ہے کہ مسلمانوں نے موجودہ حالات میں اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کیلے فوری اقدامات اٹھانے چاہیے ہمارا اکثر طبقہ روز کما کر کھانے والا ہے۔ ایسی صورت میں ان تمام غریب عوام کی زندگیوں کا سوال ہے۔ اور اسکے پیچھے حکومت کی غلط پالیسیوں کا بھی ڈر و خوف ہے۔ کب کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یقینی ہے کہ بچھو کبھی ڈسنے کی خاصیت نہیں چھوڑتا ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی طرح ناگہانی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرے ، اسکے لیے تیاری کریں دفاعی نظام کو قایم کریں، اپنے آپ کی گھر والوں کی خاندان والوں کی اور پوری ملت کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلے منصوبہ بندی کریں۔ حکومت سے توقع رکھنا اب بے وقوفی کی باتیں لگتی ہے۔ جس مہلک مرض سے حفاظت کیلے احتیاطی تدابیر اور اقدامات سانئسی نقطہ نظر سے کیلے جانے چاہیے وہاں تھالی بجانے اور گھنٹہ بجانے کی ترغیب دی جائے یہ بات ذہن قبول نہیں کرتا ہے۔

«
»

کورونا وائرس‘ قیامت صغریٰ کا منظر

دہلی فساد متاثرین: بس ایک اللہ کا آسرا… ظفر آغا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے