تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ہندوستانی کسانوں کے قائد اور بھارتیہ کسان یونین کے صدر راکیش ٹکیٹ کے آنسوؤں کے سیلاب میں مودی حکومت اگر بہی نہیں تو کم از کم اس کا توازن ضرور بگڑ گیا۔ آخر کسان قائد کے آنسوؤں میں ایسی کونسی طاقت اور تاثیر تھی جس نے لاکھوں کسانوں کو حکومت کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لئے آمادہ کردیا۔ مودی حکومت نے کسانوں کی طاقت کا اندازہ لگایا ضرور مگر انہیں آنسوؤں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ آج دہلی کی سرحدوں پر لاکھوں کسان متحد ہوکر حکومت کی من مانی اور کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ ساری دنیا لعن و طعن کررہی ہے کہ کس طرح سے حکومت نے اپنے ہی شہریوں کے لئے ایسی سرحدیں کھڑی کردیں۔ جو چین یا پاکستان سے دفاع کے لئے کھڑی جاتیں تو شاید نہ بار بار پڑوسی ملک کو مداخلت کاری کی ہمت ہوتی اور نہ چین کئی کیلو میٹر کے ہندوستانی رقبے پر قبضہ کرکے اپنی آبادیاں بسانے کی جرأت کرتی۔ راکیش ٹکیٹ کے آنسو ایک سچے اور اچھے انسان دیانت دار لیڈر کی تڑپ، بے بسی اور ان کے جذبات کے عکاس تھے‘ تبھی تو ٹریکٹرس اور ٹرکس میں لدے پھندے سرحدوں کی سمت رواں دواں کسانوں اور ان کے ارکان خاندان نے میڈیا سے یہی کہا کہ ٹکیٹ جی کے آنسوؤں کی وجہ سے ہم دوبارہ دہلی کی سرحد پر اکٹھا ہورہے ہیں۔ ہریانہ کے جھنڈ میں مہاپنچایت میں جس تعداد میں کسانوں نے شرکت کی اس سے یقینا مودی حکومت حواس باختہ ہے۔ حالانکہ من کی بات میں وزیر اعظم نے یہ کہا تھا وہ کسانوں سے صرف ایک فون کال کی دوری پر ہے۔ جو بھی ہو یہ فیصلہ کن لڑائی ہے۔ جیت چاہے کسی کی ہو‘ کسان نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کردیا۔ ایک کسان کیا جاگا ہندوستان متحد ہوگیا۔ کسان احتجاج ہندوستان کی روایتی فرقہ وارانہ بھائی چارگی کی علامت بن گیا۔ ایک سچے انسان کے آنسوؤں کی طاقت ایسی ہی ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ ساری دنیا روتی ہے اور ڈھونگی انسان جب آنسو بہاتا ہے تو دنیا والوں کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ کیوں کہ اُسے مگرمچھ کے آنسو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مگرمچھ آنسو کیوں بہاتا ہے۔ اس لئے کہ اپنا شکار کھانے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لئے آنسوؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اپنے مفاد کے لئے یہ آنسو بہاتا ہے اور دنیا اسے کچھ اور سمجھتی ہے۔ کسانوں کے آنسوؤں نے کم از کم دنیاوی اعتبار سے زمین پر برسر اقتدار طاقت کو لرزہ براندام کردیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب جب مظلوم کے آنسو بہتے ہیں تو اَن دیکھے سیلاب میں ظلم کرنے والے بہہ جاتے ہیں۔ اس کے لئے وقت لگتا ہے مگر آنسو بہرحال اپنی تاثیر دکھا جاتے ہیں۔ ٹکیٹ کے آنسوؤں کے پس منظر میں مائنمار کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ فوج نے آنگ سان سوچی کو گرفتار کیا تو بنگلہ دیش میں پناہ گزین لاکھوں روہنگیائی مسلمانوں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے جو خوشی کے تھے۔ کیوں کہ آنگ سان سوچی کو دنیا حقوق انسانی کے علمبردار سمجھتی رہی۔ اسے نوبل امن انعام بھی دیا گیا تھا (جو بعد میں روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ انسانی  حقوق کی پابندی پر واپس لے لیا گیا)۔ اس نے مظلوم روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور مظالم  کی حمایت کی تھی۔ انہیں ان کے وطن میں بے گھر، بے بس کردیا گیا۔ مینمار فوج نے مسلسل نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے 60 لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کو اپناوطن چھوڑنا پڑا۔ جبر و ستم کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ہماری پیشرو نسل جانتی ہے کہ جب جب کسی ملک میں ڈکٹیٹر قسم کے افراد نے مسلمانوں کی نسبندی کے نام پر نسل کشی کی تو ان بے مسلمانوں کے دلی کی گہرائیوں سے نکلنے والی آہوں اور آنکھوں سے نکلنے والی آنسوؤں نے قہار کے قہر کو جوش میں لایا اور پھر کوئی فضاؤں میں بکھرگیا۔ کوئی دھماکے میں اڑ گیا اور کوئی اپنے کرسی اقتدار کے ملبے کے نیچے دفن ہوگیا۔ دنیا میں جہاں جہاں ظلم ہوتا ہے‘ ظالم کو قدرت ڈھیل دیتی ہے۔ اور جب اس کا شکنجہ کسا جاتا ہے تو پھر اُسے اپنی پشیمانی کے اظہار کا موقع بھی نہیں ملتا۔
    جہانِ سائنس میں جناب عبدالستار مظفرگڑھی کے ایک مضمون کی روشنی میں آنسو ایک خاموش زبان کی حیثیت رکھتی ہے‘ ایک عام آدمی دو سے دس سکینڈ کے دوران اپنی آنکھوں کو نمی پہنچاتا ہے۔ آنسوؤں کے بہنے سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور اس سے قرینہ اور پپوٹے کو نمی ملتی رہتی ہے جس میں آنکھ میں موجود مختلف جھلیاں سوکھنے سے محفوظ رہتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق آنکھ میں آنسو نہیں ہوتے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے جس میں آنکھ کی بینائی ختم کرنے کا اندیشہ بھی شامل ہے۔ آنسو‘ آنکھ میں اینٹی بیکٹریا اور اینٹی وائرس ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اور فضاء میں موجود مختلف جراثیموں کے نقصانات سے آنکھوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق خوشی کے آنسو میں صرف نمکین پانی ہوتا ہے اور غم کے آنسو میں مختلف قسم کے انزائمس اور کیمیکل ہوتے ہیں جو ٹیومبر اور السر جیسے مرض میں جسم میں پائے جاتے ہیں جن کا آنکھوں سے بہنا ضروری ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنسو بہنے کے بعد انسان اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتا ہے۔ خوشی اور غم کے آنسو کے ساتھ ساتھ پیاز کاٹنے کے سے بھی آنسو آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ پیاز سے کیمیکل نکلتا ہے جو آنکھ کی سطح سے ٹکرانے کے بعد سلفیورک ایسڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے اگر وہ آنسو بن کر نہ نکلے تو آنکھ خراب ہوجانے کے اندیشے ہوتے ہیں۔
    آنسویوں تو نمکین پانی کے قطرے ہیں‘ جنہیں سیاسی نقطہئ نظر سے دیکھا جائے تو مختلف وجوہات اس کی بیان کی جاتی ہیں‘ مختلف ہارمونس سے اس کاتعلق بتایا جاتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آنسو چاہے کسی وجہ سے نکلے اس کا اپنااثر ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کی پہلی سانس سے آخری سانس تک انسان کا آنسوؤں سے رشتہ ہوتا ہے۔ بچہ دنیا میں آتا ہے روتا ہوا آتا ہے۔ اور بقول ڈاکٹر عبدالکلام کے ایک ماں کے چہرے پر زندگی میں ایک ہی باراپنے بچے کے رونے پر مسکراہٹ آتی ہے۔
    آنسو اور رونا انسان کا پہلا پیغام ہے جو پیدا ہوتے ہی وہ اپنی ماں کو پہنچاتا ہے جس سے وہ اپنی بھوک کا اظہار کرتا ہے۔ وقت اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اپنی بات منوانے، اپنی ضد پوری کرنے، خواہش کی تکمیل، اپنی ناراضگی کے اظہار کے لئے کبھی آنسو بہاتے ہیں تو کبھی بنا آنسو کے بچے روتے ہیں اور جب تک بچے کی آنکھ میں ماں آنسو نہیں دیکھتی اس وقت تک اس کے رونے پر یقین نہیں کرتیں۔ کہتے ہیں کہ عورت کا سب سے بڑاہتھیار آنسو ہے۔ جسکے آگے پتھر دل انسان اپنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور حد سے زیادہ یا غیر متوقع خوشی سے بھی آنسو نکل آتے ہیں‘ اسی لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ضروری نہیں کہ غم میں نکلیں آنسو
مسکراتی آنکھوں میں بھی سیلاب ہوتے ہیں 
    آنسوؤں کی اہمیت بھی ہے اور فضیلت بھی۔ کیوں کہ اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ وہ آنسو پسند ہیں جو گناہ گار کی آنکھوں سے احساس ندامت کے وقت نکلتے ہیں۔ حدیث شریف ہے‘ اللہ کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں‘ ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلتاہے اور دوسراخون کاقطرہ جو اللہ کے راستے میں گراہو(مشکوٰۃ شریف) یعنی ندامت کے آنسو کو شہیدوں کے خون کی مانند اہمیت دی گئی ہے‘ جب آنسو نکلتے ہیں تو رحمت الٰہی جوش میں آتی ہے اور رحمان و رحیم، غفار و غفور کا وہ محبوب بندہ بن جاتا ہے پھر شاعر یہ کہنے کیلئے مجبور ہوجاتا ہے:
صرف احساس ندامت‘ ایک سجدہ اور چشم تر        اے خدا کتناآسان ہے مناناتجھ کو
    شاہ محمداحمد الہ آبادی نے غالب پر بڑی تنقید کی کہ انہوں نے کہا تھا”کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب۔۔۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی“ اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں۔ 
میں اِسی منہ جاؤں گا         شرم کو خاک میں ملاؤں گا
ان کو رورو کر مناؤں گا        اپنی بگڑی یوں بناؤں گا
    آنسوبہت قیمتی ہوتے ہیں۔ اگر احساس ندامت کیساتھ اللہ کے حضور نکل آتے ہیں تو یہ انمول ہوتے ہیں‘ مگر آزمائشی حالات میں یہ پلکوں کے پیچھے چھپ سکیں تو انسان کے صبراس کی قوت ا رادی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ آنسو یقینا انسان کی دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں مگر اللہ کے خوف سے پتھر بھی روتے ہیں۔ قرآن میں یوں ارشاد پاک ہے: ”اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں‘ اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں (سورہ بقرہ:۴۷) 
    اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حضور ندامت کے آنسو بہانے کی توفیق دے‘ آنسو اُسی کے بہتے ہیں جن کے دل نرم ہوتے ہیں۔ بہرحال بات چل رہی تھی ٹکیٹ کے آنسو کے بقول منور رعنا کے:
ایک آنسو بھی حکومت کے لئے خطرہ ہے        تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے