کیا اقلیتی طبقہ کے لوگوں کا خون ملک کی آزادی میں شامل نہیں ہے؟ کیا ہم مسلمانوں کو یہاں رہنے کا حق حاصل نہیں ہے؟ اگران سوالوں کا جواب مثبت میں ہے تو پھر کیوں ایسا گھناؤنا فعل اخلاق احمد کے ساتھ پیش آیا؟ کیوں ایک مسلم کو گاؤشی کے الزام میں مار مار کر ہلاک کردیاگیا، یہی ملک ہندوستان کا آئین ہے کہ اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو ڈھونڈڈھونڈ کر مارا جائے اس کے ساتھ حیوانیت اوربہیمانہ سلوک کیا جائے! دراصل گجرات کے گودھرا سے لے کر مظفرنگر تک نفرت کی جو چنگاری سلگ رہی ہے اب وہ ہندوراشٹر کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ آرایس ایس کے بانی گرو گواریکر نے ہندوراشٹر کا جو خواب دیکھا تھا اسے اب عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ داردی کا حادثہ اس کی ایک مثال ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مندر کے ایک پجاری کو اعتراف جرم کے بعد بھی اب تک گرفتار نہیں کیاگیا۔ بلکہ الٹے یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ اخلاق کے اہل خانہ پر گاؤکشی اورگوشت کھانے کا مجرمانہ معاملہ درج نہیں کیاگیا تو مہا پنچایت بلائی جائے گی۔ اس پر خود ساختہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اپنی زبان سل کررکھی ہے۔ مسلمانوں کو اب بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئے۔ بی جے پی کے لیڈر مختار عباس نقوی نے کچھ دن قبل یہ بیان دیا تھا کہ جن لوگوں کو بھی گائے کا گوشت کھانا ہے وہ پاکستان چلے جائیں۔ لیکن اب ان کے حامی مسلمانوں کو پاکستان ہی نہیں دنیا ہی سے روانہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ آج ان کے حلق سے بھی آواز نہیں نکل رہی ہے۔ اس حادثہ سے سیکولر ہندوستان سکتے میں ہے لیکن فرقہ پرستی یا فاشزم ایماندارانہ لڑائی لڑنے کے بجائے سبھی سیاسی جماعتیں خاص کرنا م نہاد سیکولر رہنما اقتدار کی خاطر سیکولرازم کا استعمال کرتی ہیں اور پھر بھول جاتی ہیں جس کے نتیجے میں فاشزم آج بھیانک چہرے کے ساتھ سیکولرازم کونگل جانے پرآمادہ ہیں۔
لشکر بھی تمہارا ہے سردار بھی تمہارا ہے
اورجو تم گائے کاٹنے کا الزام لگاتے ہو
وہ گائے کاٹنے والا بھی تمہارا ہے
تم جھوٹ کوسچ لکھ دو
کیوں کہ اس ملک کا اخبار بھی تمہارا ہے
لیکن اس مظلوم کی بات ضرور سن لوتم
خون اے مظلوم اب بہنے والا نہیں
ظلم کا دور اب چلنے والا نہیں
ان اندھیروں کا جگر چیر کر ایک نورآئے گا
تم فرعون ہو تو موسیٰ بھی ضرور آئے گا
جواب دیں