شاعری میں مرزا غالب سے متاثر ہیں۔ مگر شاعری کی جانب رحجان کا سبب؟ کے سوال پر اِنکا کہنا ہے کہ ’’یہ خود سے خود تک کا سفر‘‘ہے۔فرہاد جبریل گرشتہ چار سالوں سے بسلسلہ روزگار ابوظہبی میں مقیم ہیں ۔نہایت کی قلیل مدت میں حلقہ شعروادب میں ایک خاص مقام حاصل کرنے میں کامیابی انکا مقدر بنی ہے ۔محافل کے ادبی ماحول میں جان ڈالنا اور سامعین کی توجہ حاصل کرنے کا ہنر جان چکے ہیں ۔ان کے کلام میں مثبت سوچ کے ساتھ خود سے محبت ،انسان سے محبت،کام سے محبت،عقیدے سے محبت،نظریات سے محبت ، دھرتی سے محبت،اپنی محبت سے محبت اورپھر اِس محبتوں کے اظہار کا والہانہ اچھوتا اندازقاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہنے دیتا۔اگر یہ کہا جائے کہ ٖفرہاد اپنے کلام میں فصاحت ، وسعت ، معنویت ، بلاغت ، انفرادیت ،جذباتیت،جازبیت کو بڑے خوبصورت انداز و مہارت اور نہایت دھیمے لہجے سے نمایاں رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں، تو بے جا نہ ہو گا۔یہ تمام خوصیات انہیں دورِ حاضر میں نئے اور نوجوان شعراء میں ممتاز کرتی نظر آرہی ہیں۔دعاگوہ ہوں کہ فرہادؔ جبریل دنیاِ شعروادب میں کامیابی کا تاج سرپر سجا ئے ہمیشہ بلندیوں کو چھوتے نظر آئیں۔اگر ’’تم بھی حَد کرتے ہو‘‘کا مطالعہ کیا جائے تو انکی ہر غزل میں نیا پن اور چاشنی رنگ بدل بدل کر پہلے سے زیادہ لطف اندوز کرے گی اچھا شعر ڈھونڈنا نہیں پڑیگاہر شعر ہی لطافت سے مالا مال ملے گا۔انکے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے
دل میں جذبِ عشق ہے تو جھوم جا
دِل نہ رہ جائے تِرا محروم، جا
رقص کر موجِ جنوں کی تال پر
جامچا دنیا میں اپنی دھوم ، جا
جمعہ کی شب پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے زیرِ اہتمام فرہادؔ کے پہلے مجموعہ کلام ’’تم بھی حَد کرتے ہو‘‘ کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔دورانِ تقریب مقررین کے اظہار خیال پر فرہادجبریل کے چہرے پے رقص کرتی مسکان،آنکھوں سے چھلکتا تبسم اِن کی بے انتہا خوشی، خود اعتمادی کی خوب ترجمانی کرتا رہا۔مقرر اپنے اظہار خیال کے بعد اپنی نشست کی جانب بڑھتے تو فرہاد جبریل کھڑے ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ تھام کر سینے پر سر رکھ کر ہدیہ شکرانہ پیش کرتے۔تقریب کی صدارت ظہورالسلام جاوید نے کی جبکہ صدرِ محفل اور صاحبِ کتاب کے کے ہمراہ یعقوب تصور ،طاہر زیدی، ڈاکٹر عاصم واسطی، ظہیر بدر،عبدالطیف اور نیر نیناں بھی سٹیج کی رونق بڑھا رہے تھے۔وقارکی خوبصورت تلاوتِ قرآنِ پاک کے ساتھ پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔سلمان احمدنے بڑی عقیدت سے پُرسوزترنم کے ساتھ نعتِ رسول مقبولﷺ پیش کر کے ،سامعین کے دلوں کو گداز بخشا۔زاہد درویش نے تعظیمی کلمات پیش کئے ۔نظامت کے فرائض پیڈ کی ادبی کمیٹی کی متحرک شخصیت جناب طارق رحمن نے باحسنِ خوبی سرانجام دیئے انہوں نے کہا کہ فرہاد ؔ جبریل کے پہلے مجموعہ کلام کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد پیڈ کی ادبی کمیٹی کے لئے باعث اعزاز ہے ۔’’تم بھی حد کرتے ہو‘‘ اُردو ادب میں ایک خوشگور اضافہ ہے۔ہم انکی مزید ترقی کیلئے تہہ دل سے دعاگوہ ہیں۔انہوں نے کہا پاکستان ایسوسی ایشن کا آڈیٹوریم جلد ادبی حلقوں کے لئے کھل جائے گا اور انشاء اللہ تعالی امید ہے کہ اگلی محفل آڈیٹوریم کے بڑے ہال ہی میں ہوگی۔انہوں نے کتاب اور صاحبِ کتاب کے حوالے سے بھی اپنی قیمتی رائے کا اظہار کیا ۔
نوجوان شاعرہ نیر نیناں نے اپنے ہمسفر فرہاد جبریل کو اُنکے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی اور اپنے مضمون بعنوان ’’فرہاد شیریں سخن‘‘میں اظہارِ خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور کے جدت پسند شاعر فرہاد جبریل اپنے انوکھے تخلص کی طرح خیال بھی اچھوتا رکھتے ہیں ۔ جو آنکھوں کی جھیل میں پیاس اور پانی کو اکٹھا رکھنے کا فن جانتے ہیں۔
جھگڑا یوں طے پایا ہے اب حشر تلک
ساتھ رہیں گے پیاس اور پانی آنکھوں میں
بے رنگ و بُو کو اس چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں کہ یہ ناصرف رنگ و موسیقیت سے لبریز ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے مستعمل الفاظ کا ذائقہ قاری کو شیریں دہن کیے بنا نہیں رہتا۔فرہاد شیریں سخن ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ شاعری کے علوم پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں ،فرہاد، جبریل کی شاعری بادِصبا کی طرح سوچ کے غنچے کھلانا جانتی ہے۔انکا قلم خوابیدہ ذہن کو بیدار کرنے کی طاقت رکھتا ہے جو قاری کو ایک اچھوتی دنیا کی سیر کرواتا ہے جسکا تعلق حقیقت سے ہے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فرہادؔ جبریل کا شمار دُنیائے علم و ادب کے اُن چند تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جِن کے تخیل کی پرواز اور فنی مہارت کی بدولت اوائلِ سفر میں ہی کامیابیوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔اپنے اِس شعر میں شاید لاشعوری طور پر وہ اس دلچسپ حقیقت کا اِنکشاف بھی کر گئے ہیں ۔
آیا ہوں اپنے وقت سے پہلے میں اس لئے
اُکتا گیا تھا وقت میرے انتظار میں
اللہ تعالی زورِ قلم میں مزید برکت اور سوچ کی وُسعت میں اضافہ عطا فرمائے۔آمین
صاحب کتاب فرہاد جبریل کے قریبی ساتھی، شاعر سلمان خان نے فرہاد کے ساتھ گزرے یادگار اور دلچسپ لمحات کو سماعتوں کی نذر کیا اور کہا کہ فرہاد جبریل نے بڑے قلیل عرصے وہ مقام کیا ہے جو ہر شاعر کیلئے ممکن نہیں انہوں نے اپنے اس مقام کو قائم بھی رکھا ہے جو بہت اہم ہے ۔فرہادکا فن ملاحظہ کیجئے
اس نے جلوہ دِکھا دیا مجھ کو
اور پتھر بنا دیا مجھ کو
انہوں نے کہا کہ فرہادؔ عوام اور خواص دونوں کا ہی شاعر ہے۔اسکے کلام میں جو اچھوتا پن اور کشش ہے اُسے الفاظ میں بیان کرنا قدرے مشکل ہے۔ پچھلے چار سالوں میں مجھے فرہاد کو بہت قریب سے سمجھنے کا موقع ملا اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ فرہادؔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھااُستاد، اچھا بیٹا، اچھا شوہر اور اچھا دوست بھی ہے۔اِنکے یہ اشعار مجھے بہت پسند ہیں
لفظ و معنی کے درمیان میں ہوں
پھر بھی صدیوں سے داستان میں ہوں
میرا سایہ زمیں پہ رینگتا ہے
روزِ اول سے میں اُڑان میں ہوں
سامعین ’’تم بھی حَد کرتے ہو‘‘ کے ناشرعلی زبیر کے مضمون بعنوان ’’آج کا شاعر‘‘ باذبانِ سلمان خان لطف اندوز ہوئے۔علی زبیر کے خیال میں فرہاد جبریل نے اردو شاعری کو ایک نئی جمالیات سے آشنا کیا ہے اس کی گفتگو میں جو لفظیات ہے اس نے ا نہیں لفظیات کو جمالیاتی پیرہن عطا کیاہے۔آپ فرہادؔ کی شاعری کو پڑھتے جائیں ، آپ کی جمالیاتی حس کہیں مجروع نہیں ہو گی ،لیکن آپ واضح طور پر اس کا منفرد لب و لہجہ ، اسکا منفرد طریقہ واردات، اس کی منفرد لفظیات محسوس کریں گے۔اُسے نے کیسے کیسے سنگلاخ موضوعات کو پھول سی شاعری کا بدن عطا کیا ہے ۔مجھے لگتا ہے اُس نے اہل نقدونظر ہی سے خطاب کیا ہے کہ
تبدیل کردے جو ترے پتھر کو پھول میں
وہ باکمال شخص مِری ذات سے نکال
اِس کے ہاں غیر شعری الفاظ بڑی خوبصورتی سے شعری لباس زیب تن کیے نظر آتے ہیں، جو میں سمجھتا ہوں کہ فرہاد کے سخن ہی کا اعجاز ہے۔پہلے وہ اپنے شعر کا پورا خمیر روایت اور جمالی نظام کے حامل الفاظ سے اٹھاتا ہے اور پھر اُس شعر میں بڑی سہجتا سے، بڑی سنبھلتا سے، بڑی نزاکت سے اپنے عہد کی لفظیات کو رکھ دیتا ہے ۔یہی اسکا طریقہ واردات ہے یہی اُسکا اسلوب ہے یہی اسکا جدید لہجہ ہے ذرا اِس شعر کو دیکھئے
ہم نے دیکھا سخت رویے والوں کو
کرتے کرتے کر دیتے ہیں ڈھیلے ،دُکھ
مذہبی اصطلاحات، استعاروں اور تشبیہات کے ذریعے بات کرنے کا فرہاد کا اپنا ڈھنگ ہے ۔مجھے اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ فرہاد آج کا بھی شاعر ہے اور آنے والے کل بھی اسی کا ہے۔فرہاد کے اِس خوبصورت شعرکے ساتھ ناشر علی زبیر کے مضمون کا اختتام کیا گیا۔
لبریز نظر تو آتے ہیں اندر سے مگر سب خالی ہیں
سب جھوٹے روپ کے درشن ہیں یہ جتنے لوگ مثالی ہیں
جناب پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق جو چند وجوہات کی بنا پر حاضر نہ ہوسکے ،کی تحریر بھی پیش کی گئی انہوں کا کہنا تھا کہ صاحبِ کتاب سادگی شعار ہے ، کردار میں اخلاص میں زبان میں رہن سہن میں اور گفتگو میں سادگی کو پسند کرتا ہے ،اپنی لہلائے مقاصد کے حصول کے لئے صحراؤں میں ایک سالک مضطرب کی طرح رواں دواں ہے ،وہ صحرا کی خشکی میں آب حیات کا متلاشی ہے رہگزاروں میں اسے نخلستان کی جستجو ہے اور پھر گرمی صحرا کی حدت میں وہ آسمان کی جانب دیکھتا ہے اور پکارتا ہے
برس اے ابر صحرا ہر کبھی تو
دکھا مجھ کو کہ ہے کیا ظرفِ تیرا
فرہاد کی آرزؤئیں عظیم ہیں،او ر خواہشات لامنتہا اور وہ ان تمناؤں کے سہارے اپنی فکر کا سفر شروع کر رہا ہے۔انسانیت، فرشتہ سیرت ،جن و ملک، روح الامین، آدم خاکی، اور بندہ محنت کش، سب اصلاحات ہمیں فرہاد کے کلام میں ملتی ہیں۔یہ حسین ترین تراکیب کو نئے رنگ میں ڈھالنے میں کوشاں ہے۔اسکا کلام خوبصورت بھی اور جاذب نظر بھی ،آسان بھی اور رواں بھی جس میں مسلسل جستجو نظر آتا ہے۔میں پہلے مجموعہ کلام’’تم بھی حد کرتے ہو‘‘ کی اشاعت اور رونمائی پر دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں
قد آور ادبی شخصیت محترم محمد ظہیر بدر کا کہنا تھا کہ بلال (فرہاد جبریل) ایک اچھا شاعر اور ایک اچھا اُستاد بھی ہے مگر بحثیت اُستاد میں سمجھتا ہوں کہ درجے میں اُستاد اول اور شاعرثانوی ہے اور بلال یقیناًایک اچھا شاگرد بھی ہے اور اچھا شاگر ہونا ہی اچھے اُستاد ہونے کا مقدر بنتا ہے ۔ایک اچھا خوشہ چین ہے۔انکی شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو انکی شاعری فکروخیال سے مہارت ہوتی ہے،فرہاد کے ہاں خیالات اچھوتے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔اپنی شاعری میں خیال سے سوال کرتا ہے اور سوال سے مکالمہ کر کے ہمیں آگاہ کر تا ہے،جبکہ جواب تو سوال سے بھی زیادہ عجیب ہوتا ہے۔کہیں بھی دکھلاوے کا گمان نہیں ہوتا۔جو اِس کے خوب مطالعے کی دلیل ہے۔فرہاد کی شاعری کا لطف اِسے پڑھ کر ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔جہاں آپ فرہاد کو کبھی فلک سے بات کرتے ،کبھی لاحوت سے بات کرتے،کبھی خودی سے بات کرتے پائیں گے۔فرہادسے مخاطب ہوکر کہاکہ میں آپکو پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور بڑے یقین سے بات کہا سکتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی آپکا آنے والا کل بہت درخشاں ہے۔
معروف افسانہ نگار پروفیسر پیر آغا کیلاش نے فرہاد اور اُس کی شاعری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرہادکا تعلق پاکستان کے اُس حصے سے ہے جہاں مہذب ،عشق اور عام زندگی میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا اور یہی شاہکار اس کی شاعری میں موجود ہے ۔شاعری میں کوئی بناوٹ نہیں ،نعرے بازی نہیں۔۔بلکہ زندگی کو سینے سے لگانا ہی فریاد کی شاعری ہے۔
وصل کا نعم البدل بھی وصل ہے
ہجر سی مشکل کا حل بھی وصل ہے
لوٹ کر فرہاد خود آئے گا وہ
وصل کا ردِ عمل بھی وصل ہے
اس کی شاعری میں سوال ہے اور جواب بھی اُسی شاعری میں ہے ۔ درد بھی ہے اور درد کا مرہم بھی ہے۔درحقیقت فرہاد کی شاعری میں اہمیت اور افادیت سمجھانے سے نہیں پڑھنے سے ہی معلوم ہو سکتی ہے ۔وہ تمام اوصاف اِس خوبصورت فن پارے میں موجود ہیں جو ایک اچھی اور معیاری شاعری میں ہونے چاہیے۔ملاحظہ کریں
میری ہستی میرے فریب میں ہے
اور میں ہستی کے امتحان میں ہوں
وہ مرحلہ آپہنچا جسکے لئے اِس خوبصورت محفل کا انعقاد کیا گیا تھا ۔تالیوں کی گونج میں فرہادکے پہلے مجموعہ کلام ’’تم بھی حَد کرتے ہو‘‘ کی رونمائی عمل میں لائی گئی۔ اس لمحات کو یادگار بنانے میں ظہورالسلام جاوید، نیر نیناں، یعقوب تصور، ڈاکٹر عاصم واسطی، طارق رحمن ، طاہر زیدی، محمد ظہیر بدر، پیرآغا کیلاش،سلمان جاذب، سلمان احمد خان، بی اے شاکر، عبدالطیف نے حصہ لیا۔
نامور شاعرڈاکٹر صباحت عاصم واسطی نے اپنے اظہارِ خیال میں کہا کہ جبری شاعری میں لفظ اور خوبصورت لفظ گریز کرتے ہیں۔مگر فرہاد جبریل نے اپنے آپ کو لفظوں کے سپرد کرکے لفظوں سے پذیرائی حاصل کرنے کا گُر بڑے ہی قلیل مدت میں سیکھ لیا ہے کہ اب الفاظ اور خوبصورت الفاظ فرہاد کی تلاش میں گھومتے ہیں…Whilst he adheres firmly to the establish a unique and new expression through distinctive throught handling……* Although i remained between the word and the meaning…Yet still for centuries i have prevailed in the story….* The trusted minister has given the suggestion to the ruler
جواب دیں