توتیرآزما،ہم جگرآزمائیں!!

جس دن سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے،نہ معلوم اس پارٹی کے دریدہ دہن لیڈران سمیت ہندوتواکے سرطان میں مبتلانام نہادثقافتی و سماجی تنظیموں اوربی جے پی کی ہم خیال بعض سیاسی پارٹیوں کے سروں میں کون سا سودا سمایاہواہے،ایسالگتاہے کہ اُنھیں ذہنی و قلبی طورپرصدفیصدیقین ہوچلاہے کہ اب ہندوستان اگلے پانچ سالوں کے اندر اندرعالمی سطح پر ایک عظیم ہندوراشٹرکے طورپراُبھرکر رہے گا،سوان کی زبانیں بے لگام ہیں،ان کے منہ سے الفاظ نہیں،گویاچنگاریاں نکل رہی ہیں،ان کی فکر ی تیزابیت دن بدن گہری اور مسموم تر ہوتی جارہی ہے اور ملک کی اقلیتیں بالخصوص مسلمان اور عیسائی مسلسل ان کے نشانے پر ہیں۔
ابھی چنددن گزرے کہ آندھراپردیش پولیس نے پانچ مسلمان قیدیوں کوفرضی انکاؤنٹرمیں مارڈالا،مگرقومی میڈیاسمیت مرکزکی جانب سے بھی ہوں تک کی آوازنہیں سننے میں آئی اوراب بی جے پی کی دیرینہ شریکِ کاروفکرمہاراشٹرکی شیوسیناپارٹی کے ایک لیڈر،ایم پی اوراس کے ترجمان’’سامنا‘‘اخبار کے ایڈیٹرنے وی ایچ پی کے ترجمان پروین توگڑیاکے دیرینہ موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس اخبارمیں اولاًتواویسی برادران اوران کی پارٹی آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین کو نشانہ بنایا اور لگے ہاتھوں یہ بھی لکھ ماراکہ مسلمانوں سے حقِ راے دہی ہی چھین لیاجائے؛تاکہ ووٹ بینک کا قصہ ہی پاک ہوجائے۔ایم آئی ایم سے شیوسیناکا اختلاف تو ظاہر ہے کہ سیاسی وجوہ سے ہے؛کیوں کہ گزشتہ اسمبلی الیکشن کے بعد سے مہاراشٹرمیں لگاتاراس پارٹی کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہاہے،اس کے دوایم ایل اے بھی منتخب ہوئے ہیں اوراب اس نے وہاں کے میونسپل انتخابات میں بھی اپنے امیدواربڑی تعداد میں اتارے ہیں اور سیاسی اختلاف میں ایک دوسرے پر الزام تراشی چلتی ہی رہتی ہے،مگراس اختلاف کی آڑمیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں پر نشانہ سادھنااوریہ کہنا کہ ان سے ووٹ دینے کا حق مسلوب کرلیا جانا چاہیے نہ صرف غیر اخلاقی و غیر انسانی مطالبہ ہے؛بلکہ ہندوستانی دستورکی سرِ عام مخالفت ہے۔یہ ایسا جرم ہے کہ اس پرفوری ایکشن لینا چاہیے اور ایسا لکھنے والے سنجے راوت کے خلاف کیس درج کرکے انھیں پابندِ سلاسل کیا جانا چاہیے۔ان کے اس بیان کے بعدملک بھرکے مسلمانوں میں ہی نہیں،ہر انصاف پسند ہندوستانی کے دل و دماغ میں غصے کے جذبات ابھر رہے ہیں،جوبالکل فطری بات ہے۔
ایم آئی ایم کے بارے میں بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ یہ پارٹی مذہب کے نام پر سیاست چمکاتی ہے اورووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے؛حالاں کہ خودبی جے پی ،شیوسینااور ان جیسی جتنی متشدداور سخت گیر جماعتیں ہیں،ان سب کی بنیادیں خودخالص ہندوانتہاپسندی پر رکھی گئی ہیں اور یہ پارٹیاں الیکشن کے زمانے میں باقاعدہ مہم چلاکرہندووں کوبیدار و ہوشیار کرتیں اور لوگوں کوکہتی ہیں کہ اگر ان پارٹیوں کو ووٹ نہیں دیاگیا،تودوبارہ اس ملک پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا اور ہندووں کویہاں سے دیس نکالادے دیاجائے گا،انفارمیشن ٹکنالوجی کی برق رفتاری کے اِس دورمیں یہ حقیقت اکثر لوگوں کو معلوم ہے،ہم نے گزشتہ انتخابات کے زمانے میں خودایسے ویڈیوزدیکھے ہیں،جن میں ہندووں کے گھر گھرجاکرانھیں ورغلایاگیا اوراس بات پر ابھاراگیاہے کہ وہ بی جے پی اور اس کی ہمنواپارٹیوں کوہی ووٹ دیں،ورنہ ان کا مستقبل خطروں سے گھرجائے گا،جبکہ دوسری جانب بیرسٹراسدالدین اویسی یا ان کے بھائی اکبرالدین اویسی کے انتخابی جلسوں اور ان کی تقریروں میں جوباتیں کہی جاتی ہیں،ان سب کا لبِ لباب محض یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کے دبے کچلے طبقات کو ان کے حقوق دلانا چاہتے ہیں اوروہ صرف ایسا کہتے ہی نہیں؛بلکہ عملی سطح پر ایسا کرتے بھی ہیں؛یہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی ساؤتھ کے حدود سے نکل کر شمالی و مشرقی ہندوستان تک پھیلتی جارہی ہے اور اس سے جڑنے والے صرف مسلمان ہی نہیں؛بلکہ ہندووں کے نچلے طبقات بھی ہیں۔اس کی مقبولیت کا یہی پھیلاؤہے،جسے دیکھ دیکھ کر شدت پسند جماعتوں کے ساتھ مسلمانوں سے ہمدردی کا دم بھرنے والی دیگرپارٹیاں،مثلاً کانگریس،سماج وادی پارٹی،نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور دوسری دوہرے رویے والی پارٹیاں خدشات اور اندیشوں میں مبتلا ہیں ۔کانگریس اور سپاوغیرہ کے کئی لیڈران تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ایم آئی ایم کو بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے فنڈنگ کی جاتی ہے۔
خیریہ تومجلس اتحاد المسلمین کی بات ہوئی،مگرسارے ہندوستان کے مسلمانوں کے حوالے سے سنجے راوت کا جومذکورہ بیان آیاہے،وہ انتہائی حد تک تشویش ناک ہے،اس بیان کووقتی یا اتفاقی سمجھ کر نظراندازکرجانا بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگی،یوں توعام آدمی پارٹی و کانگریس سمیت دیگر پارٹیاں بھی شیوسینا کی اس فکر کی مذمت کر رہی ہیں،مگر دوسری جانب اس کی اتحادی بی جے پی کے سروں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے،پارلیمانی امور کے وزیر وینکیا نائیڈونے حسبِ سابق یہ کہہ کر پلّہ جھاڑنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان اپنے تمام شہریوں کو راے دہی کا حق دیتاہے اور اس میں مداخلت کے بارے میں سوچابھی نہیں جاسکتا،مگرانھوں نے ایسے لوگوں اور پارٹیوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا،جوایسا صرف سوچتی ہی نہیں؛بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنانا چاہتی ہیں؛حالاں کہ وینکیانائیڈونے جو کچھ کہا،اگران کی پارٹی اور ہائی کمان واقعتاً ایسا سوچتے،تواب تک سنجے راوت کے خلاف واجبی کارروائی ہوجانی چاہیے تھی۔یہ بی جے پی کا دوہراطرزِعمل ہے،اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس کے کھانے کے دانت اور،جبکہ دکھانے کے دانت اورہیں۔
دوسری جانب خودبی جے پی کے ایم پی ساکشی مہاراج اور ہندومہاسبھاکی قومی نائب صدر سادھوی دیواٹھاکر نے بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی زہریلی زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہاکہ برتھ کنٹرول کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کی بھی نس بندی ہونی چاہیے۔ساکشی مہاراج کاکہنا ہے کہ حکومت خاندانی منصوبہ بندی کی جو مہم چلا رہی ہے،اس میں تمام طبقات کو شامل کیا جانا چاہیے اوران لوگوں کوبھی اس منصوبے کا پابند بنانا چاہیے،جوچاربیویوں اور چالیس بچوں کے اصول پر چلتے ہیں،ہندوستان جس وقت آزادہوا،اس وقت اس کی آبادی تیس کروڑتھی،مگرآج اس کی آبادی ۱۳۰؍کروڑتک جا پہنچی ہے،اس سے ساکشی مہاراج کو شکایت ہے اور وہ اس بڑھوتری کے عمل کا الزام مسلمانوں کے سردھر رہے ہیں،ایسا عقل کا بودا اوربلید الذہن انسان دنیامیں نظرنہیں آئے گا،انھیں یہ بھی تودیکھنا چاہیے کہ اس ملک میں ۸۸؍فیصدتوہندوہیں،توسوکروڑسے زیادہ خودہندوہوئے،باقی کے تیس کروڑہی میں توساری اقلیتیں ہیں۔ اگرمسلمان واقعتاً ’’چاردہائی چالیس‘‘والے فارمولے پر عمل پیرا رہتے،توآج تک تووہ سوکروڑہوتے،نہ کہ ہندو۔جبکہ سادھوی کاکہناہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو ایمرجنسی نافذکرکے نس بندی کی مہم چلانی چاہیے،جبکہ ہندوزیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں؛ تاکہ آیندہ پوری دنیا میں ہندووں کا اثرورسوخ قائم ہو۔آخریہ کس قسم کی ذہنیت ہے ؟کس قسم کے خیالات ہیں؟کیاواقعتاً ہندوستان کو ہندوراشٹرمیں بدلنے کی پلاننگ چل رہی ہے؟کیاصحیح معنوں میں یہاں کے مسلمانوں اور دیگراقلیتوں کونکال باہر کر دیاجائے گا؟حکومت کے جو رسمی بیانات ہیں،ان میں وزیر داخلہ سے لے کر وزیر اعظم تک کئی بار عوامی سطح پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اس ملک کے مسلمان اپنے ملک کے تئیں وفادارہیں اوروہ اس کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں،ماضی میں مسلمانوں نے سیکڑوں بارایسا کیا بھی ہے،توپھرآخرایسے زہریلے سانپوں کوبی جے پی اپنی آستین میں کیوں پال رہی ہے؟ گردوپیش سے اٹھنے والی آوازیں اس کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچ رہیں؟وزیر اعظم ملک کی اقتصادی حالت کو سنوارنے کے نام پر ’’جہاں گردی‘‘میں تو مصروف ہیں،مگرانھیں وہ لوگ کیوں نہیں نظرآتے،جوان کے خیمے میں رہتے ہوئے ملک کے ماحول کو آلودہ،اس کی فضاؤں کوآزردہ اورملک کی ترقی کی رفتارکوافسردہ کرنے کے درپے ہیں۔
الغرض ملک کی امن و سلامتی کی فضامسلسل مکدّرہوتی جارہی ہے،مگرحکومت ہے کہ خود سرائی اور اکڑفوں کا رویہ چھوڑکرحقائق سے سامنا کرنے اورملک کی فضاکوبہتر بنانے کی سمت میں کوئی قدم اٹھانے کو تیار ہی نہیں ہے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی اوراس کی ہم خیال جماعتیں ملک کوجس سمت میں لے جانا چاہتی ہیں،وہ بہت ہی پرہول ہے،مگریادرہے کہ اس سے خودیہاں کی اکثریت بھی مضرتوں کے دور میں پہنچ جائے گی۔جہاں تک بات مسلمانوں کی ہے،توہم نے تو۴۷ء میں اسلام و مسلمانوں کے نام پرنام نہادپاکستان بن جانے کے باوجودہندوستان میں رہنے کو ترجیح دے کرہی رہتی دنیاتک کے لیے مصائب سے ٹکرانے، مشقتوں کو جھیلنے، دشواریوں کو انگیز کرنے اوراپنے حاسدین کے سینوں پرمونگ دَل کراِسی ملک میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں؛یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعدسے لے کراب تک ہماری نسلی تطہیرکے لیے بہت سے حربے استعمال کیے گئے،مگرہرباربغض و عنادکے طوفان کوہمارے کوہ پیکر صبروشکیبائی اورہمت و حوصلہ کے سامنے پست ہونا پڑا،سو سنجے راوت ہی نہیں،ساکشی مہاراج،دیواٹھاکر،نرنجن جیوتی،ادتیہ ناتھ،پروین توگڑیا،سنگھل،بھاگوت اور سارے سنگھی ٹولے کے لیے ہماراایک ہی نعرۂ مستانہ ہے،جوآزادی کے بعدسے لے کر تاحال مادرِوطن کی فضاؤں میں گونج رہاہے :
اِدھرآ اوپیارے،ہنرآزمائیں!
توتیرآزما،ہم جگرآزمائیں!

«
»

ارکان پارلیمنٹ کیلئے مشاہرات اور غیر معمولی سہولتیں کیوں

یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے