واشنگٹن سے جاری ایک تازہ بیان میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی جارحانہ تجارتی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ٹیرف کی ڈیڈ لائن اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق طے کرے گا۔ 9 جولائی کی مقررہ تاریخ کو حتمی ماننے سے انکار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ امریکہ جب چاہے اس میں تبدیلی کر سکتا ہے — چاہے اسے آگے بڑھانا ہو یا فوری نافذ کرنا ہو۔
وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے دو ٹوک انداز میں کہا، ’’ہم جب چاہیں فیصلہ بدل سکتے ہیں، اسے آگے بھی بڑھا سکتے ہیں یا فوری نافذ کر سکتے ہیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ فوراً کارروائی ہو، اور سب کو ایک واضح پیغام ملے: مبارک ہو، اب آپ 25 فیصد ٹیرف ادا کر رہے ہیں۔‘‘
یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب امریکہ میں داخلی سطح پر ایران سے متعلق ممکنہ حملے اور ٹیکس اصلاحات پر بحث جاری ہے، تاہم اب ٹرمپ انتظامیہ نے تجارتی پالیسی کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے۔ اس حوالے سے امریکی ٹریزری سکریٹری اسکاٹ یسنٹ نے فاکس بزنس نیٹ ورک کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگر عالمی سطح پر بات چیت مثبت سمت میں جاری رہی تو لیبر ڈے (ستمبر کے پہلے پیر) تک کئی معاہدے ممکن ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، ’’ہمارے 18 لاکھ سے زائد تجارتی شراکت دار ہیں، اور اگر ہم ان میں سے محض 10 یا 12 سے کامیاب معاہدے کر لیتے ہیں، تو ہم مقررہ وقت میں اہم پیش رفت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
ادھر یورپی یونین کے ساتھ ایک نئی تجارتی تجویز بھیجی جا چکی ہے، جبکہ ہندوستان نے بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کو واشنگٹن بھیج کر مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولن لیوٹ نے بھی واضح کر دیا کہ 8 اور 9 جولائی کی تاریخیں صرف علامتی ہیں، اور صدر ان میں کسی بھی وقت ترمیم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر فریقین سنجیدہ نہ ہوئے تو صدر خود براہ راست تجارتی تجویز پیش کریں گے، جو کہ امریکہ کے قومی مفاد اور امریکی محنت کش طبقے کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہو گی۔‘‘
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپریل میں تقریباً تمام غیر ملکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت 10 فیصد سے زائد ٹیرف پر 90 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ یہ مدت 8 جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔ بعد ازاں، مئی کے آخر میں ٹرمپ نے یورپی یونین سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر 50 فیصد تک اضافی ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی، حالانکہ یورپی ممالک پہلے ہی ابتدائی پابندیوں کے اثرات جھیل رہے ہیں۔