مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
عام طور سے ٹول کٹ سے مراد وہ بکس ہوتا ہے جس میں مشینوں کو ٹھیک کرنے کے لیے اوزار رکھے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ پانچ ماہ سے یہ لفظ اب دوسرے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، جس کی وجہ سے اس پر قانونی سوالات کھڑے کیے جاتے رہے ہیں، ہندوستان میں سب سے پہلے یہ لفظ کسان آندولن میں سنا گیا، جب ماحولیات پر کام کرنے والی ایک خاتون گریٹاتھن پرگ نے کسان اندولن کی حمایت میں لکھا، پھر سماجی خدمت گار بنگلور میں دِشا روی کی گرفتاری ہوئی، تب پتہ چلا کہ سوشل میڈیا پر ٹول کٹ کا مطلب اپنے مخالفین پر تنقید کرنا اور ان کی خامیوں کو طشت ازبام کرنا ہے، بھاجپا کے ترجمان سنپت پاترا نے کانگریس پر مودی سرکار کو بدنام کرنے کے لئے ٹول کٹ استعمال کرنے کا الزام لگا کر اسے سیاسی داؤپیچ کا مرکز بنا دیا ہے، اس طرح اب یہ مختلف قسم کی مارکٹنگ کا کامیاب ذریعہ سمجھا جا رہا ہے، اس کا استعمال بنیادی دستاویز کی فراہمی، تحریک کی فلاسفی استعمال کرنے کے لیے پوسٹر کے نمونے ارسال کرنے نیز ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا میں تحریک کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لئے ہو رہاہے، ٹول کٹ میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لوگ اس موضوع پر کیا لکھ سکتے ہیں، کون سے ہیش ٹیگ کا استعمال کرسکتے ہیں، ہیش ٹیگ میں کن لوگوں کوجوڑنے سے کیا فائدہ ہوگا، اور لوگوں کو کس وقت جوڑنا چاہیے یہ ٹول کٹ کے اجزا ء ترکیبی ہیں، کسی موضوع پر جب مخالفین کو چبھن ہونے لگتی ہے تو وہ اس ٹول کٹ کو ”شول کٹ“ اور جب عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے تو اسے ”فل کٹ“ بھی کہاجاتا ہے۔
ٹول کٹ کا فائدہ لوگ دستورکی دفعہ ۹۱/ کے تحت لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی جو آزادی دی گئی ہے اس سے اٹھاتے ہیں، جس کے دائرہ میں سیاست داں اور ذرائع ابلاغ بھی آتے ہیں، اس آزادی پر ماضی میں سوالات اٹھتے رہے ہیں کہ اس کے حد ود وقیود کیا ہیں؟ ۵۱۰۲ء میں آئی ٹی کی دفعہ ۶۶/۱ے کو بے اثر کر دیا گیا اور افراد کی آزادی پرسپریم کورٹ نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی، جس کے بعد ٹول کٹ کا استعمال آزادیئ رائے کے نام پر کثرت سے ہونے لگا؛کیوں کہ یہ کام غیر قانونی باقی نہیں رہا، اب صرف ایک راستہ بچا ہے کہ ٹول کٹ پر جو مواد ہے، اس کی جانچ کرلی جائے کہ وہ صحیح ہے یا غلط، اس کے لیے ہمارے یہاں ایک ایجنسی ”اَلٹ نیوز“ ہے، اسی طرح انقلاب میں ایک کالم ”فیک نیوز“ اور حقیقت کے عنوان سے آتا ہے، جو اس طرح کے مواد کی جانچ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتا ہے، وہ اپنی تحقیق کے نتیجے میں بتاتا ہے کہ ٹول کٹ میں جو مضامین ڈالے گئے ہیں وہ تحریف شدہ ہیں یا جعلی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک طریقہ اور ان دنوں رائج ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا والوں سے ہی یہ درخواست کی جائے کہ یہ مواد متنازعہ ہے، اس لئے اسے ہٹا دیا جائے، ٹول کٹ پر پیش کی جانے والی چیزیں عموما حکومت وقت اور حکمرانوں کے خلاف ہوتی ہیں، اس لیے عام طور پر ایسی درخواستیں حکومت کے آئی ٹی سیل یا پھر حکمراں جماعت کے کسی کار کن کے ذریعہ مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر داخل کی جاتی ہے اور عموما ذرائع ابلاغ والے اسے حذف کر دیتے ہیں، دوسری طرف حکمراں جماعت کے لوگ اس ٹول کٹ کا استعمال اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کرتے ہیں اور یقینا کئی معاملات میں بیانات میں جو حقائق پیش کئے جاتے ہیں وہ غلط ہوتے ہیں۔
ماضی میں اس کی ضرورت کم پڑتی رہی ہے، 2012ء سے 2014ء تک اکا دکا درخواستیں ہی ٹوئٹر کے دفتر تک پہونچتی تھیں، دھیرے دھیرے یہ تعداد بڑھنے لگی، چنانچہ 2016ء کی دوسری ششماہی میں دفتر کے پاس ایک سو اکاون (۱۵۱)درخواستیں حذف کرنے کے سلسلے میں آئیں، جنوری سے جون 2018ء میں یہ تعداد دو گنی ہو کر تین سو چھ(306) تک پہونچ گئی، جولائی سے دسمبر 2019ء کے درمیان ایسی درخواستوں کی تعداد چھ سو باسٹھ (662) ہو گئی،جنو ری تا جون 2020ء میں ٹویٹر کے پاس مواد ہٹانے کے لیے تئیس سو سڑسٹھ (2367) درخواستیں آئیں، جن میں ٹوئٹ کرنے والے کی شناخت ظاہر کرنے یا مواد ہٹانے کے لیے کہا گیاتھا۔
اس کا مطلب ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے لیے آج جو ٹول کٹ استعمال کیا جا رہاہے، اسکے بھی حدود وقیود مقرر ہونے چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت پر کی جانے والی تنقید کو ملک سے غداری کے مترادف قرار دیا جائے اور جس طرح چین یاہندوستان میں ایمرجنسی کے زمانہ میں آزادانہ خبروں کی ترسیل پر قدغن لگایاجاتا ہے، اسی طرح خبروں کو نشر کیا جائے، ظاہر ہے ایک آزاد اور جمہوری ملک میں یہ رویہ انتہائی غیر پسندیدہ ہے۔
اس معاملہ میں امریکہ کا طریقہ کار بہتر ہے، وہاں کی سکریٹ سروس عوام کی جانب سے پیش کردہ تمام اندیشے، خطرات، اثرات کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور صدر کو متنبہ کرتی ہے کہ عوامی رجحان یہ ہے، صدر، عوام کی توقعات کے مطابق اپنے مشیر اور ایوان کی آرا کی روشنی میں کام کو آگے بڑھاتے ہیں، اس لیے وہاں کسی ایسے مواد کو ہٹانے کی کوئی درخواست سوشل میڈیا پر نہیں کی جاتی ہے، ہندوستان میں بھی حکمرانوں کو سننے کا مزاج بنانا چاہیے اور عوامی شکایات کو دور کرنے کے لئے جد وجہد کرنی چاہیے، تب اعتراض اور جوابی اعتراض کا سلسلہ ختم ہوگا اور ٹول کٹ کا مثبت استعمال ہو سکے گا۔(بشکریہ نقیب)
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں