تہمت وبہتان-بڑی سماجی برائی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 

 کسی آدمی میں ایسی بُرائی بیان کرنا جو اس کے اندر نہیں یا کسی ایسے بُرے عمل کی اس کی طرف نسبت کرنا جو اس نے کیا ہی نہیں ہے ، افترا اور بہتان کہلاتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ایک سوال کے جواب میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر وہ بات اس میں موجود ہو اور تم بیان کرو تو وہ غیبت ہے اور اگر تم کوئی ایسی بات کہو جو اس میں نہ ہو تو تم نے ا س پر بہتان لگایا۔

 قرآن کریم میں افترا، اور بہتان دو الفاظ اس معنی میں آئے ہیں گو دونوں میں بعض اعتبار سے فرق ہے، لیکن مجموعی طور پر ان الفاظ کا استعمال الزام تراشی اور بہتان کے لیے کیا گیا ہے ، بہتان کا لفظ واقعۂ افک میں آیا ہے اور افترا کا لفظ اللہ رب العزت کی طرف غلط باتوں کے منسوب کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔

 ہمارے یہاں سماج کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ وہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے پھیلانے کا کام کرتے ہیں، اس میں ان کو ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے ، کیوں کہ شیطان ان کو اس کام پر ابھارتا ہے اور لا یعنی باتوں اور کاموں میں مشغول کردیتا ہے ، شریعت کے نزدیک یہ عمل انتہائی مبغوض، نا پسندیدہ اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔

 اس معاملہ میں شریعت کا حکم دو ٹوک اور واضح ہے کہ اگر کوئی شریر تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت کی وجہ سے کچھ ایسا کر بیٹھو جو بعد میں تمہارے لیے ندامت کا سبب بن جائے ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اس بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں، بے شک کان ، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی سی بات کافی ہے کہ وہ جو سنے اس کو بغیر تحقیق کے من وعن دوسرے سے نقل کردے، ظاہر ہے ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے، اس سے بڑی وعید اور کیا ہو سکتی ہے ، اسی طرح جو اللہ کے لیے من گھڑت باتیں بیان کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے اور جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط باتیں قصدا منسوب کیں تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

بہتان تراشی کرنے والے کا جہنم میں جو حال ہوگا اس کا ذکر حضرت انس بن مالکؓ کی روایت میں ملتا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات میرا گذر ایک ایسی جماعت پر ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے، اور وہ اپنے چہرے اور سینوں کو اس سے نوچ رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل ؑ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں، حضرت جبرئیل ؑ نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسرے لوگوں کا گوشت کھا تے تھے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے، ابو داؤد شریف کی ایک روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑا کرو، جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہوگا، اللہ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے، اور اللہ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دیں گے ، حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان کا مال ، عزت اور خون دوسرے مسلمان کے لئے حرام ہے۔

 پھر اگر اس تہمت کا تعلق کسی کی عزت وآبرو سے ہو تو دنیا وآخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب اور اللہ کی لعنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پاکدامن پر تہمت لگانے کو سات ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک قرار دیا ہے ، اور اس سے بچنے کا حکم دیاہے؛کیونکہ جس معاشرہ میں تہمت لگانا لوگوں کے معمول کا حصہ بن گیا ہو،اس میں بدگمانی عام ہوجاتی ہے، جو خود ایک گناہ ہے، تجسس کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے، جس سے قرآن کریم میںمنع کیا گیا ہے، تہمت اور بہتان کو پھیلانے کی وجہ سے غیبت کا بھی صدور ہوتا ہے، جسے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بُرے عمل کی وجہ سے آپسی اعتماد میں کمی آتی ہے اور لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،گویا تہمت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو بے شمار گناہوں میں مبتلا کرتی ہے، اس لیے اس سے حد درجہ بچنے کی ضرورت ہے۔ آج کل پرنٹ اور الکٹرونک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا نے سماج میں اپنی جگہ بنا لی ہے ، پہلے خبروں کی ترسیل ایڈیٹر کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا، وہ چاہے تو چھاپے، نہ چاہے تو نہ چھاپے، مکمل چھاپے یا کتر بیونت کردے، لیکن سوشل میڈیا کے چلن نے لکھنے والے کو آزاد کر دیا ہے، جو چاہے لکھے اور جس پر چاہے کیچڑ اچھال دے، پھر اس پر بحث شروع ہوتی ہے اور ایسی ایسی گالیاں اور ایسے ایسے بے بال وپر کے نکتے پوسٹ کیے جانے لگتے ہیں کہ الامان والحفیظ ، حالاں کہ یہ عمل فحش کی اشاعت کے قبیل سے ہے اور اللہ رب العزت کا واضح ارشاد ہے کہ جو لوگ بد کاری کا چرچا چاہتے ہیں ایمان والوں میں سے، ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہے، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (النور: ۱۹) ایک دوسری آیت میں ہے کہ اے ایمان والو! شیطان کے قدموں پر نہ چلو، جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلے گا تو وہ تو بے حیائی اور بُری بات ہی بتلائے گا۔

شریعت میں عزت وآبرو پر تہمت کے معاملہ میں شہادت کے بھی اصول سخت ہیں۔ ابو داؤد شریف کی روایت ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو اللہ اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا، ان آیات وروایات کا حاصل یہ ہے کہ صرف شبہہ کی بنیاد پر کسی کو کوئی شخص مطعون نہیں کر سکتا ، اب اگر کسی شخص سے ان امور میں کوتاہی ہو رہی ہے تو اس کو خلوت میں سمجھا نے کا حکم دیا جائے گا ، مگر اسے سر بازار رسوا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ، اور بغیر ثبوت شرعی کے خلوت میں سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ اس سے خواہ مخواہ کی بدگمانی کا دروازہ کھلے گا۔ شریعت کی منشا یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر ثبوت شرعی کے کسی پر الزام یا تہمت نہ لگائے، اگر ایسا کرتا ہے تو اس کی سزا بھی اسلامی حکومت میں متعین ہے، گویہ سزا ہتک عزتی کا دعویٰ کرنے کے بعد دی جاسکے گی ، کیوں کہ اصل معاملہ اس بندے کا ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے ، وہ اگر تہمت لگانے والے پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا تو تہمت لگانے والا متعینہ سزا سے محفوظ رہے گا۔

 جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اللہ رب العزت نے واقعہ افک میں تفصیل سے احکامات دیے ہیں،اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ کہی گئی کہ جو لوگ یہ طوفان لائے ہیں تمہیں میں کی ایک جماعت ہے، تم اس کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھو؛ بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ، ہر آدمی کے لیے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے اس بڑے بوجھ کو اٹھایا ہے اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔

اس آیت میں تہمت جس پر لگائی گئی اس کے لیے تسکین کا سامان ہے؛ کیونکہ اللہ نے اسے اس کے حق میں بہتر قرار دیا ہے، رہ گیے مسلمان تو ان کو ایسے موقع سے بر ملا اس بات کا اعلان کرنا چاہیے کہ یہ ایک طوفان ہے، واقعہ افک جو تہمت کا انتہائی خباثت سے بھرا ہوا واقعہ ہے اس کے بارے میں اللہ رب العزت نے ہدایت دی کہ جب تم نے یہ افواہ سنی تویوں کہہ دیتے کہ ہمارے لیے ایسی بات زبان سے نکالنا جائز نہیں ہے، اللہ پاک ہے اور یہ تو بڑا بہتان ہے۔ اس آیت سے ثابت ہو ا کہ ایسی خبروں کے سننے کے بعد مسلمانوں کاکیا رد عمل ہونا چاہیے اور وہ یہ کہ صاف کہہ دیں کہ ایسی بات بلا کسی دلیل کے زبان سے نکالنا بھی ہمارے لیے جائز نہیں ہے، یہ توبہتان عظیم ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن کی تاکید کی گئی ہے، ظنُّوْا بِالْمَؤمِنِیْنَ خَیْرًا کہا گیا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ ’’ہر مسلمان کو گناہوں سے پاک  وصاف سمجھنا اصلِ شرعی ہے، جو دلیل سے ثابت ہے، اس کے خلاف جو بات بغیر دلیل کے کہی جائے اس کو جھوٹا سمجھنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے، صرف اتنا کافی ہے کہ ایک مؤمن مسلمان پر بغیر کسی دلیل شرعی کے الزام لگایا گیا ہے، لہذا یہ بہتان ہے۔(معارف القرآن)

 آگے لکھتے ہیں: جہاں ثبوت شرعی نہ ہو وہاں اس طرح کی بے حیائی کی خبروں کو چلتا کر دینا اور شہرت دینا ، جب کہ اس کے ساتھ کوئی سزا نہیں، طبعی طور پر لوگوں کے دلوں سے بے حیائی اور فواحش کی نفرت کم کر دینے اور جرائم پر اقدام کرنے اور شائع کرنے کا موجب ہوتی ہے، جس کا مشاہدہ آج کل کے اخبارات میں روزانہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں ہر روز ہر اخبار میں نشر ہوتی رہتی ہیں۔

 یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے ،قرآن کریم میں بہتان سے متعلق آیات واحکام کا تعلق خاص واقعہ سے ہے، لیکن اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ عام ہیں، کیوں کہ بعض مخصوص آیتوں کو چھوڑ کر احکام شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے بلکہ حکم عام ہوتا ہے۔ اس لیے واقعہ افک کی وجہ سے جو احکام نازل ہوئے وہ بھی تہمت وبہتان کے باب میں عام ہوں گے۔ تہمت کی علت ہی ان احکامات کے نفاذ کے لیے کافی ہوگی۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

مائیک سے اذان پر پابندی : مذہبی رواداری کے خلاف

کون کہتا ہے کہ احساس ہمارا جاگ اٹھا……. تلخ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے