ٹیپوسلطان بمقابلہ سنگھ پریوار

سنگھ پریوار کا اس قسم کا نظریہ صرف ٹیپو کے بارے میں نہیں ہے بلکہ سبھی مسلم حکمرانوں کے متعلق ہے۔ وہ مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر تک کو بخشنے کو تیار نہیں ۔ اس کا سبب صرف اور صر ف یہ ہے کہ وہ تاریخ کو بہانہ بناکر آج اشتعال انگیزی کرنا چاہتاہے اور ہندووں ومسلمانوں کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ سنگھ کے حلقے میں جو تاریخ پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے وہ ساری دنیا سے نرالی ہے۔ٹیپو سلطان پر حملے کا جواب مورخین کی طرف سے دیا جارہاہے اور بتایا جارہاہے کہ بھگواوادی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں اور تاریخی واقعات کو اُس وقت کے پس منظر سے الگ کرکے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ کرناٹک میں ایک مندر ایسا بھی ہے جہاں ٹیپوسلطان کے لئے آج بھی روزانہ عبادت ہوتی ہے اور دعا کی جاتی ہے۔ مغربی ساحلی علاقے میں میں واقع ہوللور مندر میں روزانہ ٹیپو کے نام پر خاص پوجا،ارچنا ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مندر میں یہ رسم ٹیپو سلطان کے مندر میں آنے کے بعد سے اب تک جاری ہے۔ایک دوسری تاریخی روایت کے مطابق ٹیپوسلطان اس مندر سے محض 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شنکر نارائن مندر آئے تھے۔ انہوں نے وہاں مندر کو ایک گھنٹہ تحفے میں دیا تھا۔ اسی طرح تمل ناڈو میں بھی ایک مندر ہے جہاں تہوار کے دوران بڑی تعداد میں مسلم خواتین اور مرد حصہ لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں موجود مورتی ٹیپو سلطان نے اپنی ریاست کی راجدھانی شری رنگاپٹنم سے بھیجی تھی۔ یونہی فورٹ سینٹ جارج میں سینٹ مری کے ایک چرچ میں ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیپو سلطان عیسائی پادریوں کو لے کر بہت وسیع القلب تھا۔ یہ بات ان لوگوں نے لکھی ہے جو ٹیپو سلطان کے کٹر دشمن تھے۔
ٹیپوسلطان کی موت کے وقت اس کے ہاتھ میں ایک ایسی انگوٹھی تھی جس پر ’’رام‘‘ لکھا ہوا تھا۔ یہ انگوٹھی ٹیپو کے سیکولرازم کی زندہ علامت ہے۔ اس کے بارے میں کہا جارہاہے کہ یہ لندن کے میوزیم میں موجود ہے۔ سال بھر قبل یہ اس وقت روشنی میں آئی تھی جب اس کی نیلامی کا اعلان کیا گیا تھا۔ حالانکہ ہندوستانیوں کی مخالفت کے باوجود ٹیپو سلطان کی سونے کی وہ انگوٹی گزشتہ سال لندن میں نیلام کر دی گئی تھی۔ سونے کی اس انگوٹی کو ایک لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ میں فروخت کیا گیا تھا۔قیاس ہے کہ ٹیپو کی موت کے بعد ایک برطانوی جنرل نے یہ انگوٹھی لاش سے نکال لی تھی۔ الزام ہے کہ یہ انگوٹھی اس وقت نکالی گئی تھی، جب 1799 میں شری رگاپٹنم کی جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ہاتھوں ٹیپو کی شہادت ہوئی تھی۔سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان حکمراں اگر واقعی دوسرے مذاہب کے تعلق سے تنگ نظر ہوتا تو کیا وہ ایسی انگوٹھی پہننا پسند کرتا جس پر ہندو دیوتا’’ رام‘‘ کا نام لکھا ہو؟ یہ انگوٹھی ٹیپو کے سیکولرازم کی ایک نشانی ہے۔آج کل مطالبہ کیا جارہاہے کہ یہ انگوٹھی جو کہ برطانیہ کے میوزیم میں ہے ،اسے وزیر اعظم نریندر مودی واپس بھارت لائیں۔ اتر پردیش کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خاں نے حال ہی میں طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں لندن گئے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ وہاں سے ٹیپو سلطان کی اس انگوٹی کو لے کر آئیں گے جس پر ’’رام ‘‘لکھا ہے۔ وہ اس انگوٹی کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈروں کو دکھائیں گے۔ 
20 نومبر 1750 کو کرناٹک میں پیدا ہوئے ٹیپو سلطان نے 17سال تک ریاست میسور پر حکومت کی مگر کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے سر نہیں جھکایا اور انگریزوں سے جم کر مقابلہ کیا۔ مورخین کے مطابق ٹیپو ایک روشن خیال اور ترقی پسند حکمراں تھا۔اس نے انگریزوں سے جنگ کے لئے راکٹ ایجاد کئے تھے جو آج دنیا بھر میں دفاع کا اہم ذریعہ مانے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اس نے اپنی سلطنت میں بہت سے ترقیاتی کام بھی کرائے ۔ملک میں آب پاشی کے نظام کو بہتر بنایا۔اسی کے زمانے میں کاویری ندی پر ڈیم بنانے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے سڑکیں تعمیر کرائیں اور ان کی مرمت کرائی۔ اس نے صنعت وتجارت اور جدید ٹکنالوجی کو بڑھاوا دیا گیا۔ اپنی ریاست میں فیکٹریاں قائم کیں۔ایسے حکمراں کے بارے میں اگر سنگھ پریوار الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے تو چاند پر تھوکنے کی مصداق ہے۔ یہ تھوک اس کے اپنے منہ کی طرف ہی لوٹے گا۔(ی

«
»

ڈاکٹر وحید انجم کی انسانیت نواز افسانچہ نگاری

بہار کے عوام نے ادا کی ذمہ داری اب عظیم اتحاد کی باری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے