اس سلسلے میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کی تحریک بہت اہم ہے جس نے اسے نقطہ انجام تک پہنچایا، ورنہ ملک میں بہت سی تحریکیں شروع ہوتی ہین اور کسی مقصد کو حاصل کئے بغیر ختم ہوجاتی ہیں۔ یہ نئی ریاست ان دنوں جن باتوں کے لئے چرچا میں ہے ان میں سب سے اہم ہے مسلمانوں کے لئے سرکار کی طرف سے اعلانات۔ چندر شیکھر راؤ نے اپنی بارہ رکنی کابینہ میں ایک مسلمان محمود علی کو اہمیت کے ساتھ جگہ دی اور انھیں نائب وزیر اعلیٰ بنایا۔ ان کے پاس کئی وزارتیں ہیں جن میں ریونیو اور رجسٹریشن جیسے محکمے شامل ہیں مگرخود وزیراعلیٰ اقلیتوں سے کئے گئے وعدوں کے تعلق سے اس قدر سنجیدہ ہیں کہ انھوں نے اقلیتی امور کی وزارت اپنے پاس رکھی ہے اور کئی اہم اقدام مسلمانوں کی بہبود کے لئے اٹھائے ہیں۔ وہ اپنے انھیں اقدام کے سبب ان دنوں فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں جو انھیں گھیرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بی جے پی انھیں اسمبلی میں گھیر رہی ہے تو وشو ہندو پریشد جیسی ہندتو وادی جماعتیں سڑکوں پر اتر کر سرکار کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کر رہی ہیں۔ سرکار کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں مین ریزرویشن دینے کے اقدام کئے ہیں ،نیز وقف اور دیگر مسلم مسائل پر وہ سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ اس نے مسلمانوں کو ریاست میں برابر کا شہری ہونے کا احساس کرانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ خود مسلمانوں کا ایک طبقہ یہ مانتا ہے کہ سرکار کے ان اقدام سے ہندو انتہا پسند طاقتوں کو متحد ہونے کا موقع ملے گا اور اس طرح وہ بی جے پی کی حمایت میں عام ہندو ووٹروں کو لانے کی کوشش کریں گی۔
مسلمانوں کو ریزرویشن
تلنگانہ میں ان دنوں مسلم ریزرویشن ایک اہم ایشو ہے۔ نئی سرکار بنتے ہی اس نے اس جانب قدم اٹھایا اور سب کو چونکادیا۔ اصل میں ملک میں ایسی کوئی پارٹی نہیں ہے جس نے مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدوں کو وفا کیا ہو۔ انتخابی منشور میں جو باتیں کہی جاتی ہیں انھیں عام طور پر عوام بھی جھوٹ مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ وعدے کبھی پورے نہیں کئے جائیں گے۔ اس سوچ کو سب سے پختہ کیا ہے کانگریس نے۔ وہ جب سرکار میں نہیں ہوتی ہے تو عوام سے وعدے کرتی ہے اور جب ہوتی ہے تو انھیں لوٹنے کا کام کرتی ہے۔ مسلمان اس ملک میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14فیصد کے آس پاس ہیں لہٰذا سبھی پارٹیاں ان کے ووٹ پانے کے لئے وعدے کرتی رہتی ہیں۔ کچھ صوبوں میں تو ان کا ووٹ بڑے بڑے الٹ پھیر کراتا رہتا ہے۔ اتر پردیش میں مسلمان 19فیصد ہیں تو بہار میں 17فیصد ہیں۔ اس کا فائدہ سب سے زیادہ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کو ملا۔ سماج وادی پارٹی کی سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آئی تو مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویش فراہم کرے گی مگر حکومت میں آنے کے بعد وہ اس وعدے کو بھول گئی۔ اس نے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا مگر اس وقت یوپی کے مسلمان فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح بہار میں لالو پرساد نے پندرہ سال تک مسلمانوں کے ووٹ کے دم پر راج کیا مگر ان لوگوں نے کبھی مسلمانوں سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے۔ مغربی بنگال میں کمیونسٹوں نے 25فیصد مسلم آبادی کے سہارے سب سے لمبی مدت تک راج کرنے کا اتہاس بنایا۔ قومی سطح پر مسلم ووٹ کا فائدہ کانگریس نے اٹھایا جو بی جے پی اور شیوسینا جیسی جماعتوں کا خوف دکھاکر ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ اس نے سچر کمیٹی کی سفارشات لاگو کرنے اور تعلیم و ملازمت میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کا وعدہ کیا تھا مگر کبھی یہ وعدے وفا نہیں ہوئے۔ آزاد بھارت میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کی سرکار وہ پہلی سرکار ہے جو الیکشن میں مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدے کو پورے کر نے میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری پارٹیوں کی طرح ہی ٹی ڈی ایس نے بھی الیکشن میں مسلمانوں سے وعدے کئے تھے اور ہر بار کے تجربے کی بنیاد پر کسی مسلمان کو اس کے وعدوں پر یقین نہیں ہواہوگا، مگر اس وقت سب لوگ چونک اٹھے، جب چند شیکھر راؤ نے ایک مسلمان کو نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ دیا اور پھر مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دینے کی جانب قدم بڑھایا۔ عام طور پر اس قسم کے قدم تب اٹھائے جاتے ہیں جب الیکشن سامنے ہوتا ہے مگر اس سرکار نے آتے ہی اپنے وعدے پورے کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
کے چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں کو 12فیصد رزیرویشن کا وعدہ کیا تھا اور اب اس جانب بڑھادیاہے۔ حالانکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی اس سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ اس پر وشوہندو پریشد نے ہنگامہ مچارکھا ہے اور اسمبلی کے اندر بی جے پی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ یہاں متحدہ آندھرا پردیش میں پہلے کانگریس کی سرکار تھی جس نے اپنے برے وقت میں مسلمانوں کو پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا جس کے نفاذ پر کورٹ نے روک لگادی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر قانونی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرکار نے یہ کام کیا تو کورٹ اس پر روک نہیں لگا سکتا جیسا کہ کیرل اور تمل ناڈو میں مسلمانوں کو ریزرویشن حاصل ہے، لیکن اگر ان پہلووں کو سامنے نہیں رکھا گیا اور جلد بازی میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو یہ معاملہ قانونی اڑچنوں کی نذر ہوسکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ، تمل ناڈو ماڈل کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں اور اسی انداز میں ریزرویش کوٹا میں اضافہ چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کوٹے کی حد 50فیصد سے زیادہ نہ ہونی چایئے جب کہ تلنگانہ میں پسماندہ طبقات کا تناسب 85فیصد سے زیادہ ہے۔
مسلمان برانڈر ایمبیسڈر
تلنگانہ سرکار شاید مسلمانوں کو یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ وہ ان کی ہمدرد ہے اور انھیں برابری کے حقوق دینے میں سنجیدہ ہے اسی لئے اس نے حال ہی میں مشہور ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کو ریاست کا برانڈ امبیسیڈر بنایا جس پر فرقہ پرستوں کی طرف سے ہنگامہ کھڑا کیا گیا۔ ثانیہ یہیں حیدرآباد کی رہنے والی ہے اور اس نے پاکستان کے ایک کرکٹ پلیئر شعیب ملک سے شادی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں ہے مگر چونکہ ایک مسلمان کا معاملہ تھا لہٰذا سنگھ پریوار کے پیٹ میں درد ہونا لازمی تھا۔ ثانیہ اتفاق سے مسلمان ہے مگر اس نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے والا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ عام مسلمان بھی ایسی مسلم خواتین کو پسند نہیں کرتے جو برہنہ ہوکر کھیلتی ہوں لہٰذا انھیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی ہے کہ ثانیہ کو برانڈ امبیسیڈر بنایا گیا یا اس کی اکیڈمی کو سرکار کی طرف سے رقم دی گئی مگر فرقہ پرست ہندتو وادی جماعتوں کو تکلیف ہونا لازمی تھا۔ اصل میں اس بہانے عام مسلمانوں کو نشانہ بنانا مقصود تھا اور یہ کیا گیا۔سنگھ پریوار خود کو قوم پرست کہتا ہے اور اسے خوشی ہونی چاہیے کہ ساری دنیا میں ملک کا پرچم بلند کرنے والی ثانیہ کو ریاست میں اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے مگر اس کی قوم پرستی کی پول اس وقت کھل گئی جب اس نے اس بہانے واویلا مچانا شروع کیا۔
ایک اور مسلم یونیورسیٹی کا قیام
تلنگانہ سرکار مسلم اوقاف اورمسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر بھی قدم اٹھانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی خبریں آرہی ہیں۔ ایک اہم خبر تو یہ ہے کہ ان دنوں ریاست میں اقلیتوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی غرض سے سروے کیا جارہا ہے جس کے تحت انھیں اپنے حقو ق کے تئیں بیدار کرنے کی کوشش ہے تاکہ وہ سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ادھراقلیتی کمیشن نے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کو لکھا ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایک ایسی یونیورسیٹی کی ضرورت ہے جو علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کی طرز پر مسلمانوں کے اندر تعلیم کا کام کرسکے۔ اس یونیورسیٹی کی لئے درگاہ حضرت مخدوم بیابانی رحمۃ اللہ علیہ (ضلع رنگا ریڈی) کی زمین کی نشاندہی کی گئی ہے۔ غور طلب ہے کہ یہاں وقف کی بہت بڑی زمین ہے جس میں خرد برد کی کوشش کی خبریں پچھلے دنوں میڈیا میں آئی تھیں۔تلنگانہ حکومت نے بھی اس سلسلے میں مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف کی جائیدادوں کو محفوظ کرنے کا اچھا طریقہ یہی ہے کہ اس پر یونیورسیٹی اور تعلیمی ادارے قائم کردئے جائیں ۔
مسلمانوں کو عام طورپر ملک کی سرکاروں سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتی ہیں مگر تلنگانہ میں اب معاملہ الٹا دکھائی دے رہا ہے۔یہاں کے مسلمان یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کا جائز حق دیا جائے مگر اسی کے ساتھ ان کا ماننا ہے کہ کام کرنے کا طریقہ ایسا ہونا چاہئے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو سرکار یا مسلمان کے خلاف متحد ہونے کا موقع نہ ملے۔ کیونکہ اسی قسم کی باتوں کو بہانہ بنا کر یہ پرچار کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کی چاپلوسی کرتی ہیں۔
جواب دیں