کم ازکم ماضی قریب میں اس طرح کے واقعات نہیں ملتے ہیں ۔ اس بے رحمی اور دیدہ دلیری کا سہرا یقینی طور پر ہمارے 56انچ کے سینے والی مرکزی حکومت اور ملک کی سب سے بڑی ’دیش بھکت‘ ناگپوری تنظیم کے سر جاتا ہے ، جن کے نزدیک اپنے سیاسی مذہبی مخالفین کو قتل کرنا دیش بھکتی کا لازمی حصہ ہے۔
ان واقعات کے نتیجے میں پولیس اور حکومتوں کے خلاف غصہ پیدا ہونا فطری ہے ۔ کیونکہ اپنے شہریوں کے جان ومال کی ذمہ داری حکومتوں کی ہوتی ہے کہ وہ بہر صورت ان کے جان ومال کی حفاظت کریں ۔ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ سرگرمی میں مبتلا ہوتا ہے تو پولیس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے گرفتار کرکے قانون کے دائرے میں لائے اور قانون کے مطابق اسے سزا دلائے۔ لیکن اگر کوئی حکومت یا کسی ریاست کی پولیس (یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر ریاست کی پولیس تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے)اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے بجائے ، ان کے جان کی دشمن بن جائے اور ذاتی بدلہ لینے یا اپنے نظریاتی مخالفین کو قتل کرنے لگے، یا پھر کسی جرم کے مرتکبین کو بغیر عدالتی مراحل سے گزارے خود اس کے سزا کا تعین کرتے ہوئے اسے ہلاک کرنے لگے تو اسے جمہوری را ج کسی طور نہیں کہا جاسکتا ، اسے صرف اور صرف جنگل راج کہا جاسکتا ہے اور ایسے جنگل راج میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہوتی ہے۔
یہ جنگل راج انگریزوں نے قائم کیا تھا اور اسے مستحکم کرنے لئے پولیس کے بھرپور اختیارات دئے گئے تھے جو بدقسمتی سے آج بھی جاری ہیں۔لیکن اسی کے ساتھ ایک قاعدہ کلیہ یہ بھی ہے کہ جب جنگل راج کااختتام قریب آتا ہے تو ظلم کی شرح بے انتہا بڑھ جاتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں یہی ہورہا ہے۔ مرکزکی 56انچی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک پورے ملک میں چھوٹے بڑے ۶ سو سے زائد فسادات ہوچکے ہیں جن میں ڈیڑھ سے قریب عیسائی برادری کے خلاف ہوئے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ظلم کی یہ شرح مزید بڑھے ، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ظلم کا حد سے بڑھنا ظلم کے مٹ جانے کی علامت ہوتا ہے۔
تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے واقعات کے خلاف پورے ملک میں غم وغصہ ہے ۔ مگر چونکہ اولذکر کا تعلق راست طور پر مسلمانوں سے اور صرف تلنگانہ ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی پولیس کو یہ غیرتفویض شدہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جس طرح چاہئے پیش آئے، تفتیش کے نام پر جب چاہئے گرفتار کرے اورجب چاہے رہا کرے، اگر کسی مقدمے میں کوئی مطلوب ملزم نہ ملے تو مسلم نوجوان اس کے لئے نہایت موزوں ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کے قتل عام کی خبر نہ میڈیا میں کہیں خاطر خواہ جگہ پاسکی اور نہ ہی ملک کے بااقتدار طبقے نے اسے کوئی اہمیت دی۔ ان کے نزدیک تو یہ ایک فطری عمل ہے جو پولیس نے انجام دیا ہے۔ البتہ آندھراپردیش کے واقعے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے نہ صرف احتجاج کیا جارہا ہے بلکہ عدالت نے بھی اس واقعے پر فوری مداخلت کرتے ہوئے لکڑہاروں کا قتل عام کرنے والے سیکوریٹی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس کے برخلاف تلنگانہ پولیس کے ذریعے قتل کئے گئے مسلم نوجوانوں کے بھی کوئی انسانی حقوق ہوتے ہیں؟ اس معاملے پر ہرجانب خاموشی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بدنصیب مسلم نوجوانوں کو جس جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اس میں وہ تمام انسانی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بدنصیب مقتولین چند ماہ کے اندر اپنے اوپر قائم کئے گئے دہشت گردی کے مقدمات سے بری ہونے والے تھے۔ ان کے قتل عام پر کوئی واویلانہیں مچا، کسی انسانی حقوق کمیشن نے اس کی نوٹس نہیں لی، کسی عدالت نے یہ نہیں کہا کہ پولیس نے انہیں اپنا جرم چھپانے کے لئے قتل کیا ہے ، لہذا ان کے خلاف بھی مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ اس قتل عام کے خلاف بولنے والے اور غم وغصے کا اظہار کرنے والے بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جس طبقے کے یہ مقتولین تھے۔ ملک میں مرحومیت کی کگار پر پہونچ رہے ہم مسلمان آخر اس کے علاوہ کربھی کیاسکتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے غم وغصے کا اظہار کریں۔ مجھ جیسے قلم کے زعم میں مبتلا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چند مضامین اور تجزیئے لکھ دیں گے تو پولیس کی دہشت گردی کے شکار بے قصوروں کی روحوں کو سکون پہونچ جائے گا جبکہ ہمارے قائدین اور عمائدین سی بی آئی یا جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح سے اس انکاؤنٹر کے مجرمین کو قرار واقعی سزا مل جائے گی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جب بھی اس طرح کا ظالمانہ رویہ اپنا یا گیا اعلیٰ سطحی انکوائری ہی کیا اعلیٰ سطحی جانچ کمیشن تک بنے اور انہوں نے تفتیش بھی کی اور خاطیوں کی نشاندہی کی بھی ، مگر کیا کوئی ایک بھی ایسا واقعہ بتا سکتا ہے کہ جس میں انکوائری کے نتیجے میں کوئی کارروائی ہوئی ہو؟ اس کے برخلاف ہم سب جانتے ہیں کہ اعلیٰ سطحی انکوائری اور کمیشنوں کی تشکیل معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی اعلیٰ سطی انکوائری کے نتیجے میں قتل ہونے والے ساتوں مسلم نوجوانوں کے اہلِ خانہ کو کسی قسم کا انصاف مل جائے گا یا پھر اس طرح کے واقعات پر روک لگ جائے گی؟ اس کی امید بھی منگیری لال کاسپنو جیسا ہوگا۔
رہی بات سی بی آئی کے ذریعے جانچ کرانے کی۔ تو یہ مطالبہ کرنے والوں کے عقل پر مزید ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ کیا انہیں یہ بات نہیں معلوم کہ سی بی آئی ایک حکومتی ادارہ ہے اور حکومت کی منشاء اور مرضی کے مطابق اس کی تفتیش کی سوئی مختلف سمت میں گھومتی رہی ہے۔ جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی تو بی جے پی اسی سی بی آئی پر کانگریس نوازی کا الزام عائد کرتی تھی رہی اور جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت بن گئی تو اب کانگریس پر اسے بی جے پی نواز قرار دے رہی ہے۔ یہی سی بی آئی ہے جو گجرات میں عشرت جہاں کے فرضی انکاؤنٹر میں آئی بی کے حکام تک کو ملزم گرداننے لگتی ہے مگر جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو نہ صرف انہیں کلین چین مل جاتی ہے بلکہ چارج شیٹ سے ان کا نام بھی غائب ہوجاتا ہے۔ اپنی چارج شیٹ میں سفید اور کالی داڑھیوں کا تذکرہ کرتی مگر اقتدار کی دیوی انہیں سفید اور کالی داڑھیوں پر مہربان ہوتی ہے تو تفتیش سے قبل انہیں کلین چین اور مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں کیس سے ڈسچارج کردیا جاتا ہے۔
اس لئے لامحالہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اب ہمیں مذمت، میمورنڈم، اعلیٰ سطحی انکوائری ، مجرم پولیس والوں کی معطلی جیسے مطالبات سے اوپر اٹھ کر اسی سڑے گلے عدالتی نظام کے دروازے کو کھٹکھٹانا چاہئے، جہاں سے ابھی بھی تھوڑی بہت انصاف کی امید باقی ہے۔ اس مرحلے پر جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی اور محمود مدنی) کو مبارکباد پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جس نے اس معاملے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف شیرِ حیدرآباد کے لقب سے پکارے جانے والے اویسی براداران نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان حیدرآباد کے شیروں کی خدمت میں بصد عزت واحترام یہ عرض ہے کہ اگر ان مسلم نوجوانوں کی جگہ مہاراشٹر کے مراٹھی نوجوان ہوتے تو اودھوٹھاکرے اورراج ٹھاکرے کا یہی رویہ ہوتا؟ کم ازکم اس معاملے میں عدالت سے رجوع تو کیا ہی جاسکتا تھا، جس پر آپ کوبھرپور اختیار ہے۔ یہی افسوسناک جماعتِ اسلامی کا بھی رہا کہ اس نے صرف مذمت اور سی بی آئی جانچ کے مطالبے کو اس سلسلۂ ظلم کا اختتام سمجھ لیا۔اس طرح کے سلسلوں کو روکنے کے لئے ہمیں لامحالہ عدالتوں کا سہارا لینا پڑے گا۔
جواب دیں