ناشتا کرنا مت بھولیے
دن کے آغاز میں اکثر گھرانوں میں افراتفری دیکھنے کو ملتی ہے۔ بچوں کو اسکول جانے کی جلدی ہوتی ہے، تو بڑے اپنے دفتر پہنچنا چاہتے ہیں۔ غرض جلدی کے اس عالم میں بہت کم لوگ اپنے بدن کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ کمی وقت کی وجہ سے وہ کھانا زہرمار کرتے اور اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن چار گھنٹے بعد جب جسم کو توانائی نہ ملے، تو وہ تھکن کی صورت احتجاج کرتا ہے۔ چناں چہ جو لوگ ناشتا نہیں کرتے اور بعد ازاں تھکے تھکے رہتے ہیں، انھیں صبح ضرور مناسب کھانا پینا چاہیے۔
دراصل سائنسی تحقیق سے ثابت ہوچکا کہ ناشتے کے کئی فوائد ہیں۔ یہ ہمیں چاق چوبند کرتا، قوتِ ارتکاز بڑھاتا، دن میں بسیار خوری سے بچا کر وزن کم کرتا اور ذیابیطس، موٹاپے اور امراضِ قلب سے بچاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان فوائد سے مستفید ہونے کی خاطر ناشتے میں کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین سے بھرپور غذائیں کھائیے۔ جو لوگ دن بھر جسمانی یا ذہنی مشقت کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ گندم یا کسی اور سالم اناج کی روٹی، انڈا اور دودھ ناشتے میں لیں۔ تاہم شکر اور چکنائی زیادہ استعمال نہ کریں۔ ناشتے میں زیادہ مٹھاس والی غذائیں کھانے کے بعد زیادہ بھوک لگتی ہے۔ سو انسان دوپہر کا کھانا زیادہ کھاتا اور فربہ ہو جاتا ہے۔
مرکب کاربوہائیڈریٹ لیجیے
صحت بخش غذاؤں کو ناشتے تک محدود نہ رکھیے، درحقیقت متوازن کھانا دن بھر انسان کو مطلوبہ توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس ضمن میں کاربوہائیڈریٹس بہت اہمیت رکھتے ہیں۔کچھ عرصے سے کاربوہائیڈریٹ پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب بھی یہی غذائی عنصر انسان کو توانائی فراہم کرنے والا اہم ذریعہ ہے جو شخص اس عنصر سے محروم غذا کھائے، وہ عموماً تھکن و کمزوری کا نشانہ بن جاتا ہے۔ماہرین غذائیات کے نزدیک توانائی پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان مرکب اور سادہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل غذا استعمال کرے۔ مرکب کاربوہائیڈریٹ رفتہ رفتہ جلتے ہیں اور ہماری بیشتر غذا انہی پر مشتمل ہونی چاہیے۔ سالم اناج اور نشاستے دار سبزیاں مثلاً آلو، گھیا کدو، پیٹھا اور گاجریں اس کیٹگری میں شامل ہیں۔ سادہ کاربوہائیڈریٹ کی اہمیت یہ ہے کہ وہ جلد جلنے کی وجہ سے فوری توانائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ پھلوں، سبزیوں اور شہد میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم ساری غذا محض سادہ کاربوہائیڈریٹ پر مشتمل نہ ہو۔سادہ شکر کی حامل غذائیں بھی فوری توانائی مہیا کرتی ہیں۔ مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانی خون میں شکرکی سطح بہت تیزی سے اوپر نیچے کرتی ہیں۔ یہ عمل اکثر و بیشتر انجام پائے، تو ہمارے خون میں شکر کی سطح کنٹرول کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ یوں ذیابیطس حملہ کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیے، پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس میں ریشہ ضرور موجود ہو۔ وجہ یہ ہے کہ ریشے کی موجودگی میں کاربوہائیڈریٹ رفتہ رفتہ ہمارے جسم کا حصہ بنتے ہیں۔ یوں ہمارے بدن کو فوری توانائی کے برعکس متوازن طریقے سے آہستہ آہستہ توانائی ملتی ہے۔کئی پروسیس شدہ کاربوہائیڈریٹ غذائیں مثلاً چاول، سفید ڈبل روٹی، بن اور شیرمال وغیرہ بہت کم ریشہ رکھتے ہیں۔انھیں کھاتے ہی ہمیں فوری توانائی ملتی ہے۔ سو اس امر کو یقینی بنائیے کہ ڈبل روٹی کے ایک سلائس میں 2تا 3 گرام ریشہ موجود ہو۔
چکنائی کی طاقت
چند برس سے چکنائی بھی معتوب بنی ہوئی ہے، حالانکہ اس کی اپنی اہمیت ہے۔ درست کہ ’’بْری‘‘ چکنائیاں امراض قلب، چند اقسام کے کینسر اور دیگر بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ تاہم درست چکنائی توانائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ سیچوریٹڈ چکنائی (جوگوشت، مکھن، چربی اور کریم میں ملتی ہے) اور ٹرانزفیٹ (جو بیکری کی اشیا، سنیکس و فرائیڈ کھانوں اور مارجرین میں موجود ہوتی ہے۔)انسان کو دل کی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہیں۔ لہٰذا ان غذائی اشیا کو کم سے کم کھایا جائے، جبکہ ان سیچوریٹڈ یا نا سیر شدہ چکنائی والی غذائیں زیادہ کھائیے۔ ان غذاؤں میں مغزیات، زیتون کا تیل اور کنولا تیل شامل ہیں۔ ناسیر شدہ چکنائی کی دو اقسام ہیں، پولی ان سیچوریٹڈ اور مونو ان سیچوریٹڈ! سبزیوں کے تیل اور مچھلی، جھینگے وغیرہ پہلی قسم کی غذائیں ہیں۔ جبکہ ا?خرالذکر قسم میں مغزیات، بیج اور زیتون کا تیل شامل ہیں۔
پروٹین سے پہلو تہی نہ کیجیے
کاربوہائیڈریٹ اور چکنائیاں تو ہمارے جسم کو توانائی فراہم کرتی ہیں۔ اس توانائی کو پروٹین ہی منظم کرتا ہے۔ یہ عنصر خلیوں کو صحت مند رکھتا، ہماری نشو و نما کرتا، ہارمون اور وٹامن متعلقہ اعضا تک پہنچاتا اور ہمارے عضلات کی حفاظت کرتا ہے۔ درحقیقت عضلات اور بہت سے ہارمون پروٹین کے ذریعے ہی وجود میں آتے ہیں۔ ہمارے نظام مامون کو بھی یہ عنصر درکار ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ ضروری ہے کہ بدن کو باقاعدگی سے پروٹین ملتا رہے۔گوشت، مچھلی، انڈے، پھلیاں، دالیں، مغز اور کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات پروٹین کے اہم ماخذ ہیں۔ جب ہم یہ غذائیں تناول کریں، تو ہمارا جسم پروٹین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے امائنو تیزابوں میں بدل ڈالتا ہے۔ (یہی تیزاب پروٹین بناتے ہیں۔) ان میں سے بعض تیزاب ضروری ہیں، یعنی ہمیں وہ غذا سے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ دیگر غیر ضروری ہیں، مطلب یہ کہ ہمارا بدن بھی انھیں بنا لیتا ہے۔ کئی لوگ کاربوہائیڈریٹ یا چکنائی والی غذائیں نہیں کھاتے۔تب ہمارا جسم پروٹین سے توانائی لینے لگتا ہے۔سو یہ بھی ایک اہم غذائی عنصر ہے۔
پانی کی اہمیت
ہمارا دو تہائی جسم پانی سے بنا ہے۔ اسی واسطے پانی کے بغیر ہم چند دن ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ یہ عظیم مائع بذریعہ پسینا ہمارا جسمانی درجہ حرارت معمول پر رکھتا، آنتوں میں بآسانی غذا کو حرکت دیتا اور جوڑ چکنے کرتا ہے۔ مزید برآں یہ توانائی کے سالمات کی تیاری میں بھی حصہ لیتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے: ’’جسم میں پانی کی کمی سے بھی ہم کمزوری و تھکن محسوس کرتے ہیں۔‘‘ وجہ یہ ہے کہ جسم میں پانی کم ہو، تو وہ اس سے توانائی پیدا کرنے کے بجائے سارے وسائل، آبی توازن برقرار رکھنے پہ لگا دیتا ہے۔ہر انسان میں پانی کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ محققوں کی تحقیق ہے کہ موسم گرما میں خصوصاً خواتین روزانہ 11پیالیاں جبکہ مرد 16پیالیاں پانی نوش کرتے ہیں۔ یہ اچھی خاصی مقدار ہے، تاہم اس مائع کا 20 فیصد غذاؤں جبکہ 80فیصد پانی و مشروبات سے حاصل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ہدایت دیتے ہیں کہ بدن میں ہمہ وقت پانی کی معقول مقدار رکھیے۔ خصوصاً ورزش کرنے، طاقتور ادویہ لینے اور فائبر سے بھرپور غذا کھانے کے بعد پانی ضرور پیجئے۔
کیفین سے ہوشیار رہیے
موسم سرما کے دوران خصوصاً بہت سے لوگ کافی پیتے ہیں۔ بعض تو کافی کے بغیر چل نہیں پاتے۔ دراصل اس میں شامل کیفین انھیں اپنا عادی بنا ڈالتا ہے۔ یہ غذائی عنصر کافی کے علاوہ چائے، کولا مشروبات، چاکلیٹ اور بعض جڑی بوٹیوں میں بھی ملتا ہے۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ کیفین ایک ہیجان انگیز عنصر ہے۔اْسے استعمال کرنے سے ہمارے وہ ہارمون مزید متحرک ہوجاتے ہیں جو ہمارے قلب کی دھڑکن میں اضافہ کرتے، سانس لینے کی رفتار بڑھاتے اور ہمیں ہیجانی بنا ڈالتے ہیں۔ ان ہارمونوں میں ایڈرینالین قابلِ ذکر ہے۔ سو کافی یا چائے پینے کے بعد ہم خود کو چْست و چالاک محسوس کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیفین کا پیدا کردہ ہیجانی دور ڈیڑھ دو گھنٹے ہی رہتا ہے۔
طبی تجربات سے ثابت ہو چکا کہ کیفین اور شکر کا مرکب ہمیں چاق چوبند کر ڈالتا ہے۔ لیکن جب مرکب کا اثر ختم ہو، تو انسان خود کو تھکا تھکا اور پڑمردہ محسوس کرتا ہے۔ سو وہ مزید چائے یا کافی پیتا اور رفتہ رفتہ اس مرکب کا عادی بن جاتا ہے۔ تب اْسے کافی یا چائے نہ ملے، تو سر اور جسم میں درد محسوس کرتا ہے۔ یاد رہے، چائے یا کافی نہ پینے والا خصوصاً سہ پہر کو ان مشروبات میں سے کوئی ایک پی لے، تو اس کی نیند اْڑ جاتی ہے۔ سو کوشش کیجیے کہ شام 3بجے کے بعد کیفین کا حامل کوئی مشروب نوش نہ کریں۔ نیز بہتر ہے کہ ایسے مشروبات استعمال ہی نہ کیے جائیں۔
آخری بات
یاد رکھیے، غذا میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ انسان میں توانائی کی سطح کم یا زیادہ کرسکے۔ اگر آپ صحت مند غذا کھانے کے باوجود تھکن محسوس کریں، تو کھانوں کی تعداد میں کمی بیشی کیجیے۔ بعض لوگ دن میں پانچ چھے بار تھوڑا کھانا کھا کر خود کو چْست بناتے ہیں۔ دیگر مرد و زن روایتی تین وقت کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس فرق کی یہی وجہ ہے کہ ہر انسان میں توانائی کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں۔کھانے کی مقدار بھی تھکن سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جو فرد مسلسل زیادہ کھائے، وہ نہ صرف فربہ ہوتا ہے بلکہ کاہل و سْست بھی بن جاتا ہے۔ بعض مرد و زن میں ضروری معدنیات یا وٹامن کی کمی سے تھکن جنم لیتی ہے۔ خواتین کے بدن میں فولاد کم ہو، تب بھی وہ تھکی تھکی رہنے لگتی ہیں۔ سو یہ خرابی مطلوبہ معدن یا حیاتین لینے سے دور ہوجاتی ہے۔
جواب دیں