ابوسعید ندوی (قرنطینہ میں گزرے خوبصورت لمحات) ساتھیوں کا اصرار ہے کہ قرنطینہ کی روداد اور ان بیتے ہوئے ایام کی داستان مکمل کروں جن کے تصور سے ہی پورا جہاں کانپ رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی کی رفتار قرنطینہ سے باہر آکر معلوم ہوئی۔ایک دن ہو یا ایک مہینہ، گزرنے […]
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے (دوسری اور آخری قسط)
ابوسعید ندوی
(قرنطینہ میں گزرے خوبصورت لمحات)
ساتھیوں کا اصرار ہے کہ قرنطینہ کی روداد اور ان بیتے ہوئے ایام کی داستان مکمل کروں جن کے تصور سے ہی پورا جہاں کانپ رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی کی رفتار قرنطینہ سے باہر آکر معلوم ہوئی۔ایک دن ہو یا ایک مہینہ، گزرنے پر آجائےتو گزرہی جاتے ہیں۔مگر فراق کے لمحے اس قدر صبر آزما اور بے تاب ہوتے ہیں کہ دن ہفتوں کی طرح اور ہفتے مہینوں کی طرح بیت جاتے ہیں۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اٹھتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
لیکن ان ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہو اور تنہائیوں کی اس شب تاریک کو سحر کرنے کا عزم ہوتو ہر درد دور اور ہر رنج کافور ہوجاتا ہے۔پھر مصائب اور آلام میں بھی قرار اور سکون مل جاتاہے۔ اللہ بڑا حکیم ہے،وہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔ وہ خیر اور شر کے پہلوٶں کو جانتا ہے۔ انسان کبھی جسے خیر سمجھتا ہے وہ اس کے لیے شر ہوتا ہے اور کبھی شر کے پہلو میں خیرپنہاں ہوتا ہے۔اسی لیے ربانی پیغام نے بھی اس حقیقت کو واشگاف کیا: وَعَسیٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔
مدتہائے دراز سے یہ خواہش تھی کہ کچھ لمحے شور و غل کی اس دنیا سے کہیں دور تنہائیوں کے سائے میں بسر ہوں اور دل و جاں کو ہنگاموں کی اس نگری سے دور خاموشیوں کے سایے میں لے جاؤں۔شاعر مشرق اقبال مرحوم کی زبانی میری بھی یہی آرزو تھی کہ
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو
اقبال کی یہ آرزو شاید کسی کو نصیب ہو! لیکن تنہائیوں کی تمنا بر آئی،قدرت کی فراوانیاں نہ سہی لیکن خاموشیوں کے ڈیرے اور تنہائیوں کے پہرے ہر آن میسر تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایسی خلوت سے جلوت اچھی تھی۔ذہنوں میں الجھنیں تھیں، ایک وحشت کا سا سماں تھا کہ آئے روز بیماری اور موت کی خبریں اور اس وبائے عام کے ہنگامے۔ حقیقت میں یہ خلوت عذاب معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن نہیں، اللہ کے رسول کا وہ مژدہ دل کی تختیوں پر ثبت تھا جو حضرت عمر کو صلح حدیبیہ کے موقع پر سنایا تھا : عمر! یہ صلح ایک کھلی فتح ہے۔ چناں چہ میں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی،طویل مدت کے بعد کئی کتابوں کے مطالعہ کا موقع ملا۔رسول پاک کی پاکیزہ سیرت انتہائی یکسوئی اور ذہن و دماغ کو غم دوجہاں سے آزاد کرکے پڑھنے کی ضرورت تھی اور اس کےلیےاس سے بہتر ایام نہیں تھے۔اسی لیے میں نے سب سے پہلے سیرت پاک کا مطالعہ کیا۔ اللہ اللہ میرے محبوبؐ کی سیرت کتنی دلکش اور پاکیزہ ہے،اس میں سکون ہی سکون ہے۔راحت قلب و جاں کا سامان تو اسی میں پوشیدہ ہے،ہر درد کی دوا تو کملی والے کے نقش پا اور حیات طیبہ کے ایک ایک گوشے میں ہے۔سیرت کے مطالعے سے نہ جانے ڈر اور خوف کے بادل کہاں گئے اور پھر کورونا جیسی بیماری بھی میرے لیے بے حیثیت معلوم ہوئی۔پہلی وحی کے بعد میرے نبی کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجة الکبری کے ان الفاظ نے ہمت بندھائی اور ان صفات کو عمل میں لانے کی کوشش کی جن کے بارے میں ام المٶمنین نے فرمایا تھا۔اللہ کا کرم ہوا کہ اس کے ذریعے یہ کٹھن ایام بیت گئے اور مایوسیوں کے سیاہ بادل چھٹ گئے۔ سیرت کے مطالعے کے بعد کچھ تصنیفی کام کی باری تھی،بچوں کی نصابی اور غیرنصابی کتابوں کی ترتیب بھی تھی،اس موقع کو غنیمت جان کر چار کتابوں کو ڈیزائننگ کے ساتھ مرتب کیا اور آج الحمدللہ وہ کتابیں پریس کے مراحل میں ہیں۔دوسرے ایام میں ان کتابوں کی ترتیب میں مہینے گزرجاتے۔ اب کوئی اس وبائی مرض میں مبتلا ہے اور کورنٹین کا پابند ہےتو وہ کورنٹین میں رہ کر بھی ذاتی اور اجتماعی ترقی کے لیے کام کرسکتا ہے۔بس اس کو مشغول رہنے کا ہنر معلوم ہو۔ حالات اور حادثات وقتی ہیں، آئیں گے اور چلے جائیں گے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں