ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

حا ل ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک کتاب کا اجراء اپنے دفتر میں کیا، جس میں بہت تھوڑی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ موقع کی مناسبت سے انھوں نے ایک تقریر بھی کی جس میں اسلام میں تعلیم کی اہمیت اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر روشنی ڈالی مگر عجب بات یہ ہے کہ وہ مودی جو معمولی معمولی موقعوں کو بھی میڈیا ایونٹ بنادیتے ہیں، اس پروگرام کے لئے میڈیا کو مدعو نہیں کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے اردو اخبارات کو بھی نہیں بلایا۔ البتہ پروگرام کے اختتام پروزیر اعظم آفس سے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی جو صرف اردو اخبارات کو بھیجی گئی۔ممکن ہے وزیر اعظم مسلمانوں سے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہوں اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر اس کتاب کا اجراء ہوا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ جب انھوں نے مسلمانوں کے تعلق سے تقریر کی تو اس میں میڈیا کو کیوں نہیں بلایا؟ اور اگر نہیں بلایا اور پریس ریلیزجاری کی تو صرف اردو اخبارات کو ہی کیوں بھیجی گئی؟ اس کا مطلب یہ نکالا جائے کہ مودی بھی اب مسلمانوں کے تعلق سے کانگریس کی پالیسی پر ہی چل رہے ہیں؟ کیا وہ منموہن سنگھ کی طرح بغیر کچھ مسلمانوں کا کام کئے انھیں خوش رکھنا چاہتے ہیں؟حالانکہ مودی جن وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے،ان کے سبب مسلمان خوش فہمی کا شکار تھے اور انھیں لگتا تھا کہ وزیر اعظم ان کے لئے کام کریں گے مگر اب انھیں مایوسی ہورہی ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے مسلمانوں کے ایک طبقے سے ملاقات بھی کی تھی مگر اس ملاقات کا کوائی ایجنڈا نہیں تھا ۔ حالانکہ اس ملاقات کے بعد یہ پوچھا جانے لگا تھا کہ کیاوزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کا اعتماد جیتنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ انصاف کریں گے اور ان کےراج میں مسلمان محفوظ ہیں؟ مودی کے میٹھے بول واقعی مسلمانوں کے حق میں ہیں یا یہ بھی کانگریس سرکارکی طرح میٹھا بول کر ان کی پیٹھ میں چھری گھونپنا چاہتے ہیں؟ کیا اب مسلمانوں کو مودی سرکار پر بھروسہ کرنا چاہئے یا وزیر اعظم کی باتوں کو صرف سیاست کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کردینا چاہئے؟ کیا نریندر مودی اپنی پارٹی کے لیڈروں کو مسلم مخالف بیانات سے باز رکھ سکیں گے؟ کیا ساکشی مہاراج کے منہ پر تالا لگاسکیں گے؟ کیا وہ سادھوی نرنجن جوتی اور پروین توگڑیا جیسے لوگوں کو ان کے باڑوں میں بند کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ مسلمانوں کی جانب مودی کے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کو خیر سگالی کا ایک قدم تصور کرنا چاہئے اور مسلمانوں کو بھی اسے قبول کرلینا چاہئے یا ابھی انھیں مزید دیکھنا اور سمجھنا چاہئے؟ کیا مسلمانوں کو اب موجودہ حالات میں جینا سیکھ لینا چاہئے اور مودی کے ماضی کو فراموش کردینا چاہئے؟ یہ سوالات مسلمانوں کے ذہنوں میں اس لئے اٹھ رہے تھے کیونکہ ماضی میں مودی کی سیاست کا محور ہندتو تھا، انھیں گجرات فسادات اور فرضی انکاؤنٹرس سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے جب مسلم رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور یہ جتانے کی کوشش کی کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں نہ کہ ہندووں کے، ان کے راج میں مسلمان بھی محفوظ ہیں اور اپنے مذہبی معاملات میں آزادی رکھتے ہیں۔ وہ سب کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔
اعتماد بحالی کی کوشش
وزیر اعظم نریندر مودی نے عین شب برات میں مسلم رہنماؤں کے ایک وفد سے ملاقات کی۔اس وفد میں 30 رہنما شامل تھے۔ آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صد مولانا عمیر احمد الیاسی کی قیادت میں گئے وفد کے ساتھ تقریبا سوا گھنٹے کی میٹنگ میں وزیر اعظم نے مسلم کمیونٹی سے وابستہ مختلف سماجی مسائل پر تفصیل سے بحث کی۔ الیاسی نے بتایا کہ مودی نے سب سے الگ الگ ملاقات کی اور سب کو خود چائے پیش کی۔ انہوں نے ساتھ میں ناشتہ بھی کیا۔ بات چیت کے دوران مودی نے مسلم رہنماؤں سے کہا،اگر آپ کو رات 12 بجے بھی میری ضرورت پڑتی ہے تو میں آپ کے لئے دستیاب ہوں۔ مودی نے ان سے یہ بھی کہا کہ یوگا کو کسی مذہب سے جوڑ کرنہیں دیکھا جانا چاہئے۔ 21 جون کو بین الاقوامی یوگا دیوس کے موقع پر مودی نے مسلمانوں سے بھی یوگا سے جڑنے کی اپیل کی۔ بقول الیاسی، اب اگر وزیر اعظم انہیں بین الاقوامی یوگا دیوس (21 جون) پر یوگا کرنے کے لئے بلاتے ہیں تو وہ اس میں بھی شامل ہوں گے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ دو ماہ کے اندر اندر 1500 مسلم رہنماؤں کا ایک اجلاس وگیان بھون میں کریں گے، جہاں وزیر اعظم کو بلائیں گے۔ اس کے بعد رام لیلا میدان میں بھی مسلمانوں کی ریلی کر وزیر اعظم کو بلانے کا ان کا منصوبہ ہے۔
ملاقات کا آغاز قرآن کی تلاوت سے
وفد کے ایک دوسرے رکن، ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے بتایا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کی شروعات قرآن کی تلاوت سے کی گئی۔ تین منٹ کی تلاوت کے بعد اس کاہندی ترجمہ بھی ہوا۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قریب رہ چکے ،خواجہ افتخارنے بتایا کہ ملاقات کے دوران ملک اور اقلیتی کمیونٹی کی حالت، سنگھ رہنماؤں کی بھڑکیلی تقریریں، جیلوں میں بند قیدیوں، ASI کی مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دینے جیسی باتیں سامنے رکھی گئیں۔ اس کے بعد مختار عباس نقوی نے اقلیتی وزارت کی طرف سے کئے گئے کچھ کام کے بارے میںبتایا۔پھر وزیر اعظم نے وفد کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل پر تفصیل سے اپنی باتیں رکھیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں کسی خاص مذہب کا نہیں، بلکہ 125 کروڑ ہندستانیوں کا وزیر اعظم ہوں۔ میرے اوپرہر ایک ہندوستانی کا یکساں حق ہے۔مولانا عمیر الیاسی نے کہا کہ یہ میٹنگ مسلم کمیونٹی کے ساتھ اعتماد بحالی کی مودی کی کوششوں کا حصہ تھی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان یہ دکھانا چاہتا ہے کہ مودی کے راج میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں لیکن اس اجلاس کے ذریعے پاکستان سمیت ان تمام مسلم ملکوں تک سخت پیغام پہنچا ہے، جہاں بھارت کے بارے میں منفی پرچار کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب اور قطر کے مسلم رہنما اس اجلاس کی تعریف کر رہے ہیں۔ہمارے اور ان کے (مودی) کے درمیان جو کھائی تھی، وہ آج مٹ گئی۔مودی من کی بات کرتے ہیں۔ہم نے بھی دل کی بات کی۔
مودی کی چائے سے خوش مسلم وفد کے ارکان
قابل غور بات یہ ہے کہ شب برات کو مسلم رہنماؤں سے ملاقات کے ایک دن پہلے ہی مودی نے اپنی پارٹی کے لیڈروں کو آگاہ کیا تھا کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر بیان بازی نہ کریں کیونکہ ملک میں مذہبی آزادی سے کسی طرح کھلواڑ نہیں ہوسکتا۔ پی ایم او کے مطابق اس میٹنگ میں مودی نے مسلم رہنماؤں سے کہا کہ اکثریت ۔اقلیت کی سیاست کی وجہ سے ملک کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ وہ اور ان کی حکومت فرقہ وارانہ بنیاد پر سیاست کرنے میں یقین نہیں رکھتی، بلکہ ترقی کے ایجنڈے پر چلنا چاہتی ہے۔فیروز بخت کے مطابق یہ اس طرح کی میٹنگ نہیں تھی کہ پی ایم کرسی پر بیٹھ کر بولیں اور باقی لوگ سنتے رہیں۔ ہم انتہائی خوش ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم نے ہر لیڈر سے خود آکر بات چیت کی۔ وزیر اعظم نے ہم سے کہا کہ وہ کسی کو ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ صرف ہندوستانی کارڈ ہی کھیلا جائے گا۔مودی اور مسلم لیڈروں کی ملاقات کے بعد پی ایم او کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے مسلم لیڈروں سے کہا کہ اگر فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنا ہے تو اس کا واحد طریقہ تعلیم ہے۔ رہنماؤں کے وفد نے مودی کو مسلم نوجوانوں کے لئے چلائی گئی اسکیم کے لئے شکریہ اداکیا۔ مودی نے کہا تھا کہ مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہونا چاہئے۔وزیر اعظم مودی چائے پلاکر خوش کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ انھوں نے امریکی صدر کو چائے پلاکر خوش کردیا تھا اور اب مسلم رہنما بھی ان کے ہاتھ کی چائے پی کر خوش نظر آئے۔ حالانکہ مودی کی اس کوشش سے عام مسلمان کس قدر مطمئن ہے، یہ سامنے آنا ابھی باقی ہے۔ 
ماضی کے بیانات
وزیر اعظم نریندر مودی ماضی میں بھی مسلمانوں کو خوش کرنے والے بیانات دیتے رہے ہیں اور اس کا مقصد مسلمانوں کے اندر اعتماد کی بحالی تھا۔ گزشتہ ۶ اپریل کو بھی مسلم رہنماؤں کے ایک وفد نے مودی سے دہلی میں ملاقات کی تھی۔اس ملاقات میں مسلم رہنماؤں نے مذہبی مقامات، مساجد اور مدارس سے وابستہ مسائل اٹھائے تھے۔ وہیں، بنیاد پرستی اور دہشت گردی بڑھنے پر بھی گفتگو ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں مودی حکومت کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ بات چیت جاری رہے گی۔ابھی حال ہی میں وزیر اعظم مودی نے ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقلیتوں پر کسی بھی طرح کے حملے برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ اپنی بات کہتے ہوئے انہوں نے سنگھ پریوار پر بھی نشانہ لگایا تھا۔غور طلب ہے کہ اقلیتوں کے خلاف سنگھ پریوار کی تنظیموں کے بیانات کو غیر ضروری بتاتےہوئے مودی نے صاف کہا کہ کسی کمیونٹی کے خلاف تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا۔اپنے انٹرویو میں مودی نے کہا تھا کہ ہمارا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، جس پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔میں نے یہ پہلے بھی کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہوں۔ کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی امتیازی سلوک اور تشدد برداشت نہیں کیاجائے گا۔حالانکہ کانگریس مرکزی حکومت پر مسلسل الزام لگا رہی ہے کہ مودی حکومت میں اقلیتوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اگرچہ مودی مسلسل اقلیتی کمیونٹی کی حفاظت کو لے کر ان کے نمائندوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ مسلمانون کے تعلق سے نرم روی اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے امریکی دورے سے قبل سی این این ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں رہنے والے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی حب الوطنی پر کبھی کوئی سوالیہ نشان نہیں اٹھاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ملک کے لئے جئے گا ا اور ملک کے لئے مریگا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں نریندر مودی نے کہا تھاکہ القاعدہ کو اس بھرم میں نہیں رہنا چاہئے کہ ہندوستانی مسلمان اس کے بہکاوے میں آئے گا۔
پرانی امیج سے نکلنے کی کوشش
نریندر مودی کی جو شبیہ ماضی میں رہی ہے ،اس کے سبب ہندوستانی مسلمانوں میں ان کے تئیں خوف اور نفرت کا ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ ان پر گجرات فسادات کے الزام لگائے گئے اور گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے وہ ایک بار بھی فسادات میں تباہ ہونے والے مسلمانوں کی خبرگیری کے لئے نہیں گئے۔ 2011میں احمد آباد کے گجرات یونیورسٹی کے کنونشن ہال میں مودی نے خیر سگالی اپواس کیا تھا جس میں ایک مولوی نے انھیں ٹوپی پہنانے کی کوشش تو انھوں نے پہننے سے انکار کردیا۔اس پر خوب واویلا مچا۔گزشتہ سال مودی نے رمضان المبارک کے دوران اپنی سرکاری رہائش گاہ پر افطار پارٹی نہیں کی جب کہ یہ یہاں کی روایت رہی ہے۔ وہ صدارتی محل میں ہوئی افطار میں بھی نہیں گئے۔ جبکہ ان کے پہلے تقریبا تمام وزیر اعظم افطار پارٹی دیتے رہے تھے۔ اس معاملے پر کانگریس نے انہیں جم کر گھیرا۔ حالانکہ ابھی حالیہ عرس خواجہ معین الدین چشتی میں انھوں نے چادر بھیجی تھی۔ظاہر ہے کہ افطار پارٹی دینے یا ٹوپی پہن لینے سے مسلمانوں کے وہ مسائل حل نہیں ہونگے جن کے ساتھ وہ اس ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک زندہ ہیں کیونکہ کانگریس کے زمانے میں یہی ریاکاریاں کی جاتی تھیں مگر مسلمانوں کا کام نہیں ہوتا تھا۔ اب مودی نے مسلمانوں سے ملنا جلنا شروع کیا ہے جو اعتماد بحالی کی جانب پہلا قدم ضرور ہے مگر وہ اس قدم میں کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ تب ہوگا جب وہ ٹھوس عمل پیش کریں گے اور یہ ثابت کریں گے کہ ان کی حکومت کانگریس کی طرح محض زبانی جمع خرچ کرنے والی نہیں ہے۔وہ جو کہتے ہیں سو کر کے دکھاتے ہیں۔وزیر اعظم کے بیانات بہت آچکے اور مسلمان خوش بھی ہوچکے مگر ان پر عمل ابھی باقی ہے۔(یو این این)

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے