ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اور آخر تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں شہریت ترمیمی قانون این پی آر اور این آر سی کے خلاف قرارداد منظور کی جاچکی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر سے جس قسم کی تقریر کی توقع کی جاسکتی ہے‘ ویسی ہی تقریر انہوں نے کی ہے۔ بہت سے اندیشوں کو دور کیا مگر بہت سارے اندیشے اور وسوسے اب بھی باقی ہیں!
کے سی آر نے جس دوٹوک لہجے میں مرکز کی پالیسی اور اس کی جانب سے متعارف کئے جانے والے سیاہ قوانین کی مخالفت کی ہے اس کی ستائش اور اظہار تشکر نہ کرنا ناانصافی بھی ہے اور ناشکری بھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے این پی آر کے خلاف حکم التواء حاصل کرنے اور اس کے خلاف جی او جاری کرنے کا واجبی مطالبہ کیا ہے کیوں کہ قراردادوں کی منظوری کے باوجود ریاستی حکومت کو اختیار نہیں ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی نافذ کی جانے والی قوانین کی خلاف ورزی کرے۔ مرکزی حکومت فی الحال مودی اور امیت شاہ پر ہی مشتمل دکھائی دیتی ہے اور اب دونوں ہی بار بار یہ تیقن دے رہے ہیں کہ کسی کی شہریت چھینی نہیں جائے گی مگر سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے حلف نامہ میں انہوں نے NRCکو ملک کے لئے ضروری قرار دیا ہے جس سے اِن کے قول اور فعل میں تضاد کا ثبوت ملتا ہے۔۔ چوں کہ عوام بالخصوص مسلمان دودھ کے جلے ہیں اس لئے چھانچھ بھی پھونک پھونک کر پینے کے لئے مجبور ہیں۔ گذشتہ ساڑھے چھ برس کے دوران جتنے بھی اقدامات ہوئے ہیں‘ کشمیر میں دفعہ 370کی برخواستگی ایک طویل عرصہ تک پوری ریاست کو عملاً جیل میں تبدیل کردینے کا بدترین واقعہ جو ہمیشہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت رہے گا۔ آسام میں مجاہدین آزادی سے لے کر قومی ہیروز کو این آر سی کے نام پر شہریت سے محروم کرکے ڈیٹنشن سنٹرس میں رکھنے کا بدترین واقعہ جس نے تمام ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے مستقبل سے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا۔ غیر ضروری طلاق ثلاثہ قانون جو شریعت محمدی میں دخل اندازی ہے۔ بابری مسجد مقدمہ کا یکطرفہ فیصلہ زمین کو مندر کی تعمیر کے حوالے کرنے کا عدالت عالیہ کی جانب سے حکم جس کی اصلیت پر سے اس وقت پردہ اٹھ گیا جب یہ بدترین سنانے والے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کو ان کے ریٹائرمنٹ کے چار مہینے بعد راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی کی گئی۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام طبقات اور بالخوص عدلیہ سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات جس میں سپریم کورٹ کے سابق ججس شامل ہیں‘ یہ کہنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں کہ رنجن گگوئی نے راجیہ سبھا کی نامزدگی کی پیشکش کو قبول کرکے عدلیہ کی آزادی پر عوامی اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔ ویسے بھی گگوئی خاندان پر حکومت بڑی مہربان ہے کیوں رنجن گگوئی کے ایک اور بھائی جو اَنجن گگوئی جو انڈین ایرفورس کے سابق ایرمارشل رہے‘ انہیں بھی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے نارتھ ایسٹ کونسل کا فل ٹائم ممبر نامزد کیا جو کابینی وزیر کے رتبہ کے برابر یہ منصب ہے۔ اس طرح دونوں بھائیوں کو نوازا گیا۔ اب یہ مودی حکومت کے حق میں فیصلے دینے کا انعام ہے یا‘ ان کی خدمات کا صلہ اس پر بحث جاری ہے۔ بہرحال! ملک کے مختلف علاقوں میں سیاہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لئے سازشیں اور کوششیں اور پھر دہلی کے فسادات‘ یکطرفہ کاروائی ایک فرقہ کی جانب سے لب کشائی پر ایف آئی آر، اور زہر اُگلنے والی کی سیکوریٹی میں اضافہ۔ اِن تمام واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عوام بالخصوص مسلمانوں نے غالبا آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے اتحاد اور دلیری سے یہ پیغام دیا ہے اب انہیں موت کا ڈر نہیں رہا۔ انہیں ہر حال میں اسی سرزمین پر جینا ہے‘ اور اِسی سرزمین کی آغوش میں آخری نیند سونا ہے۔
مسلم بہنوں کے ساتھ انصاف کا دعویٰ کرنے والوں نے شاہین باغ کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان کی ہمدردی اُن پر بھاری پڑگئی۔ اور اگر مسلم بہنیں ان کے اِس قانون سے خوش ہوتیں تو ان کے نافذ کردہ قانون کے خلاف شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد نہ ہوتیں۔ کئی ریاستی حکومتوں نے مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں، عیسائیوں، سکھوں کے دُکھ درد کو سمجھا‘ ان کے اندیشوں سے اتفاق کیا‘ اور اِن قوانین کی سختی سے مخالفت کی اور قانون ساز اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کیں۔ جن میں مغربی بنگال کیرالا، پنجاب، راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، دہلی قابل ذکر ہیں جبکہ آندھراپردیش کے بشمول 11ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ تلنگانہ کے عوام کو بھی کے سی آر سے ایسی ہی امید تھی پھر بھی کسی قدر اندیشے اور وسوسے تھے کیوں کہ بقول بشیر بدر ؎
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں ہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا
چوں کہ 12فیصد مسلم تحفظات محض ایک انتخابی وعدہ بن کر رہ گیا اور اب تو مسلمانوں کی اکثریت اس حقیقت کو تسلیم کرچکی ہے کہ انہیں صرف بہلایا گیا تھا اگر موجودہ 4فیصد تحفظات ہی برقرار رہ سکیں تو وہی غنیمت ہے۔
سی اے اے اور این پی آر سے متعلق یوں تو ٹی آر ایس کی حلیف جماعت مجلس اتحادالمسلمین نے یقینا موثر نمائندگی کی ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی سطح پر جس طرح سے اِن قوانین کے خلاف غم، غصے اور اتحاد کا مظاہرہ ہوا ہے وہ ہمیشہ تلنگانہ کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ علیحدہ تلنگانہ تحریک کیلئے جس شدت سے مظاہرے کئے گئے تھے‘ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف اُس سے کہیں زیادہ شدت سے عوامی تحریکات چلائی گئیں۔ مسلمان، دلت، عیسائی، سکھ اور سیکولر ہندو بھائی بہنیں سب مل جل کر مظاہرے کرتے رہے‘ حکومت کے پاس پل پل کی خبر تھی۔ ملین مارچ ہو یا ترنگا ریالی بڑے بڑے فنکشن ہالس میں ہونے والے کل جماعتی عوامی جلسے ہوں یا شہر کے چوراہوں پر دن یا رات کسی بھی وقت ہونے والے فلیش پروٹسٹس، جیل بھرو مہم ہو یا مختلف تعلیمی اداروں کے دامن میں زنجیری احتجاج۔ اِن سب نے یہ احساس دلایا کہ یہ تحریک دم توڑنے والی نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ شہریوں کی اپنی بقا کا مسئلہ ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر بنیادی طور پر سیکولر ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر سیاہ قوانین پر عمل کیا جائے تو مستقبل میں خود ان کا اپنا وجود میں سوالیہ نشان بن سکتاہے؟ بہرحال! انہوں نے وعدہ کیا اُسے قانون ساز اسمبلی میں قرارداد کے ذریعہ پورا کیا اب سب سے اہم مرحلہ یہی ہے کہ کس طرح سے این پی آر کے خلاف التواء حاصل کیا جائے۔ ہم خیال چیف منسٹرس متحد ہوکر مرکزی حکومت کو ان قوانین میں مناسب ترمیمات کیلئے راضی کرسکتے ہیں۔ قانون بلاشبہ واپس نہیں لئے جائیں گے کیوں کہ یہ مودی اور امیت شاہ کے وقار‘ بی جے پی کی بقاء کا مسئلہ ہے مگر اِن قوانین کو لچکدار بنایا جاسکتا ہے تاکہ ان کی اپنی عزت اور وقار بھی برقرار رہے اور ملک میں امن و قانون بھی سلامت رہے۔ گجرات میں جو ہوا تھا اُسے آج تک نہ تو گجرات والے بھول پائے، نہ ہندوستانی اور نہ ہی ہندوستان سے باہر رہنے والے۔دہلی میں جو کچھ ہوا اُس نے زخموں کو دوبارہ تازہ کردیا۔ 18برس کے دوران دنیا بدل چکی ہے‘ آج پل پل کی خبریں ساری دنیا میں ثبوت کے ساتھ عام ہورہی ہے۔ کجریوال کے دس لاکھ سی سی ٹی وے کیمرے جن تشدد کے واقعات کو قید نہیں کرسکے وہ خواتین‘ نوجوانوں اور معصوم بچوں نے اپنے موبائل فون سے شوٹ کرکے ساری دنیا میں عام کرچکے ہیں۔ جب ہم دوسرے ممالک کی اقلیتوں پر مظالم کے نام پر انہیں شہریت دینے کا دعویٰ کرتے ہیں تو شاید دوسرے ممالک کو بھی یہ حق ضرور ہوگا کہ وہ ہماری سرزمین پر اقلیتوں کو ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بھی اٹھائے اور ان اندیشوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اگر بہت سارے ممالک کا سویا ہوا انسانی جذبہ بیدار ہوجائیں تو ہمارے ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ویسے بھی پہلی مرتبہ بہت سارے مسائل بین الاقوامی اداروں میں پیش ہونے لگے ہیں جو ہمارے ملک کی عزت اور وقار کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
بہرحال! حکومت تلنگانہ کیلئے سب سے بڑا آزمائشی مرحلہ اب شروع ہوگا اور اگر وہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کا دل جیت لیتے ہیں تو یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں اسلامی ممالک کی جانب سے سب سے زیادہ سرمایہ کاری ممکن ہے۔
چیف منسٹر تلنگانہ جناب کے سی آر سے ہم اظہار تشکر کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اقدام سے ایک مثال قائم کریں گے۔ اور اُن تمام افراد، انجمنوں، جماعتوں اور تنظیموں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جنہوں نے کامیاب تحریک چلائی چاہے وہ مجلس اتحادالمسلمین ہو، یا مشتاق ملک کی قیادت میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی ہو، جماعت اسلامی ہو یا مسلم خواتین کی تنظیمیں ہوں‘ بس اس وقت نظریاتی اختلاف کے باوجود ایک مقصد کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے۔کامیابی کا سہرا کس کے سر باندھا جائے اس کی فکر کی ابھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہر باشعور فرد جانتا ہے کہ کس نے کیا رول ادا کیا‘جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ جدوجہد کی وہ بھی سرفراز ہوں گے جنہوں نے کسی اور مقصد کے تحت یہ کام کیا ہے وقتی طور پر ہی سہی‘ انہیں بھی مایوسی نہیں ہوگی۔ ہر فرد اس کامیابی کے لئے مبارکباد کے مستحق ہیں
جواب دیں