تلنگانہ میں ٹی آر ایس کامیاب مہاکوٹمی ناکام ۔ کیوں۔؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

۰۰۰ اور ٹی آر ایس جیت گئی۔ تلنگانہ پر کے سی آر کی قیادت میں اسے دوبارہ اقتدار حاصل ہوگیا۔ مہاکوٹمی کو عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔راہول گاندھی ، چندرابابو نائیڈو ، سی پی آئی ، ٹی جے ایس تلنگانہ کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حالانکہ کانگریس نے مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں زبردست مظاہرہ کیا۔ تلنگانہ میں وہ اس قسم کے مظاہرہ میں ناکام رہی۔ کیوں۔ اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ تلنگانہ میں کانگریس نے اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کی۔ گروہ بندی، ٹیم اسپرٹ کی کمی، ہر کارکن اپنی جگہ لیڈر اور دوسرے لیڈر کو خاطر میں نہیں لانا۔ ان سب کے علاوہ نیت کے فتور نے بھی کانگریس کا بیڑہ غرق کیا۔ امیدواروں کے انتخاب میں جانبداری یا بیرونی دخل اندازی ، فنڈز کے استعمال میں کفایت شعاری اور بعض موقعوں پر بخالت یا کنجوسی وغیرہ وغیرہ۔ 
مسٹر چندرشیکھر راؤ کی جانب سے اکٹوبر میں جب اچانک اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کی گئی تو یہ کہا گیا کہ قبل از وقت اسمبلی کی تحلیل اور انتخابات کے انعقاد سے انہیں نقصان ہوگا۔ جس انداز میں مہاکوٹمی یا عظیم اتحاد نے مہم چلائی ، اس سے لگ رہا تھا کہ ایک نیا انقلاب آئے گا۔مگر عظیم اتحاد ایٹم بم کی بجائے ایک معمولی سا پٹاخہ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ کانگریس کے کئی ہیوی ویٹس ناک آؤٹ ہوئے، کوڈنڈارام نے اچھا ہی کیا کہ مقابلہ نہیں کیا، ورنہ رہی سہی عزت اور وقار سے محروم ہوجاتے۔
ٹی آر ایس نے جس شاندار طریقہ سے دوبارہ اقتدار اور مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مہاکوٹمی نے جو پروپیگنڈہ کیا اس کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوا، اور دیہی علاقوں کے علاوہ شہری علاقوں کے عوام نے ٹی آر ایس کی حمایت کی۔ رائے دہی سے دو دن پہلے ٹی آر ایس نے اخبارات میں جو عوامی فلاح و بہبود کے اشتہارات جاری کئے، اس سے عوام بالخصوص برسرخدمت اور مؤظف سرکاری ملازمین اور سرکاری ملازمتوں کے متلاشیان کی زبردست تائید حاصل ہوئی۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کو 61سال کرنے اور تقرری کی حد عمر میں تین سال کے اضافہ کے اعلان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ حکمراں جماعت پر اقلیتوں کو 12فیصد تحفظات کے وعدہ پر عدم عمل آوری کے الزامات کا کوئی اثر نہیں ہوا، جس کا ثبوت بیشتر اکثریتی آبادی والے حلقوں میں کانگریس کے مقابلہ میں ٹی آر ایس کو ملنے والے اقلیتی ووٹ ہیں۔ ظہیرآباد کے مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس امیدوار کے مقابلہ میں ٹی آر ایس کے حق میں ووٹ دیا، اور اکثر وبیشتر حلقوں میں ایسا ہی ہوا۔ حتیٰ کہ مجلس کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں بھی جہاں دوستانہ مقابلہ تھا، ٹی آر ایس کو اچھے ووٹ ملے۔
مہاکوٹمی میں انقلابی شاعر غدر شامل تھے، جنہوں نے کوڈنڈارام کی طرح 2014میں ٹی آر ایس کی کامیابی میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ تاہم دونوں کے کے سی آر سے نظریاتی اختلافات ہوگئے تھے، ان دوکا یہ احساس یا خوش فہمی تھی کہ وہ عوامی قائد ہیں، ان کی آواز پر ایک بار پھر طلبہ برادری، سرکاری ملازمین اور عام طبقات ایک ہوجائیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اسی طرح جمعےۃ العلماء ہند کی اپیل بے اثر ثابت ہوئی جس نے کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہ تو غنیمت ہوا کہ انہوں نے مجلسی امیدواروں کی بھی تائید کا اعلان کیا، ورنہ اس کا وقار بھی متاثر ہوتا۔ جماعت اسلامی ہند نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ مختلف گوشوں سے مخالفتوں اور تنقید کے باوجود ٹی آر ایس اور مجلس کی تائید کا اعلان کیا اور اپنی سیاسی بصیرت ، دوراندیشی کو ثابت کیا۔ 
ٹی آر ایس کی شاندار کامیابی میں مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ہے، یہ بات کے سی آر جانتے ہیں اور ان سے امید کی جاسکتی ہیکہ وہ اس کا صلہ ضرور دیں گے۔ چند مسلم ارکان کو عہدوں کی پیشکش صلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات اور وعدوں پر عمل آوری ہے۔
کانگریس بھلے ہی تلنگانہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی ہو، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے دوسری ریاستوں میں غیر معمولی مظاہرہ کیا ، ورنہ راہول گاندھی ایک عرصہ تک مسکرانا بھول جاتے۔ راجستھان ، چھتس گڑھ اور مدھیہ پردیش کی کامیابی کی خوشی میں وہ تلنگانہ کا غم بھول سکتے ہیں۔ اسبات کا امکان ہیکہ تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کی تشکیل جدید ہو۔ اور ایسے ارکان اس میں شامل کئے جائیں جو لیڈر نہیں بلکہ ورکر ہوں۔ جتنی گروہ بندیاں اس قدیم جماعت میں دیکھنے میں آئیں، وہ کسی اور جماعت میں نہیں تھیں۔ اسے اگر دوبارہ عوامی اعتماد بحال کرنا ہے تو سرے سے محنت کرنی ہوگی۔ نوجوانوں کو موقع دیا جانا چاہیے۔
مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شاندار کامیابی کی وجہ حکمراں جماعت کے خلاف بیزاری کی لہر تھی، جبکہ میزورم میں بھی کانگریسی حکومت کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ تلنگانہ میں ایسے حالات نہیں تھے جیسے اپوزیشن نے عوام کو بتائے تھے اس لئے ٹی آر ایس کو شاندار کامیابی ملی۔
2014اور 2018کے الکشن میں کافی فرق ہے۔ 2014میں نئی ریاست کی تشکیل کا کریڈٹ ٹی آر ایس کو ملا، اور 2018میں ٹی آر ایس کو یہ ثابت کرنا تھا کہ اس نے اپنے سوا چارسالہ دورِ اقتدار میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی بڑی حد تک تکمیل کی اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ 
ٹی آر ایس کی اقتدار پر واپسی، اس کی حلیف جماعت مجلس اتحاد المسلمین کے لئے بھی وقار کا مسئلہ تھی۔ مجلس کی ساتوں اسمبلی حلقوں سے کامیابی اور ٹی آر ایس کی کسی کی مدد کے بغیر اپنے طور پر تشکیل حکومت نے مجلس کے وقار کو بلند کیا ہے۔ چونکہ اس الکشن میں بی جے پی کو زبردست نقصان ہوا، اس کے ارکان کی تعداد گھٹ گئی اور اب اکلوتے رکن باقی رہ گئے ہیں، اس لئے مختلف گوشوں سے ٹی آر ایس اور مجلس پر عائد کئے جانے والے الزامات بھی بے اثر ہوگئے کہ دونوں جماعتیں ، بی جے پی کو مضبوط کررہی ہیں۔
تلنگانہ میں بی جے پی کو نئی طاقت دینے امیت شاہ ، نریندر مودی ، یوگی آدتیہ ناتھ نے دورے کئے، انتخابی جلسوں سے خطاب کیا مگر انہیں چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی طرح تلنگانہ کے عوام نے بھی مایوس کردیا۔ بی جے پی ارکان کی تعداد میں کمی اور مجلس ارکان کی تعداد برقرار رہنے سے تلنگانہ کے سیکولر عوام بالخصوص اقلیتوں نے راحت کی سانس لی۔البتہ مسلم اکثریتی آبادی والے حلقوں میں رائے دہی کے تناسب میں کمی تشویش کا باعث ہے۔ حالانکہ شعور بیداری مہم چلائی گئی۔ یا تو عوام کو الکشن سے دلچسپی اور امیدواروں سے زیادہ ہمدردی نہیں رہی۔ 
2023کے الکشن تک حالات اور سنگین ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت جو نئی نسل ووٹ ڈالنے کی اہل ہوجائے گی وہ شاید ہی رائے دہی میں دلچسپی لے گی۔ اس سے بہت پہلے ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی کم رائے دہی کے تناسب کا فرق محسوس کیا جاسکے گا۔ فہرست رائے دہندگان سے ہزاروں نام حذف پائے گئے، اگر پارلیمانی انتخابات سے قبل اس پر نظر ثانی نہ کی گئی تو نقصان پورا نہ سہی کچھ تو ہوگا۔ 
تلنگانہ الکشن 2018میں چندرابابو نائیڈو نے گرمجوشی کے ساتھ حصہ لیا، سمجھا جارہا تھا کہ وہ دوبارہ تلنگانہ کی سیاست میں کوئی اہم رول ادا کریں گے۔ اگرچہ کے ٹی ڈی پی نے دونشستوں پر کامیابی حاصل کرلی مگر یہ بابو کیلئے مایوس کن ہے۔ وہ یقیناًایک طویل عرصہ تک تلنگانہ معاملات میں دخل انداز ی سے گریز کریں گے۔
الکشن سے پہلے کانگریس اور ٹی آر ایس کے کئی سرکردہ قائدین نے اپنی اپنی پارٹیوں سے وفاداری تبدیل کی۔ بعض ٹی آر ایس سے کانگریس میں شامل ہوئے۔ اور کانگریس کے وفادار ٹی آر ایس میں۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، اسے سیاسی بصیرت، دور اندیشی کا بھی نام دیا جاسکتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ جو مسلم قائدین ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں آیا انہیں کوئی صلہ ملے گا یا نہیں۔
جناب محمود علی نے مسلم ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنی میعاد کامیابی کے ساتھ مکمل کی۔ اپنی شرافت ، منکسر المزاجی سے انہوں نے ہر طبقہ کے دل میں جگہ بنائی ہے۔ کے سی آر کے وہ اس وقت سے ساتھ ہیں جب ٹی آر ایس کے اقتدار حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ کے سی آر ان کو برقرار رکھیں گے یا کوئی تبدیلی ہوگی یہ سوال ذہنوں میں ضرور ہے، ویسے کابینہ میں شمولیت کے امیدواروں میں عامر شکیل، فرید الدین، اور فاروق حسین شامل ہیں۔ جبکہ پہلے سے موجود اور بعد میں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے مسلم قائدین بھی پر امید ہیں کہ ان کا بھی لحاظ کیا جائے گا۔

 

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:12ڈسمبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے