ایجاد بندہ ویسی ہو ہی نہیں سکتی جیسی عطائے خداوندی ہوتی ہے۔محرم میں جو خرافات ہوتی ہے وہ دوسرے کسی تہوار میں نہیں۔مسلمانوں کا تقریباً ایک ہفتہ اس کی نظر ہو جاتا ہے۔ اور وہ وہ بدعتیں ہوتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔یہی حال عیدمیلادالنبی کا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ یہ ایک ہی دن میں تمام ہو جاتا ہے۔مگر جلوس کے تمام راستے گھنٹوں بلاک رہتے ہیں۔ان راستوں پر رہنے والوں کے کام گھنٹوں کے لئے ٹھپ ہو جاتے ہیں۔غیر مسلم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ گنپتی کے جلوس میں اور اس میں کیا فرق ہے۔برسوں پہلے ہم بمبئی میں ایک بار محمد علی روڈ سے نور باغ کے لئے ٹیکسی میں بیٹھے ۔گنپتی کا زمانہ تھا اور ٹیکسی ڈرائیور کوئی ہندو تھا ۔اس نے کہا کہ اس تہوار پر ہر سال کروڑوں روپیہ برباد کیا جاتا ہے۔دس دن تک روڈ بلاک رہتے ہیں ۔شور شغب اور ہنگامہ رہتا ہے ۔پھر اسے پانی میں ڈبا کر آلودگی الگ بڑھائی جاتی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ سوچنے سمجھنے والے سنجیدہ لوگ ہر جگہ موجود ہیں جو اپنے دل میں کڑھتے رہتے ہیں۔خاموش رہتے ہیں۔اور جو خاموش نہیں رہ سکتے ۔اظہار کردیتے ہیں وہ نریندر دابھولکر ،گووند پانسرے اور مالیشپا کلبرگی کی طرح مار دئے جاتے ہیں۔اور یہ کچھ ہندؤں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ مشرکین کی نفسیات ہے۔اگر کبھی مسلمان مشرکین اقدار میں آجائیں توبھی ان کے عقائدکے خلاف بولنے والوں کا یہی حشر کریں گے۔
یہ سب باتیں ہمیں اس وقت یاد آگئیں تھیں جب ہم دیوالی کے دوسرے دن ۱۲ نومبر کی صبح ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے۔اینکر یہ بتا رہا تھا کہ دلی کے کس علاقے میں کتنی آلودگی ریکارڈ کی گئی ہے۔دلی میں کل سات پولیوشن مانیٹرنگ اسٹیشن ہیں۔وہاں قریب قریب ہر علاقے میں عام دنوں کے مقابلے ۶ گنا زیادہ ایئر پولیوشن تھا۔آنند وہار نامی علاقے میں سب سے زیادہ پولیوشن بتایا گیا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ زمین پر پڑے ہوئے پٹاخوں کے کچرے بھی دکھائے جا رہے تھے۔اسی وقت ٹی وی پر بھوپال کے مختلف علاقوں کا احوال بھی پیش کیا جا رہا تھا ۔ وہاں بھی پولیوشن کا حال دلی جیسا ہی تھا۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت اس سے لا علم ہے کیونکہ ہر سال دیوالی آنے سے پہلے ٹی وی چینلوں پر ٹی وی اداکاروں کے ذریعے پٹاخوں کے تعلق سے وارننگ دی جاتی ہے۔انہیں بتایا جاتا ہے کہ پٹاخوں کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔کیونکہ ان سے فضائی آلودگی ہی نہیں ہوتی بلکہ صوتی آلودگی بھی ہوتی ہےَ۔قانوناً۱۲۵decible سے زیادہ آواز پیدا کرنے والے پٹاخے ممنوع ہیں۔اس سے بہرے پن کا خطرہ بڑھتا ہے مگر پرواہ کون کرتا ہے۔۱۲ نومبر والے ٹی وی خبرنامے میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پٹاخوں کی وجہ سے کہاں کہاں آگ لگی ہوئی ہے۔اکثر و بیشتر بچے کیا بڑے بھی پٹاخوں سے جل جاتے ہیں۔کبھی کبھی آنکھ بھی چلی جاتی ہے۔پٹاخے بنانے والی فیکٹریوں میں عموماچائلڈ لیبر سے کام لیا جاتا ہے۔جہاں بارود کی وجہ سے انھیں مختلف سنگین قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہولی کا بھی ہے۔ہولی کے رنگوں میں شامل کیمیکلس انسانی جسم کے لئے نقصاندہ ہوتے ہیں۔اگر آنکھ میں چلے جائیں تو بینائی متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ایک بڑی قباحت اس میں یہ بھی ہے کہ یہ مخلوط محفلوں میں کھیلی جاتی ہے۔مگر جن لوگوں کا یہ تہوار ہے ان کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔یہ تو اسلام ہے جو مسئلہ کھڑا ہونے سے پہلے پیش بندیاں کرتا ہے۔اسلام مرد و زن کی مخلوط محفلوں کو کسی قیمت پسند نہیں کرتا۔ ایسا ہی ایک تہوار نو راتری بھی ہے۔اس کی بنیاد ہی مخلوط محفلوں پر ہے۔اگر مردوزن کی مخلوط محفلیں نہ ہوں تو یہ تہوار ہی برپا نہ ہو۔۹راتوں تک مسلسل جوان مرد اور جوان عورتیں گھنٹوں ساتھ ساتھ کھیلتے ہیں اور اس اختلاط کے جومنطقی نتائج نکلنے چاہئیں ۲؍۳ ماہ بعد وہ نکلتے ہیں۔اللہ کا شکر ہے جو فرقہ پرستوں کو چند سال پہلے یہ خیال آگیا کہ جو مزہ ان کے جوان لوٹتے ہیں وہ مسلمان لڑکے کیوں لوٹیں ۔اب انھوں نے کئی علاقوں میں مسلمان لڑکوں کا ڈانڈیا کی محفلوں میں داخلہ بند کروادیا ہے۔ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام علاقوں کے فرقہ پرست ہی نہیں عام ہندؤں کو بھی وہ یہ توفیق دے کہ اس قسم کی محفلوں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائیں۔
اب کچھ ان تہواروں کا ذکر بھی کردیں جو عطائے ایزدی ہیں ۔پہلے عیدالفطر کو لے لیجئے ۔ایک ماہ تک روزے رکھنے کے بعد یہ عید منائی جاتی ہے۔رمضان کے دنوں میں کھانے پینے کے اوقات الٹ دئے جاتے ہیں۔یہ تبدیلی انسان کے جسم پر جو خوشگوار اثر ڈالتی ہے اسے ایک ڈاکٹرہی کماحقہ بتا سکتا ہے۔سب سے زیادہ فائدہ نظام انہضام کو ہوتا ہے اس کا نفسیاتی اثر یہ بھی ہے کہ مالداروں کو غریبوں کی طرح فقر و فاقہ کا احساس ہوتا ہے ۔اسی لئے اس پورے ماہ اور عید کے دن مسلمان عام دنوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ خیر خیرات سے کام لیتے ہیں۔ضروری تو نہیں ہے مگرانہی ایام میں زکوٰۃ بھی نکالی جاتی ہے ۔عید کی نماز کو جانے سے پہلے فطرہ بھی ادا کیا جاتا ہے نماز کو جاتے ہوئے بھی اور آتے ہوئے بھی خوب خوب خیرات کی جاتی ہے ۔پورے ۳۰ یا ۳۱ دن صدقات و خیرات صرف اور صرف غرباء و مساکین میں ہی تقسیم ہوتے ہیں ۔صرف ایک برائی فی زمانہ رواج پا گئی ہے۔ظاہر ہے ایجاد بندہ ہے ،اور وہ ہے افطار پارٹیاں ۔سیاسی پارٹیوں کا تو ذکر کیا
نجی پارٹیاں بھی رشتے داروں اور صاحب حیثیت لوگوں کو ہی دی جاتی ہیں۔
اسی طرح اللہ کی طرف سے عطا کردہ دوسرا تہوار عیدالاضحی کا ہے جو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔اس میں صاحب استطاعت قربانی کرتا ہے۔اور گوشت اپنے احباب و قرابت دار میں تقسیم کرنے کے بعد غریبوں میں بانٹتا ہے۔شرعاً یہ لازمی ہے کہ ایک تہائی حصہ غرباء میں تقسیم کیا جائے ۔ابتدا میں تو حضورﷺ نے قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے کی ممانعت کی تھی مگر بعد میں جب مسلمان خوشحال ہو گئے تو پھر اجازت دی گئی ،ہمیں ایسا لگا ہے کہ آج پھر غربت بڑھ گئی ہے ۔مگر غربت کی تعریف کے معاملے میں حکومت کی طرح ہم بھی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ٹی وی موبائل رکھنے والا غریب کہلائے گایا۔۔۔بہرحال قربانی کے گوشت کا کم سے کم ایک تہائی تو غریبوں کو جاتا ہی ہے۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو بہت تھوڑا خود رکھ کر باقی غرباء میں تقسیم کرا دیتے ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ قربانی کی آلائشوں سے آلودگی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔مگر وہاں نہیں جہاں شہریوں کو اپنے فرائض یاد ہوں۔اور بلدیہ چست و درست ہو۔بلکہ یہ آلائشیں بلدیہ کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔
یہ وطن عزیز کے چند تہواروں کا انتہائی مختصر جائزہ ہے۔ہماری خواہش ہے کہ مسلمان اور برادران وطن اپنے تہواروں کا تجزیہ کریں کہ وہ کتنے مذہبی ہیں اور کتنے غیر مذہبی؟
جواب دیں