روےئے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے
دنیا ایک بڑے جانی و مالی نقصان سے دو چار ہوئی، جب تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی لمحہ میں جاپان میں ساٹھ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ ایک آن میں موت نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا، نہ وہ اپنے بچنے کی تدبیر کرنے کی مہلت پاسکے اور نہ اپنی اس ناگہانی موت کے اسباب تلاش کر سکے، ایسا لگا جیسے کوئی آندھی ذرات کو اڑا کر لے گئی ہو یا سیل رواں کی زد میں تنکے آگئے ہوں۔ 130 میل رقبے تک بسنے والے افراد زہریلی گیس کی تاب نہ لا پائے اور معذور ہوگئے، غم و اندوہ اور درد و تکلیف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، یہ تو لمحہ بھرکی کہانی ہے۔ اگر دوسری عالمی جنگ کی ہلاکت کا اندازہ کیا جائے تو تباہیوں کا سلسلہ لگاتار ہے۔ 1933 میں ہی اس جنگ کے آثار پوری طرح محسوس ہوئے، اس جنگ کی شروعات جرمنی نے کی جہاں ہٹلر جیسا آمر، سفاک، ظالم و جابر موجود تھا، پھر یہ چنگاری شعلہ بن گئی اور دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتی گئی۔ 1938میں نازیوں نے آسٹریلیا پر حملہ کیا اور 15مارچ 1939 میں چیکو سلواکیہ پر حملہ 1ستمبر 1939 کو ایک ملین سے زائد فوجی پولینڈ پر حملہ آور ہوئے، بس یہی دوسری عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز ہے۔ پھر جاپان کے ٹوٹنے تک آسمان و زمین بم کی آوازوں سے دہلتے رہے اور خوف و سراسیمگی کے سایہ میں لوگ زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے۔ 1945 تک جب کچھ ملک بکھر گئے، اپنی توانائیاں صرف کرچکے تو یہ ڈراؤنا منظر ختم ہوا اور دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر ہوئی۔ اگر غور کیا جائے اور ان اسباب و عوامل کو بہ نظر عمیق دیکھا جائے تو جو محققین نے بیان کئے تو معلوم ہوجائے گا کہ کروڑوں لوگوں کی جانوں کی ہلاکت کا سبب اور وجہ صرف حرص، لالچ، طمع،خود نمائی، خود کو پاور اور طاقت والا ثابت کرنا یہی اس تباہی کا سبب ہے۔ تاریخ کے اوراق کو داغ دار کیا گیا، چند ممالک کا غرور اور تکبر ساری دنیا کے لئے سم قاتل ثابت ہوا اور سب کچھ تہس نہس ہوگیا اور امریکہ کی خودنمائی نے اس تباہی میں ایک ایسا باب شامل کیا جو تاریخ کے چہرے پر بدنما داغ ہے جس کی مثال بھی نظر نہیں آتی۔
انسانیت و آدمیت کا قاتل ٹھہرا مگر عجیب بات ہے جو قاتل اس جنگ کے بعد دنیاکی سب سے عظیم طاقت کہلایا دنیا اس کی غلام نظر آنے لگی اس نے جو کہا مانا گیا، جو کہا تسلیم کیا گیا، ٹوٹے پھوٹے ملک اپنی اصلاح میں لگ گئے، زندگی کا پہیا دھیرے دھیرے گھومنا شروع ہوگیااور ترقیات کی طرف پھر سے دنیا نے رخ کیا، سب کچھ گذرے زمانے کی بات ہوگیا اور دنیا وہیں پہنچ گئی ۔ جہاں سے اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا تھا یا اس سے بھی کہیں آگے مگر کچھ علامات باقی رہیں، کچھ نشانات دھرتی کے سینہ پر موجود رہے جن کو عبرت کی قبیل سے گردانا جاسکتا ہے۔ اس عظیم تباہی کے بعد اب یہ تصور محال تھا کہ دنیا کو کبھی ایسے حالات کا سامنا کرنا ہوگا کیوں کہ انسان کا خاصہ ہے کہ وہ بار بار ٹھوکر نہیں کھاتا لیکن آج پھر دنیا انہیں حالات کی طرف دوڑ پڑی ہے اور تیسری عالمی جنگ کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ آج پھر چند ممالک پر غرور کا نشہ چڑھا ہوا ہے اور دنیا نے پھر اسی تباہی پر دستک دی ہے۔ یہ صرف خیالات نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جو دلائل و شواہد سے لیس ہیں اور اپنے وجود کو باور کرا رہے ہیں۔
شام میں دنیا کی عظیم طاقتیں جیسے اپنی طاقت کی نمائش کر رہی ہیں اور معاملہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ اپنی اپنی اناکا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں شامی درد و الم کی چکی میں پس رہے ہیں اور جس دن سے ترکی نے روس کے جنگی طیارے کو مار گرایا ساری دنیا اس میں مبتلا نظر آنے لگی۔ روس نے ترکی سے سارے تعلقات منقطع کردئیے، اس کی غذائیں نہیں لے رہا ہے، اس کے طلبہ کو واپس جانے کا حکم نامہ جاری کیا جاچکا۔ ترک زبان کے کالج بند ہوچکے، کسی طرح طیب رجب اردگان معافی مانگیں، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے مگر ترکی صدر نے ہمت اور جواں مردی کا مظاہرہ کیاہے اور معافی مانگنے سے انکار کردیا اور وہ ثبوت کی جنگ لڑنے کو تیار ہیں اور انہوں نے صاد کہا کہ ہمارا جرم ثابت کرو، استعفی تمہارے منہ پر آئے گا مگر ان حالات میں مزید کشیدگی بڑھنے کی پوری امید ہے کیوں کہ سعودی حکومت نے جہاں ترکی کی حمایت سے متعلق بات کہی وہیں دوسری عالمی جنگ کا ہیرو سمجھا جانے والا امریکہ بھی ترکی کے ساتھ نظر آیا اور امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمانی الزابیتھ ٹروڈ نے کہا ہم اپنے اور ترک ذرائع ایسے ثبوت فراہم کر چکے جو ثابت کرتے ہیں کہ روسی طیارے نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور بار بار کرتا رہا ہے اور دوسری طرف بشار الاسد نے جو اپنے ملک میں حیوانیت کا ننگا ناچ کرنے کی اجازت دی ہے اس نے کہا کہ روس نے داعش کے خلاف قابل تعریف کارروائی کی ہے اور اس کی کمر توڑنے کے مترادف حالات پیدا کئے جب کہ امریکہ اس طرح کی کارروائی کرنے میں ناکام رہا تھا اور وہ داعش کا خاتمہ کرنے میں ناکام ثابت ہورہا تھا، اسرائیلی صدر بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ شام میں صہیونی فوجیں کارروائی کر رہی ہیں روس کی باتوں سے اس سے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور شام کی سرحدوں پر نصب کئے گئے میزائل بھی اس بات کی طرف مشیر ہیں کہ امریکہ اور نیٹو نے بھی شام پر حملہ کی آڑ میں بے پناہ جدید ترین اسلحہ اکٹھا کیا ہے۔ امریکی تنظیم دی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن اس کی تصدیق کرتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ ان آلات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کا تھوڑا سا حصہ ہی دنیا کی تباہی کے لئے کافی ہے۔ فرانس نے بھی پیرس حملہ کے بعد شام میں اپنی کارروائیوں سے اس باب میں اضافہ کیا ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں تیسری عالمی جنگ نظر آرہی ہے اور ہر ذی شعور اگر ان تمام چیزوں کو سامنے رکھے تو احساس ہوجاتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے کتنے واضح آثارظاہر ہورہے ہیں۔ دنیا پھر سے اسی منظر کی طرف رواں دواں ہے۔ اس کے وجود پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے ہیں کیا پھر سے دنیا کو بارود کی برسات کا موسم نصیب ہوتا ہے؟ کیا پھر سے بستیوں کو خاکسر کیا جائے گا؟ کیا پھر سے ہنستی کھیلتی آبادیاں اجاڑی جائیں گی اور امریکہ اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کے لئے کتنے مظالم کا مرتکب ہوتا ہے جو کائنات کے وجود کے لئے خطرہ ہیں۔ کیا شام ہی کو آگے رکھ کر یہ جنگ لڑی جائے گی؟ یا کچھ اور مسائل جنم لیں گے یا لے چکے مگر آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ یہ سب ابھی مستقبل کے پیٹ میں ہے مگر اس تباہی کا خیال قلب و دماغ کو ہراساں کرنے والا ہے۔
جواب دیں