فرق صرف اتنا ہے حیدرعلی اور اورنگ زیب سے جنہوں نے غداری کی ان کے خون کو دونوں حکمرانوں نے اپنے اوپر حلال سمجھا جبکہ ٹیپو سلطان نے اپنی نرم دلی اور بار بار معاف کرنے کی عادت کے باعث دشمنوں کو بھی اعتماد کے دامن میں پناہ دیدی اور اس کا نتیجہ وہی برآمد ہوا جو حضرت امام حسینؓ کے حد سے زیادہ اعتماد کا ہوا تھا۔ ٹیپو سلطان اپنے مصاحبوں اور ماتحتوں کے ساتھ اگر ضرورت سے زیادہ مروت سے کام نہ لیتے تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی اور انگریز مورخوں کو یہ کہنے کا ہرگز موقع نہ ملتا کہ حیدرعلی کی موت انگریزوں کی خوش نصیبی کا سبب بن گئی۔
حالانکہ اپنے باپ کی طرح ٹیپو سلطان کو بھی انگریزوں سے شدید نفرت تھی مدراس میں قدرت نے جو موقع حیدرعلی کو عطا کیا اگر وہ سلطان کو مل جاتا تو انگریزوں کو کبھی معاف نہ کرتے بلکہ مدراس ان سے ضرور خالی کرا لیتے جس کے بعد انگریز جنوبی ہند میں قدم نہ جما پاتے۔ کہنے کو ’’معاہدہ مدراس‘‘ کی طرح سلطان نے بھی انگریزوں کے ساتھ ’’صلح نامہ منگلور‘‘ پر دستخط کئے مگر ان دونوں مواقع کی سیاسی صورت حال ایک دوسرے سے کافی مختلف تھی، معاہدہ مدراس کے برعکس صلح نامہ منگلور کے وقت حیدر علی کی وفات سے شیرازہ سلطنت کمزور ہورہا تھا، کئی ریاستوں نے حیدر علی کی موت اور انگریزوں کے دو طرفہ جنگی محاذ کھولنے کے سبب بغاوت کردی تھی لہذا سلطان کو بمجبوری صلح نامہ کرنا پڑا۔ پھر بھی اس صلح نامہ کو سلطان کے تدبر وعظمت کی دلیل کے طور پر تاریخِ جنوبی ہند نے محفوظ کررکھا ہے کیونکہ اس میں انگریزوں کو کافی دب کر صلح کرنا پڑی تھی اور سلطان نے ان کے مغرور سروں کو جھکا دیا تھا لیکن اسے ہندوستان کی بدنصیبی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ عین اسی وقت جب معاہدہ منگلور اور باغی ریاستوں کی سرکوبی کی خبریں نشر ہورہی تھیں مرہٹوں اور نظام دکن نے ’’سلطنت خداداد‘‘ کے خلاف ایک نیا محاذ کھول کر میسور کے حدود میں وہ بربادی مچائی کہ آبادیاں ویران کردیں۔ اس گستاخی کی سزا میں سلطان نے دشمن کی ایسی سرکوبی کی کہ انگریزوں کی طرح وہ بھی مصالحت کے لئے مجبور ہوگیا۔
ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ’’معاہدہ منگلور‘‘ اور مرہٹوں و دکنیوں کو شکست دینے کے بعد ٹیپو سلطان نے ایک ایسے نظام حکومت کی بنیاد رکھی اور ایک ایسی سلطنت قائم کی جو جنوبی ہند کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے رعایا کو خوشحال بنانے کے لئے جو فلاحی منصوبے تیار کئے دوسرے حکمراں تو کیا بناتے مغل دور میں بھی ان پر عمل نہ ہوسکا، عام انسانوں کے ہمدرد، شرافت ومساوات کے علمبرار ٹیپو سلطان نے سب سے زیادہ توجہ کسانوں کو اوپر اٹھانے میں صرف کی خدا کی اس کمزور مخلوق کو جاگیرداروں کے استحصال سے بچانے میں اپنی پوری صلاحیت صرف کردی۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا انقلابی قدم اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا تھا بعض مورخین کا خیال ہے کہ سلطان کے اس اقدام سے اندرونی سازش کو پنپنے کا موقع ملا اور وہ جاگیر دار جو آراضی کی اصلاحات کے باعث اپنی زمینوں سے محروم ہوگئے تھے سلطان کے دشمن بن گئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سلطان نے اس طرح ریاست میسور کے ایک کروڑ سے زائد کاشتکاروں کو اپنا جاں نثار بنالیا اور مزدوروں کے اس طبقہ کو ایک خوشحال زندگی جینے کا قرینہ دیا جو پہلے محض کھیتوں میں مزدوری کیا کرتا تھا اس نظام سے نہ صرف صدیوں سے ویران پڑی ہوئی زمینیں آباد ہوگئیں بلکہ کاشتکاروں کی اقتصادی حالت بھی بہتر ہوئی اس کے ساتھ انہوں نے ہر طرح کا سامان ملک میں تیار کرنے کا بندوبست کیا درآمد قطعی بند کردی، تجارتی فرموں اور صنعتی اداروں کیلئے بینک کا نظام جاری کیا جس سے تاجروں اور صنعت کاروں کو مناسب شرح پر روپیہ فراہم کیا جاتا تھا ساہو کاروں کے کاروبار کو اس سے بہت نقصان ہوا۔
تاریخ کی یہ ایک عجیب مثال ہے کہ جب تک سلطان برسراقتدار رہے انہوں نے ملک کے اندر کوئی چیز باہر سے نہ آنے دی یہاں تک کہ نمک تک وہیں تیارہونے لگا اسی طرح اسلحہ سازی سے لیکر کپڑے، برتنوں کی تیاری، لکڑی کے سامان، ریشمی مصنوعات اور لوہے، ہاتھی دانت وغیرہ کی صنعت میں میسور ریاست نہ صرف خود کفیل ہوگئی بلکہ اتنا سامان ہر سال تیار کرنے لگی کہ ریاست سے باہر بھیجا جاتا ، سلطان نے اپنی رعایا کی محض اقتصادی اور زرعی زندگی میں ہی انقلاب برپا نہ کیا اجتماعی زندگی میں بھی غیر معمولی اصلاحات نافذ کیں اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں جو بہت سی فضول رسمیں پیدا ہوگئیں تھیں ان کا سدباب ہوا۔
مورخین کا خیال ہے کہ ٹیپو سلطان کے زوال میں مذکورہ معاشی ومعاشرتی اصلاحات کا بڑا دخل ہے ان کی فوج اور عمال کا بڑا طبقہ غلط رسم ورواج کا عادی ہوگیا تھا ان پر بندش سے سلطان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کو طاقت ملی اور سازش کے جال دراز ہوتے گئے۔ بہر حال ہندوستان کے مسلمانوں کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدنصیبی ہوسکتی ہے کہ سلطان جیسے مصلح اور مجاہد کے خلاف ان کے ہی کچھ مصاحب انگریزوں کے آلہ کار بن گئے اور اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے علمبردار کے خلاف ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو ان کی سازش اس طرح کامیاب ہوئی کہ سلطان نے گیڈر کی سوسالہ زندگی پر شیر کی طرح لڑتے ہوئے موت کو گلے لگالیا۔
جواب دیں