تعزیتی کلمات بر وفات محمد اسماعیل چڈوباپا شاہ بندری

ہنستا ہوا نورانی چہرہ 
از : نعمان اکرمی ندوی

رفیق فکرو خبر بھٹکل 

اندھیر ے موت کے ان کو مٹا نہ پائیں گے       وہ زندگی کے اجالے چراغ چھوڑ گیا 
جمعرات کی صبح صادق ، ماہِ ولادت باسعادت ربیع الاول کا آغاز ، حسبِ معمول اذانِ فجر کے لیے اٹھا تو خلافِ معمول سرہانے ایک مدھم سی روشنی نے چونکادیا ، ہڑ بڑا کر عینک اٹھانا چاہا تو پانی کا گلاس اچھل کر گرا ، اُدھر قالین آب آب ہوگیا تو موبائل سے اُٹھنے والی مدھم سی روشنی نے ایک غم افروز پیام سنا دیا، جس نے طبیعت کو اتنا مضمحل کردیا کہ جماعتِ فجر کی امامت فوت ہوگئ ، خاموشی سے آنسو کے ایک قطرہ نے ہماری دونوں آنکھوں کے کناروں کو تجاوز کیا اور خاموش ساعتوں میں کھڑی کی ٹک ٹک کی طرح ٹپ ٹپ ٹپکنے لگا، مشیتِ ایزدی  کے آگے سرِ تسلیم خم کیا ، دعائے مغفرت کی ، پھر ہمارے دونوں ہاتھ تھے اور گردن پر گراں بار سر ، جو یادوں کے نقوش کے بوجھ سے ڈھلک رہا تھا ، ہمارے محترم دوست اسماعیل چڈوباپا شاہ بندری کی وفات کی خبر سے دل بلک رہا تھا ، غم وافسوس کی شدت سے احسا س کا جوالہ بھڑک رہا تھا ، پچیس سالوں پر محیط دوستی کے نقوش ، ہماری یادوں کے بیاض میں اس طرح نقش ہیں کہ وہ کبھی مٹ نہیں سکیں گے ، ایک ایسی شخصیت، جن کی سرشت صافی، دل آئینہ ، طبیعت مخیر ، سینہ شفاف ، ہاتھوں کے سخی ، سیر چشم ،ہونٹ  خندہ ، پیشانی فرخندہ  اور ہنستا ہوا نورانی چہرہ ، ہر ایک کے لیے دل عزیز تھی ، ہر بار ملئے صد ہا مسکراہٹیں پائیے ، خوش باش ، ہشاش ، ہر وقت ہر گھڑی رخ و رخسار پر پر ہنسی اور خوشی کا احساس رکھنے والے اسماعیل بھائی آج  ہمارے درمیان نہیں  رہے ۔ ہماری دبئی کی ملازمت کے اس طویلِ عرصۂ حیات میں ان کی خوبصورت نقرئی اور سیمیں یادوں کے اجالے کو ان کی موت کے غم وحسرت کے دھندلکے ختم نہیں کرپائیں گے۔ چڈوباپا اسماعیل بھائی سماج اور معاشرہ میں جہاں رہے ممتاز رہے ، اپنی اک جداگانہ شان سے رہے ، دبئی میں جماعت کے پروگراموں میں ان کی ایک الگ ہی شا ن رہتی تھی ، نظریں انہیں ڈھونڈنے کی محتاج نہ تھی ، وہ لوگوں کے درمیان خود بخود نظر آتے ، خصوصاً عید ملن اور مشاعروں میں ایک خوشبو بن کر بکھر جاتے کہ محفل میں شرکت کرنے والا ہر شخص ان کی خندہ پیشانیوں کے بوسے لے کر اور عطر یزیوں سے مشامِ جان و دل کو محظوظ کرکے داخل ہوتا ، انہیں ہر جگہ امتیاز حاصل تھا ، اس لیے یقیناً وہ  عزت واحترام کے قابل تھا ، دبئی سے بھٹکل قیام پذیر ہونے کے بعد بھی قوم ووطن کی خدمتوں میں تن من دھن سے لگے رہے ، سماج اور معاشرہ سے جڑے رہے ، محبتیں اور چاہتیں بانٹتے رہے ، ہمارا بھی بھٹکل جانا ہوتا تو ان سے عام ملاقاتیں ہوتیں خصوصاً مسجد امام ابوحنیفہ کے احاطے میں ان سے گفتگو ہوتی ، انتہائی نرم وگداز لہجہ میں بات کرتے ، کبھی اونچی آواز میں بولتے نہ سنا ، کبھی محفلوں اور اسٹیج پر دھومیں مچاتے نہ دیکھا ، کبھی تلخ وترش کہتے نہ پایا ، اور نہ کبھی خفگی اور ناراضگی میں رہتے ملا،عجیب شخص تھا ، وہ نفرتوں کو مٹانے سے زیادہ محبتو ں کو بانٹنے پر اپنی توائی خرچ کرتا تھا ۔ وہ چاہتوں کو تقسیم کرکے اپنوں اور بیگانوں کا اعتماد حاصل کرنے کا ہنر جانتا تھا ، وہ نیک تھا نیک خو تھا ، بہتر سے بہترین تھا ، خوب سے خوب تر تھا ، خوب رو بھی اور خوب سیرت بھی تھا ، وہ اپنے گھر کا ہی بڑا نہ تھا ، سارے محلہ کا بڑا تھا ، اور تمام خوبیوں کے باوجود بڑوں میں چھوٹا اور چھوٹوں کے درمیان بڑا بھائی بن کر رہا ، وہ ہمارے بھی بڑے تھے، انکی اور ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جتنی محبت اردو زبان و ادب  اور شعر و سخن سے کرتے تھے اس سے کہیں ذیادہ اپنی مادری زبان نوائطی کو بھی چاہتے تھے، لھذا وہ ہمیشہ نوائطی زبان و ثقافت سے تمام جلسے جلوسوں میں پیش پیش رہے، جماعت اور اجتماعیت اور قوم و وطن سے انکی بے پناہ محبت، بے لوث جذبئہ خدمت اور خلوص و للہیت نے اج انہیں امر کردیا ہے، وہ ہمیں بھی جماعت سے جڑے رہنے کی تلقین کرتے ، ہمارے فن کو سراہتے ، مزید لکھنے کی ترغیب دیتے ، آج ان کے اہلِ خانہ اور پسماندگان  کے ساتھ ہم بھی سوگوار ہیں اور لائقِ تعزیت بھی ، اللہ ان کے پس ماندگان کے ساتھ ہم حلقۂ یارانِ اسماعیل بھاؤ کو صبرِ جمیل عطا کرے ۔ 
 ادارہ فکروخبر بھٹکل کی طرف سے تعزیت قبول کریں، اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔  آمین 
انا للہ وانا الیہ راجعون

«
»

ملک کے موجودہ حالات میں گاندھی جی اور ان کے افکار کی اہمیت

علم و تحقیق کے سالار تھے مولانا سید جلال الدین عمری ؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے