منجانب : سید ہاشم نظام ایس ایم ندوی (ایڈیٹر)
صدر و ایڈیٹر اورجملہ رفقاء ادارہ فکروخبر بھٹکل
بخدمت محترم اساتذۂ کرام اور جملہ ذمہ دارانِ جامعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
مؤرخہ12/ ذو القعدہ سنہ 1441 مطابق 4/ جولائی 2020 عیسوی بروز سنیچر یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ خطہئ کوکن کے مشہور و معروف عالمِ دین اور مہتمم جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن، مہاراشٹر حضرت مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی اس دارِ فانی سے چل بسے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا کی وفات کی خبر سن کر یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ مولانا اتنا جلد اچانک ہم سب کو داغِ مفارقت دے جائیں گے لیکن اللہ تعالی کے فیصلوں میں جو حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں، ان کا علم صرف اسی کو ہے۔
مولانا علیہ الرحمۃ کو بھٹکل اور اہلِ بھٹکل سے جو گہرا تعلق تھا، اس کی ایک بنیادی وجہ یہاں پر موجود جنوبی ہند کی عظیم درسگاہ جامعہ اسلامیہ تھی، دونوں اداروں کے مابین علمی، تعلیمی اور ثقافتی تعلقات کا آغاز سابق مہتممِ جامعہ حضرت مولانا عبد الباری صاحب ندوی رحمۃ اللہ اور ان کے رفقائے کار کے ذریعہ ہوا تھا، ان شاء اللہ اس کی تفصیلات مستقل مضمون کی شکل میں قلمبند کرنے کا ارادہ ہے۔
اسی جامعہ اسلامیہ کے طفیل ہی فارغینِ جامعہ کے قائم کردہ اکثر اداروں سے کسی نہ کسی حد تک مولانا واقف تھے، جن میں سے ایک ''ادارہ فکروخبر بھٹکل '' بھی ہے۔ مولانا علیہ الرحمۃ کو ہمارے اس ادارہ سے بھی ربطِ خاص تھا، سینکڑوں کلو میٹر کی دوری پر واقع بستی میں مقیم ہونے کے باوجود آپ فکروخبر بھٹکل کی خدمات سے پوری طرح واقف تھے، جس کا حقیقی اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب فکروخبر کا ایک وفد بانکوٹ میں منعقدہ پروگرام کو نشر کرنے کی غرض سے جس میں ادارے کے معاون مدیر اداری مولانا سید اظہر برماور ندوی اور رفیقِ فکر وخبر جناب نوید مصباح صاحب موجود تھے، تلوجہ میں مجمع الامام الشافعی العالمی کی پہلی فقہی کانفرنس سے واپسی پر شریوردھن پہنچا، حسنِ اتفاق سے وفد کا قیام ایک دن جامعہ ہی میں تھا۔ اس موقع پر مولانا نے ہمارے وفد سے بات کرنے کے لئے اپنا قیمتی وقت فارغ فرمایا، تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک فکروخبر کی خدمات اور اس کی سرگرمیوں اور موجودہ حالات اور خطرات پر گفتگو ہوئی۔ جس میں مولانا نے اسلامی صحافت کو موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے ہمیں اس میدان میں مستقبل میں مزید آگے بڑھنے کے لئے مختلف مشوروں سے نوازا۔
الحمدللہ جب ادارہ کے تحت چلنے والے '' فقہ شافعی '' کے شعبے کی بات آئی تو مولانا نے جس قدر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعاؤں اور نیک خواہشات سے نوازا تھا، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اس کا تعلق اس مجلس کے مشاہدہ سے تھا۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ عزیزی مفتی فیاض احمد محمود برمارے کے توسط سے اس کی تفصیلات ہمیں آ موصول ہوتی رہتی ہیں، وہ خود کئی ایک مسائل میں ہم سے اور یہاں پر قائم دار الافتاء سے مربوط رہتے ہیں۔ مولانا نے کام کو مزید مستحکم کرنے کے سلسلہ میں ہمیں ایک مرتب لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھنے پر زور دیا۔ اس ملاقات کے بعد ہمیں اندازہ ہوا تھا کہ مولانا محترم کی شخصیت دعوتی مزاج کی حامل ہے، وہ ہر وقت اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے کی جانے والی ہر کوشش کو سراہتے،کام کرنے والوں کی ہمت افزائی کرتے اور انھیں خوب دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ اب خصوصاً مولانا کے انتقال کے بعد آپ کی جو خدمات سامنے آرہی ہیں، اس کے بعد اس نتیجہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ کس طرح مولانا نے دینی اور دعوتی میدان میں کام کیا ہے، بالخصوص جامعہ حسینیہ عربیہ کو اتنی بلندی تک پہنچانے میں مولانا کی خدمات سنہرے حروف میں رقم کی جائیں گی۔
ہم مولانا کے انتقال پر جملہ پسماندگان و متعلقین اور جامعہ حسینیہ کے ذمہ داران سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ حضرت مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور امت کو خصوصاً اہلیانِ کوکن کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
تاریخ: 07 جولائی 2020
جواب دیں