توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے
سےّد الانبیاء وسےّد البشر کی شان میں گستاخی قبول نہیں
توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
۱۱ اگست ۰۲۰۲ء کو بنگلور کے ڈی جے ھلّی، پلی کیشی نگر کے کانگریسی ایم ایل اے ”اکھنڈا سری نواس مورتھی“ کے قریبی رشتے دار ”پی نوین“ نے فیسبوک پر آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انتہائی غلاظت پر مبنی پوسٹ کی تھی۔ اس سے قبل بھی اس نے کئی مرتبہ ایک طبقہ کے لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے لئے غلط میسیج پوسٹ کئے تھے مگر وقت پر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں پی نوین کی پوسٹ کے خلاف علاقے کے مسلمانوں میں سخت غم و غصہ کا پھیلنا فطری بات ہے کیونکہ سارے دنیا جانتی ہے کہ مسلمان اپنے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شان میں ادنی سی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ کسی بھی مذہب کے لوگ اپنے پیشواؤں کے خلاف اس نوعیت کی پوسٹ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ اس سے قبل بھی سید البشر ونبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ کلمات کہے گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ اس طرح کے واقعات سے ملک میں امن وامان کے بجائے افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا، جس سے ملک میں ترقی کے بجائے عدم استحکام پیدا ہوگا، لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوگی۔
۵۲ اکتوبر ۸۱۰۲ء کو یوروپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے تاریخ ساز فیصلہ میں پوری دنیا کو بتایا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے نبی کی شان میں توہین آمیز بات کہنا یا لکھنا آزادی رائے نہیں، بلکہ اس سے لوگوں میں نفرت وعداوت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے واقعات سے دنیا میں امن وامان کے بجائے عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ ہی ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر میں لاکھوں انسانوں کا دین اسلام قبول کرنا صرف اور صرف اُن کادین اسلام کو پسند کرنے کی وجہ سے تھا، کوئی زور زبردستی اُن کے ساتھ نہیں تھی۔ دین اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی درخشاں روایات قائم کی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺکے سامنے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپﷺ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ صحابہئ کرام نے پوچھا کہ غیر مسلم کے لیے ایسا احترام کیوں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟ (بخاری) لیکن جس طرح مذہب اسلام میں دیگر مذاہب کے پیشواؤں کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے، اُسی طرح پور ی انسانیت کے نبی حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں ہے خواہ اُس کا مرتکب مسلم ہو یا غیر مسلم۔ مسلمان اپنے نبی کے احترام کے ساتھ دیگر انبیاء کرام کا مکمل احترام کرتا ہے بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کسی بھی شخص کے کامل مؤمن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ دیگر انبیاء کرام پر بھی ایمان لائے، جبکہ دیگر آسمانی کتابوں کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کی مذہبی تعلیمات کے مطابق حضرت محمد ﷺ کو نبی ماننے پر اُن کے مذہب سے ہی نکل جاتا ہے۔
اس سے قبل ہولینڈ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شخصیت سے متعلق کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کرنا چاہتا تھا لیکن مسلمانوں کے پر امن احتجاج کے بعد اسے اپنے فیصلے سے رجوع کرنا پڑا۔ مذہب اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس نوعیت کا کوئی عمل کرنا تو درکنار اس کا ارادہ کرنا بھی غلط ہے، چنانچہ ایک مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو عیسائی حضرات اپنا پیشوا مانتے ہیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام جنہیں یہودی اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں، کہ اُن کے متعلق کوئی غلط بات بھی اُن کی طرف منسوب کی جائے چنانچہ عملی طور پر پوری دنیا میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ جس میں کسی مسلمان نے مسیحی یا یہودیوں کے پیشوا کی شان میں گستاخی کی ہو۔ جو واقعات بھی وقتاً فوقتاً پیش آتے ہیں وہ صرف اور صرف آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق آتے ہیں، لہٰذا عالمی برادری کو چاہئے کہ توہین رسالت کے مرتکبین کی سزا کے لیے سخت قانون بنائے تاکہ اظہار رائے کے نام پر حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کا سلسلہ بند ہو۔
پوری دنیا کے ارباب علم ودانش کا موقف ہے کہ کسی شخص کی توہین وتحقیر کا رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ تقریباً ہر ملک میں شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کہ وہ اپنی ہتک عزت کی صورت میں عدالت سے رجوع کریں اور ہتک عزت کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دلوائیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی شخص کی ہتک عزت کرنے والے کو قانوناً مجرم تسلیم کیا جاتا ہے، تو مذاہب کے پیشواؤں اور خاص طور پر انبیاء کرام کے لئے یہ حق کیوں تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔ اور مذہبی رہنماؤں کی توہین وتحقیر کو رائے کی آزادی کہہ کر جرائم کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں کیسے شامل کیا جارہا ہے؟ یہ آزادی رائے نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام مخالف تنظیموں اور حکومتوں کی انتہاپسندی اور فکری دہشت گردی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کی ہی دعوت دی ہے۔
پوری امت مسلمہ متفق ہے اور دیگر مذاہب بھی اس کی تایید کرتے ہیں کہ حضرات انبیاء کرام کی توہین وتحقیر سنگین ترین جرم ہے۔ اس لئے کہ اس میں مذہبی پیشواؤں کی توہین کے ساتھ ساتھ ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے جرائم بھی شامل ہوجاتے ہیں، جس سے اس جرم کی سنگینی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ قرآن وسنت اور دیگر مذاہب میں اس کی سزا موت ہی بیان کی گئی ہے کیونکہ اس سے کم سزا میں نہ حضرات انبیاء کرام کے احترام کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے کروڑوں پیروکاروں کے مذہبی جذبات کی جائز حد تک تسکین ہوپاتی ہے۔ ہاں یہ بات مسلم ہے کہ موت کی سزا دینے کا اختیار صرف حکومت وقت کو ہی حاصل ہے کیونکہ عام آدمی کے قانون کو ہاتھ میں لینے سے معاشرہ میں لاقانونیت اور افراتفری کو ہی فروغ ملے گا۔ لہٰذا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ توہین وتحقیر کے عمل کو سنگین جرم قرار دے کر مجرموں کے خلاف ضروری کاروائی کرے۔
پوری انسانیت کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مسلمان کے دل میں حضور اکرم ﷺ کی محبت دنیا کی ہرچیز سے زیادہ ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کا حضور اکرم ﷺ اور آپ کی سنتوں سے محبت کرنا لازم اور ضروری ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں ایسی اوصاف حمیدہ بیک وقت موجود تھیں جو آج تک نہ کسی انسان کی زندگی میں موجود رہی ہیں اور نہ ہی ان اوصاف حمیدہ سے متصف کوئی شخص اس دنیا میں آئے گا۔ آپ کی چند صفات یہ ہیں: عجز وانکساری، عفو ودرگزر، ہمسایوں کا خیال، لوگوں کی خدمت، بچوں پر شفقت،خواتین کا احترام، جانوروں پر رحم، عدل وانصاف، غلام اور یتیم کا خیال، شجاعت وبہادری، استقامت، زہد وقناعت، صفاء معاملات، سلام میں پہل، سخاوت وفیاضی اور مہمان نوازی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اپنے بچوں، اپنے ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر! اب بات ہوئی۔ (صحیح بخاری)
دنیا کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر میں تمام مسلمانوں سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں لائیں اور آپ ﷺ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے میں اپنی صلاحتیں لگائیں۔ نبی بنائے جانے سے لے کر وفات تک آپ ﷺکو بے شمار تکلیفیں دی گئیں۔ آپﷺ کے اوپر اونٹنی کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ آپ ﷺ کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا۔ آپ ﷺ کو کاہن،جادوگر اور مجنوں کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔ آپ ﷺ کی بیٹیوں کو طلاق دی گئی۔ آپﷺ کا تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپﷺ پر پتھر برسائے گئے۔ آپ ﷺ کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ آپ ﷺ غزوہئ احد کے موقع پر زخمی کئے گئے۔ آپ ﷺ کوزہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ آپ ﷺ نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ ﷺ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے۔ آپ ﷺ کے گھر میں دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلا۔ آپ ﷺ کے اوپر پتھر کی چٹان گراکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا آپ ﷺ کی ساری اولاد کی آپﷺ کے سامنے وفات ہوئی۔ غرضیکہ سید الانبیاء وسید البشر کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ ہمیں ان واقعات سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)
جواب دیں