تعصب – مہلک نفسیاتی بیماری __

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ

اللہ رب العزت نے انسان کو ایک مرد وعورت سے پیدا کیا اور تعارف کے لیے خاندان اور قبائل بنائے، لیکن برتری اورعظمت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، سوائے تقویٰ کے ، یعنی تقویٰ معیار فضیلت ہے، دوسری کوئی چیز قابل اعتنا نہیں ہے ،  اللہ رب العزت نے اکرام بنی آدم کا اعلان کیا  اور انسانوں کی تخلیق کو’’ احسن تقویم‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں سب سے اچھی شکل وصورت والا،سے تعبیر کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، یعنی انسانی معاملات میں کسی اور بنیاد پر تفریق کی گنجائش نہیں ہے، مساوات کی اسی بنیاد پر حضرت بلال حبشی ؒ مؤذن رسول بن گیے، اور فاطمہ بنت قیس سے چوری کا عمل سر زد ہوا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر فاطمہ بنت محمد ؐ  بھی ہوتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا، بعض موقعوں پر جب اپنے اپنے قبیلے کو لوگ آواز دینے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاہلی پُکار قرار دیا اور اس پر نکیر فرمائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں مذکور ہے، جس میں انہوں نے اسے شیطان کے عمل سے تعبیر کیا ہے ۔ اللہ رب العزت نے اس قسم کے تعصب پر قابو رکھنے کے لیے اعلان کر دیا کہ تمام ایمان والے بھائی بھائی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد جو مواخاۃ کو رواج دیا اور مہاجر وانصار کے درمیان مثالی اخوت قائم فرمائی، وہ انہیں احکام کا عملی مظہر تھا۔تمام قسم کی عصبیت کو ختم کرنے کے لیے ہی اسلام نے یہ واضح کیا کہ اس کائنات کا رب، رب العالمین اور الٰہ العٰلمین ہے، اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو رحمۃ للعالمین ہیں اور اللہ رب العزت کی آخری کتاب قرآن کریم ہے جو ھُدی للعٰلمین ہے، یعنی ذات، برادری، علاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں جو کچھ ہے سارے جہاں کے لیے ہے، اور سب کے لیے ہے۔

تعصب  ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس کی وجہ سے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے، اور وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔اس کے باوجود مسلم سماج میں تعصب نے اس قدر جگہ بنالی ہے کہ ہم اس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہوتے، اپنے خاندان، اپنے علاقے، اپنی برادری، اپنی زبان ، اپنی مادر علمی وغیرہ سے محبت فطری ہے اور یہ محبت مذموم بھی نہیں ہے، مکہ اور کعبۃ اللہ سے جو محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی ، اسی وجہ سے تو تحویل قبلہ کے لیے بار بار آسمان کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا کرتے تھے، معلوم ہوا کہ اس طرح کی فطری بنیاد کو ختم نہیں کیا جا سکتا،اسی لیے اپنے قوم کو عزیز رکھنے کوعصبیت نہیں قرار دیا گیا، عصبیت اپنے قوم کی بے جا طرفداری اور بے جا حمایت کا نام ہے۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنے قوم وجماعت کی ظلم وزیادتی کے معاملہ میں مدد کرے، صرف اپنے خاندان ، قبیلے ، ذات برادری ، علاقے کو فیصلے کی بنیاد بنانا، اپنے لوگ ظالم پر ہوں اس کے باوجود ان کا تعاون کرنا،بے جا رعایت ، طرفداری، بے جا حمایت، حقیقت ظاہر ہوجانے کے بعد بھی حق بات سے انکار اور صرف اس بنیاد پر عہدے تفویض کرنا ، ترقی دینا یہ تعصب ہے اور شریعت کی نظر میں مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے اور اس قدر نا پسندیدہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تعصب پر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا،اور وہ ہم میں سے نہیں ہے ، ارشاد فرمایا ؛ وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جنگ کرے اور نہ وہ ہم میں سے ہے جو عصبیت پر مرے، اس وعید کا تقاضہ ہے کہ ہم لازما ان بنیادوں پر کوئی فیصلے نہ لیں، بلکہ انصاف کریں، خواہ وہ اپنی ذات، اپنے والدین ، اپنے عزیز واقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو نا انصافی پر نہ ابھارے، انصاف کیا کرو، کیوں کہ یہ تقویٰ سے قریب ہے۔

 ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے دوسرے احکام شرعیہ کی طرح اس حکم کو بھی فراموش کر دیا، اب ہمارے تعلق اور فیصلہ کی بنیاد میرا بھائی، میرا خاندان ، میرا ضلع، میرے لوگ ، میرا علاقہ، میرے معتقدین ، میرے فدائین ہیں، صلاحیتوں کا اعتبار نہیں، تعلقات کا اعتبار ہے، جس کی وجہ سے ملکی سیاست سے لے کر ادارے، تنظیموں، جماعتوں اور جمیعتوں تک میں بہت سارے فیصلے تعصب کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، وہ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں، جنہوں نے ملک وملت کے لیے کچھ نہیں کیا ہوتا ہے، بس ان کی صلاحیت یہ ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ ذمہ دار کے علاقے کے ہیں، یا ان کے بھائی اور رشتہ دار ہیں، اس کے نتیجہ میں ہوتا یہ ہے کہ اسپ تازی تو پالان سے مجروح ہوجاتا ہے اور طوق زریں گدھوں کے گلے کی زینت بن جاتا ہے۔بے ساختہ یہاں پر حافظ شیرازی یاد آگیے۔

ابلہاں را ہمہ شربت زگلاب وقنداست

قوت ِدانا ہمہ از خون جگر می بینم

اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالان

طوق ’’زریں‘‘ ہمہ بر گردن ’’خر‘‘ می بینم

خاندانی اور علاقائی تعصب کے علاوہ لسانی تعصب نے بھی ہمارے درمیان جگہ بنالیا ہے، اس حوالہ سے بھی مختلف علاقوںمیں جنگ وجدل کا بازار گرم رہا ہے،مادر علمی کے حوالہ سے بھی تعصب بڑھتا جارہا ہے، مختلف اداروں کے فارغین نے الگ الگ تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں، ان میں بھی دوسرے اداروں پر طنز وتعریض کا بازار گرم ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر اپنی اہمیت اور بر تری ثابت کرنے کے لیے وہ سب کر گذراجاتا ہے، جس سے اسلام نے منع کیا ہے ، یہی حال برادرانہ تعصب کا ہے، چھوٹی ذات، بڑی ذات کے جھگڑے عام ہیں، حالاں کہ اسلام نے جو مساوات کا سبق ہمیں پڑھایا ہے اس کی روشنی میں نہ کوئی طبقہ اشراف سے ہے اور نہ کوئی طبقہ ارذال ۔ یہ انتہائی بیہودہ تقسیم ہے جو اسلام کے لیے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے، یہاں پر کچھ لوگوں کا ذہن شادی بیاہ میں کفائت کی طرف منتقل ہوتا ہے، شریعت دین داری میں کفائت کا مطالبہ کرتی ہے، بقیہ شادی کرنے والی لڑکی اورعورت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ زندگی صحیح ڈھنگ سے گذارنے کے لیے میچنگ دیکھ لیں تاکہ زن وشو کے درمیان محبت والفت کا تعلق بر قرار رہے، کفائت کی بنیاد اشراف وارذال نہیں ہے، اور یہ کسی طرح بھی شریعت کی منشا ئِ مساوات کے خلاف نہیں ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تو مسجدوں کے نام بھی ذات برادری کے نام پر رکھے جانے لگے اور بعض علاقوں میں خود میرا مشاہدہ ہے کہ قبرستان تک میں تعصب برتا جاتا ہے، اور بڑی ذات کے لوگوں کے قبرستان الگ اورجنہیں چھوٹی ذات کہا جاتا ہے اس کے قبرستان الگ ہیں، ایک شہر میں دیکھا کہ جو مقامی آبادی ہے اس کا قبرستان الگ ہے اور جو لوگ اس شہر میں باہر سے آکر بسے، ان کا قبرستان الگ ہے، یہ باہر کے لوگ مقامی آبادی والے قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتے۔

 عصبیت چاہے جس قسم کی بھی ہو اس کے بڑے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، بندوں کے جو حقوق ہیں اس کی ادائیگی میں قصدا کوتاہی ہونے لگتی ہے، ظلم کا دروازہ کھلتا ہے اور نا انصافی عام ہوجاتی ہے، بڑوں کو چھوٹا اور اپنے کو حقدار ثابت کرنے کے لئے دوسرے سے حسد، بغض، ایک دوسرے کی ٹوہ اور غیبت کی ایسی گرم بازاری ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ ، غیبت کی اس مجلس میں دوسرے پر الزام تراشی، بہتان وغیرہ لگا کر اپنے کو برتر اور دوسرے کو ارذل، ناکارہ اور نکما ثابت کرنے پر توانائی لگائی جاتی ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر وہ اپنے کو مطلوبہ عہدہ کا حق دار ثابت نہیں کر سکتا، تعصب کے شکار ایسے شخص کو اگر کسی کے لاشے سے گذر کر اپنی برتری ثابت کرنی ہو تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرتا، غیبت تو خود ہی اپنے مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کی طرح ہے، مرے ہوئے بھائی کا مطلب تو لاشہ ہی ہوتا ہے، اوچھی اور گھنونی حرکت کے نتیجے میں بڑے چھوٹے کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، اور ظاہر ہے یہ فتنہ وفساد کے نئے دروازے کھولتا ہے۔

تعصب کی جو قسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں ان میں ایک مسلکی تعصب ہے، فروعی مسائل میں جزوی اختلافات کو بنیاد بنا کر جو تعصب پیدا کیا گیا ہے اس نے ہمارے کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو سخت نقصان پہونچا یا ہے مسلمان فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو ایک امت بنایا تھا، لیکن ہم تقسیم ہوتے چلے گیے، ملکی اور سماجی منظر نامہ میں سیاسی تعصب نے بھی انسانوں کو بانٹنے کا کام کیا ہے اور اب جب کہ سیاست میں کرسی کی اہمیت زیادہ ہو گئی اور نظریات پس پشت چلے گیے ہیںتو ہندو توا کے تعصب نے رواج پا لیا او رآج جو پورے ہندوستان میں نفرت کی کاشت ہو رہی ہے وہ اسی تعصب کا نتیجہ ہے۔ علاقائی تعصب بھی ، عصبیت کی بد ترین قسم ہے، کون کس علاقہ کا ہے اس بنیاد پر بھی فیصلے ہمارے یہاں عام ہیں، علاقائی تعصب کا دائرہ ریاست سے شروع  ہو کر ، ضلع، بلاک ، گاؤں اور خاندان تک پہونچ جاتا ہے، اب تو اس تعصب کا دائرہ دریا کے اُس پار، اِس پار تک پھیل گیا ہے ۔ عصبیت جس قسم کی بھی ہو، نسلی ہو یا لسانی، طبقاتی ہو یا مذہبی ، علاقائی ہو یا جماعتی مہلک نفسیاتی بیماری ہے جس شخص میں ایسا تعصب پیدا ہوجاتا ہے اس کی جسمانی موت چاہے نہ ہو، لیکن روحانی ، ایمانی اور اخلاقی موت ہوجاتی ہے، وہ اس زمین پر چلتا پھر تا ہنستا ، بولتا ہے، لیکن حقیقتا وہ ایک لاش ہوتا ہے، جس سے عصبیت کی بدبو آتی رہتی ہے۔اسی لیے میں نے اسے مہلک نفسیاتی بیماری کہاہے ۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

بھارت چھوڑو تحریک اوربھارت چھوڑو نعرے کاخالق یوسف مہر علی

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت و اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے