تعصب وتنگ نظری کا قول وفعل سے مقابلہ کیا جائے

اور ان رسموں کو انجام دینے والے انہیں خوش نصیبی اور خوش حالی کے علامت سمجھ کر انجام دیتے ہیں پھر بھی اکثر ہوتا یہ ہے کہ ان رسومات کے ساتھ سمندر میں اتارا گیا ہمارا کوئی جہاز حادثہ کا شکار بن جاتا ہے یا خلاء میں چھوڑا ہوا کوئی سیارہ زمین چھوڑتے ہی خلیج بنگال میں جاگرتا ہے تو بھی کچھ ایسے سر پھرے ہیں جو کہتے ہیں کہ راکٹ کا تجربہ تو ہم نے ’’ویدک‘‘ کے عہدہ میں ہی کرلیاتھا۔
ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو افرادی صلاحیت کے اشتراک، ایثار اور محبت سے تعمیر ہونے والے ڈیموں اور کارخانوں کو جدید ہندوستان کے مندروں سے تعبیر کیا کرتے تھے لیکن ان کے وارثوں نے ہر اچھے کام کے آغاز کے لئے سادھو سنتوں کے آشیرواد اور باباؤں کی لاتوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اس طرح کی رجعت پرستی کو مذہب پرستی اور اس طرز فکر کو وطن سے محبت کا نام دے دیاگیا ہے حالانکہ وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں فراخدلی اور مذہبی رواداری جیسی ہندوستانی قدروں کو اپنایا اور تعصب وفرقہ پرستی کو ٹھکرادیا جائے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ کبیر ، نانک اور چشتی کی روایات کو تو فراموش کیاجارہا ہے۔ گنپتی اور شیوجی کے اتسو دھوم دھام سے منائے جارہے ہیں، عوام کے لئے مہاتماگاندھی،مولانا ابوالکلام آزاد ، نہرو جی اور راجہ رام موہن رائے تو بھولی بسری یادیں بن گئے ہیں ان کے بجائے تلسی داس کی ’’رامائن‘‘ کے کردار رام اور بجرنگ بلی کو تقلید کی حیثیت دی جارہی ہے اور اس کام میں وہ ذرائع ابلاغ بھی پوری سرگرمی سے شریک ہیں جن کا کام علم کی اشاعت کرنا ، انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے عوام کو قریب لانا اور روشن فکر ونظر کو ابھارنا ہے لیکن ان تمام اقدامات کو نظر انداز کرکے وہ رجعت پرستی کو خوب ہوا دے رہے ہیں خاص طور پر ٹیلی ویژن پر رامائن، مہابھارت ، بھارت کی کھتا اور ویدرچناؤں کے ذریعہ جو کچھ لوگوں کو بتایاگیاہے اس سے فرقہ پرستی کی لہر کافی گہری ہوگئی ہے اور ایسے رسم ورواج کو توقیر ملی ہے جن سے جدید ہندوستان کا دور رہنا ہی مفید تھا۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی ’’سرسوتی وندنا‘‘ اور ’’وندے ماترم‘‘ ترانے ہیں جس کا گانا کئی ریاستوں کے سرکاری اسکولوں میں لازم کردیاگیا تھا۔ اور اب بھی مدھیہ پردیش کے کئی اسکولوں میں ’’وندے ماترم‘‘ گایا جاتا ہے جبکہ یہ ایک طرح کی پوجا ہے اور اسلام میں خدا کے سوا کسی کو پوجا کی اجازت نہیں، سوریہ نمسکار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسلام کے اسی ’’نظریہ توحید‘‘ کا لحاظ کرکے اعلیٰ عدالتوں نے آزادی کے فوراً بعد مذکورہ نغمے کو اسکولوں میں گانے پر پابندی عائد کردی تھی، کیرل میں بھی ایک مقدمہ کا فیصلہ تقریباً یہی ہوا تھا۔
لیکن جیسے جیسے ہمارا ملک آزادی اور جمہوریت کی شاہرہ پر آگے بڑھ رہا ہے اس کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں میں رواداری، خیرسگالی اور سیکولر فکر ونظر پنپنے کے بجائے تنگ نظری، مذہبی شدت پسندی اور تعصب بڑھ رہا ہے جس پر صدق دلی سے قابو پانے کی کوشش نہیں ہوئی تو یہ ملک کی آزادی اور جمہوریت کے لئے بھی خطرہ بن سکتاہے .

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے