ایسے وقت میں دور جدید کے نیروز کہیں اور دیکھ رہے تھے ۔ فسادی اور لٹیروں کے ہاتھوں میں قانون و انصاف مکھیاں بن جاتا ہے۔ جب فصیل ہی فصل کو نگلنا شروع کرتی ہے تو قانون و انصاف ، نظم و ضبط اور سچائی کے زندہ رہنے کیلئے کسی بھی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ عوامی مفاد و تحفظ صرف شہداء کی ایک یادگار بن جاتا ہے۔‘‘
ظہیرہ شیخ ایک واحد چشم دید گواہ تھی ، جب اسکے خاندان کے علاوہ بے سہارا عورتیں اور بچوں کے خوفناک قتل کے معاملہ میں ٹرائل کورٹ نے ۲۰۰۳ .ء کے ایک فیصلہ میں تمام ملزمین کو بری کر دیا تھا ۔ لہٰذا ظہیرہ شیخ نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے دروازہ پر دستک دی تھی کہ اسے طاقتور سیاسی افراد نے ملزمین کے تعلق سے گواہی دینے سے روکے رکھا تھا۔ یہ گھِناونا قتلِ عام ، مہاتما گاندھی جو امن و شانتی کے پجاری تھے ، انکی ہی جنم بھومی پر ہوا تھا ۔ مہاتما گاندھی کے اصولوں کے خلاف جو قتل عام ہوا وہ پورے سماج کیلئے لعنت تھا۔ مجرمین کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ، نہ ہی تشدّد اور ظلم و زیادتی کسی مذہب کی بنیاد پر برپا ہوتی ہے ۔ اس کا دارومدار صرف بد نیتی اور مجرمانا جذبات کی پاداش کی بناء پر ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر تشدّد کرتے ہیں وہ دہشت گردوں/ آتنکوادیوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام تر الفاظ فاضل سپریم کورٹ نے گجرات سے باہر ٹرائل کے تعلق سے ظہیرہ شیخ معاملہ میں کچھ اسطرح کہیں ہیں ۔ جہاں سپریم کورٹ نے گجرات ہائی کورٹ کی کوتاہیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے آخر میں اس معاملہ کو دوبارہ ریاست مہاراشٹر میں چلائے جانے کا حکم دیاتھا۔
متذکرہ معاملہ میں فاضل سپریم کورٹ کے جسٹس دُریّا سوامی راجو اور جسٹس اریجیت پسایت نے امن و انصاف جو اسلام کا ایک خاص پیغام ہے اس کو قانون کی زبان میں بیان کیا ہے ۔ دونوں فاضل جسٹس تو کلمہ گو نہیں تھے پھر بھی انھوں نے بیسٹ بیکری اور معصوم بچوں نیز بے یارومددگار عورتوں کے قتل عام کے تعلق سے اور قصداً گناہگاروں کو تحفظ دینے کے معاملہ میں بالخصوص جب ملک میں بی جے پی کی حکومت تھی اور جس وقت مودی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اس وقت اہل اقتدار کو جدید نیروز کہہ کر پکارا تھا ۔ کیوں ؟ نیرو بادشاہ کون تھا ؟ اسکی حقیقت کیا تھی؟ کیوں کسی ظلم سے رو گردانی کرنے کے معاملہ میں بطور تمثیل نیرو کا خطاب دیا جاتا ہے ؟ کاش کہ تماشا گر سلمان انٹرنیٹ سے یا ویکی پیڈیا سے معلومات حاصل کر کے پھر متذکرہ کیس کو بطور خود مطالعہ کر لیتا تو یہ کلمہ گو تماشاگر بلا تحقیق ہرگز یہ نہ کہتا کہ گر چہ مودی اس کیلئے ذمہ دار نہیں تو وہ معافی کیوں مانگے؟ اور اگر وہ ذمہ دار ہے تو پھر کورٹ نے اسے کلین چٹ کیوں دی ہے ؟ ہندوستان کے کسی اور فساد کے تعلق سے کسی حکومت کو نیرو کی تمثیل نہیں دی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہیکہ یہ کتنا بہیمانہ سانحہ تھا ۔ ظفر سریس والا صاحب سے مودبانہ گذارش ہیکہ جیسے کہ بقول وہ روزآنہ (تماشا گر کے والد) سلیم جو مودی کو آیتیں پڑھکر سناتے ہیں وہ سورۃ حجرات کا ترجمہ پڑھکر اپنے تماشاگر بیٹے کو بھی سنائے اور سمجھائے تا کہ وہ جان لے کہ فسق فجور کے دور میں تحقیق کتنی اہمیت کی حامل ہے ۔
کہا جاتا ہیکہ گجرات فساد میں رونگھٹے کھڑے کر دینے والی قتل غارتگری ، زنا، لوٹ کھسوٹ ، آگزنی کے واقعات کے متاثرین میں معصوم بچے ، نوجوان لڑکیاں ، بوڑھی عورتیں اور مرد سب تھے ۔ یہ سب بلاشبہ مہاتما گاندھی کی پوتر پاون جنم بھومی پر ہوا تھا ۔ بہتر ہو گا کہ ہمارا یہ تماشاگر اروندھتی رائے ، آشیش کھیتان گجرات کے سابق پولس ڈی آئے جی ، ایس بی شریواس ، ایڈوکیٹ مہر دیسائی ، تیستا سیتلواڑ ، شبنم ہاشمی ، رام پنیانی جیسے ملک ہند کے معزز سیکیولر اشخاص سے پوچھے بشرط کہ یہ معزز انسان اس سے ملنا پسند کریں ۔ یہ تماشاگر اگر بالخصوص ذکیہ جعفری سے قتل گارتگری کا آنکھوں دیکھا حال سنے گا تو وہ رونے کی انتہا کی حد تک بلبلا کر روئے گا یا اس کے گھر کے تمام کمروں کی شراب کی بوتلیں ختم ہونے کے بعد وہ شراب کی بوتلیں توڑتا رہیگا۔ مودی کے تعلق سے گجرات کی ترقی کا ڈھنڈورا کوئی گانے والی یا تعلیمی دوکان چلانے والے چھوٹے دوکاندار یا بیوپاری صاحبان نیز ایسے کھلاڑی نے بھی کیا ہے جنھیں شاید یہ بھروسہ تھا کہ نعوذ باﷲ خدا نہیں بلکہ مودی ہی انھیں اپنے مقام پر قائم رکھے گا۔ ایک عابد وزاہد فرشتہ جس نے خدا کی نافرمانی کی تو ابلیس /شیطان / لعین کہلایا جس کے نتیجہ میں جب بھی اس کا نام آتا ہے تو ہر مسلمان اس پر لاحول پڑھتا ہے نہ کہ گانے والیوں، تعلیمی دوکان چلانے والوں اور تماشاگرکی طرح اسکی عبادت اور زہد کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ لیکن تماشاگر سلمان تمہیں نہ کوئی اسکول کالج چلانا ہے نہ ہی تمہیں اپنی صلاحیت کے علاوہ دوسروں کی محتاجی گوارا ہے، پھر کیوں تم نے بلا تحقیق مودی کی تعریف ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہوئے اسے کلین چٹ دے دی ہے جبکہ ابھی تو سپریم کورٹ کا مرحلہ باقی ہے۔
موقع و مناسبت سے یہ بتاتا چلوں کہ آج ہی راقم الحروف کے موبائیل پر Whatsapp کے ذریعے ایک ویڈیو کلپ آئی ہے جسمیں فلمایا گیا ہیکہ ایک نوجوان تماشا گر سویمنگ پُل کے پاس آرام کرسی پر سویا ہوا ہے اسکی آنکھیں بند ہیں اور ایک کتّے کا بچہ باقاعدہ اسکے منہ میں منہ ڈال کر اس تماشا گر کے دانت اور زبان چانٹ رہا ہے لیکن تماشا گر کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے ۔ اس پر اس کے سامنے کھڑی ہوئی ایک تماشا گرنی ہنس رہی ہے ۔ ویسے یہ بات آج کل روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ کچھ تماشاگر تو روپئے پیسے اور سستی شہرت کیلئے خود کے منہ میں کتّے کا منہ ڈلواکر چانٹ لینے کے سین سے بدترین شاٹ بھی دے سکتے ہیں ۔ زی چوبیس تاس ٹی وی چینل کے اینکر نے اکھلیش یادو سے بات چیت کے دوران ۲۴ جنوری ۲۰۱۴ .ء کو کہا ہے ، ’’سلمان کا کہنا ہیکہ وہ پیسوں کیلئے سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس پر اکھلیش یادو نے کہا کہ وہ پیسہ لیتا ہے لیکن چیریٹی پر لگاتا ہے ‘‘ بیشک تم چیریٹی کیلئے پیسے جمع کرو کیونکہ تماشاگر ، تم وقت کے مزاج سے واقف نہیں ہو ۔ ہو سکتا ہے وقت کا بدلے مزاج اور تمہارے ہی چیریٹی ٹرسٹ کے تم محتاج رہو۔ اگر پیسوں کیلئے نہیں تو ہو سکتا ہے مودی اور تمہاری کیمیسٹری ملتی ہو لہٰذا تم اپنے ہم کیمیسٹری بھائی کو سیاسی عروج پر دیکھنا چاہتے ہو یا اپنی فلم کے پرموشن کیلئے تم نے یہ گھٹیا حرکت کی ہو یا پھر عین ممکن ہیکہ گجرات کے بہیمانا فساد کی تاریخ سے تم واقف ہو گئے ہو اسلئے شاید طنزیا یہ کہنا چاہتے ہو کہ ’’ مودی کو صرف معافی کیوں مانگنا چاہئے ؟ اتنی چھوٹی سزا اس کیلئے ناکافی ہے ، اسے تو سرِ عام دم نکلنے تک تختہ دار پر لٹکا دینا چاہئے۔ ‘‘
ملک ہند کا قانون کہتا ہیکہ کسی بھی فیصلہ سے ۹۹ قصوروار بری ہو جائے کوئی حرکت نہیں لیکن ایک بھی بے قصور کو سزا نہیں ہونا چاہئے۔ کورٹ کچیری میں عموماً گواہوں کے بیانات ، ان پر بیت رہے حالات اور وکلا ء کی پیروکاری کا انداز نیز وکلا ء و جج صاحبان کی ذہنیت ان تمام باتوں پر کسی کو قصوروار یا کسی کو بے قصور ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن جو ہم ننگی آنکھ سے دیکھتے ہیں، سنتے ہیں مستند طریقے سے ہمیں اطلاع ہوتی ہیکہ فلاں فلاں شخص گناہ کا مرتکب ہے تو ہم اسے گناہگار ہی کہتے ہیں اس پر لعنت و ملامت ہی بھیجتے ہیں ، وہاں کوئی بھی ذی ہوش یا ذی شعور آدمی کسی گناہگار کی کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں ہرگز ہرگز تعریف نہیں کرتا ہے ۔
آئیے ہم اور آپ جدید نیروز کی تمثیل جان لیں ۔ جو معلومات یہاں قلمبند ہے وہ سب آپکو انٹرنیٹ ، ویکی پیڈیا پر مل سکتی ہے ۔ نیرو یہ آخری رومن شہنشاہ تھا ۔ اس کی بربریت کی یہ انتہا تھی کہ رات کے اندھیرے میں روشنی حاصل کرنے کیلئے اس نے عیسائیوں کو جلایا تھا ۔ نیرو کی ماں اپنے بیٹے کو تخت پر بیٹھانے کیلئے کسی بھی قسم کا گناہ کرنے کیلئے ذہن بنا بیٹھی تھی ۔ اس کے تعلق سے کہا جاتا ہیکہ ، روم ، جو اس کے خود کا ملک تھا ، وہ جب جل رہا تھا تب وہ خود تماشہ بین کا رول ادا کر رہا تھا۔ کہا جاتا ہیکہ وہ ملک روم کے ایک بلند ٹاور پر کھڑے رہ کر جلتے ہوئے روم کے شعلوں کو دیکھکر گیت گا رہا تھا۔ اسکا دور اقتدار ۵۴ .ء تا ۶۸ .ء یعنی ۱۴ سال کا عرصہ تھا ۔ دور اقتدار کے آخری یعنی ۱۴ ویں سال اسے اپنی ذلالت ، بربریت اور لاقانونیت کے صلہ میں اپنے ہی گھر میں خود کشی کرنی پڑی تھی وغیرہ وغیرہ ۔ نیرو کی سوانح حیات پڑھنے کے بعد آپکو یہ اندازہ ہو گا کہ فاضل سپریم کورٹ نے مودی کی ریاستی حکومت کو جدید نیروز کی تمثیل سے کیوں نوازا ہے۔
فلمی دنیا میں آج فنکاروں کے ساتھ ساتھ چند تماشا گر شامل ہو گئے ہیں ۔ فنکار اور تماشا گر میں یہ فرق ہوتا ہیکہ فنکار اپنے مزاج مرتبہ اور اپنی خاندانی تہذیب کو پیش نظر رکھتے ہوئے شاٹ دیتا ہے برخلاف اس کے تماشاگر ڈائریکٹر کی مرضی ، روپیہ پیسہ اور سستی شہرت کے پیش نظر شاٹ دیتا ہے ۔ تماشاگر کو اپنی شہرت ٹکائے رکھنے کیلئے آئے دن کسی نہ کسی اشیو کو پیدا کر کے کچھ دن میڈیا میں زندہ رہنا ان کیلئے نہایت ہی ضروری ہوتا ہے ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب تماشاگر کو یہ احساس ہوتا ہے کہ شہرت میں کوئی اور آگے اس سے بازی لے جا رہا ہے۔ یہ بات اس ملک کا ہر شہری جانتا ہے اسلئے وہ ایک تماشاگر کے کہنے پر ہرگز ہرگز رات کو دن نہیں کہے گا۔
جواب دیں