تسلیمہ نسرین کا قرآن اور اسلام پر سب سے بڑا بہتان

صرف اظہار آزادی کی تعلیم دینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ا س کو جاننا ہو گا وہ کونسی منترا (mantra ) ہے جو دہشت گردوں کو ہتھیار اٹھانے پر ترغیب و ترتیب دیتی ہے ۔ لہٰذا وہ اصول اور نظریات جو غیر عقلی عقیدے کے طور پر بچوں کو گھر یا مدرسوں میں پڑھائے یا سکھائے جاتے ہیں ان کو عقلیت پسندی اور سائنٹیفک انداز سے تعلیم دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اچھے اور برے کو سمجھ سکیں اور صحیح اور غلط کی تمیز کر سکیں ۔ آخر میں محترمہ نے اپنا فیصلہ سنایا کہ وہ اس بات پر یقین کامل رکھتی ہیں کہ جب تک اسلام کی اصلاح (Reform ) اور جدت کاری ( modenised ) نہیں کیا جاتا ہے دہشت گردی کا خاتمہ ہر گز نہیں ہو سکتا ۔
جن لوگوں نے چارلی ہ ہیبڈوجیسے اشتعال انگیز رسالے کی شکایت کی ہے محترمہ نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ کسی کو بھی شکایت کرنے کا حق نہیں ہے جبکہ چارلی ہیبڈو کو اشتعال انگیزی پھیلانے کا پورا حق ہے ۔ اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کو قتل کردینے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔محترمہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آج بہت سارے لوگ چارلی ہیبڈو کے ساتھ کھڑے ہیں اور دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں مگر یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں اسلام کی تعبیر و تشریح ،بیان و روایت ( version ) مذہب کی اصلی روح سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ اصلی اسلام کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کی ہر گز نہ تعلیم دیتا ہے نہ اجازت دیتا ہے۔محترمہ اسلام کی امن پسند تعلیمات و احکامات کو رد کرتے ہوئے ثبوت کے طور پر فرماتی ہیں کہ قرآن کئی سورتوں میں مثلاً البقراء ، النساء ، ا لاَنفال ، التوبہ ایسے لوگوں کو قتل کرنے پر زور دیتی ہیں جو اسلام پر یقین و ایمان نہیں رکھتے ۔ محترمہ تسلیمہ نسرین نے اپنے مضمون ٹائمز آف انڈیا میں بہت ساری لنترانیاں کی ہیں جو انتہائی غلط اور گمراہ کن ہیں ۔
مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ چارلی ہیبڈو نے اپنے کارٹونوں کے ذریعہ کسی کو بھی بخشا نہیں ہے خواہ مذہبی شخصیت ہو ، علماء ہوں یا سیاستداں ۔اس نے عیسائیت ، یہودیت اور اسلام کا یکساں مذاق اڑایا ہے ۔ حضرت محمد ؐ کو اپنے مذاق کا نشانہ بنایا ہے ۔محترمہ کی یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ چارلی ہیبڈونے ابتک عیسائیت کا کبھی بھی مذاق نہیں اڑایا ۔ ایک بار چارلی ہیبڈو کے میگزین کے ایک کارٹونسٹ مورس سینٹ Mauris Sinet نے یہودیت کا مذاق اڑایا تھا جسکی پاداش میں اسے کورٹ تک گھسیٹا گیا اور اسکے ایڈیٹر نے جب سینٹ سے کہا کہ’’ تم معافی مانگ لو تب اس نے جواب دیا کہ وہ کسی قیمت پر معافی نہیں مانگ سکتا ہے ‘‘اس کے اس ا صرار پر اسے میگزین سے بر طرف کر دیا گیا ۔یہ خبر پیرس سے ہنری سیمول نے لندن کو بھیجی تھی جو لندن کے مشہور روزنامہ ٹیلیگراف میں ۲۷ جنوری ۲۰۰۹ ؁ء میں شائع ہو ئی تھی ۔ آج بھی کو ئی شخص چاہے تو انٹرنیٹ کے ذریعہ ٹیلیگراف لندن کے حوالے سے دیکھ سکتا ہے جسمیں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ سینٹ کہتا ہے’’ جب مجھے عدالت نے یہ سنایا کہ تم یہودیوں کے مخالف ہو تو میرا خون با لکل ٹھنڈا ہو گیا ‘‘ 
"When I heard that I was being treated as anti-Semitic

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے