مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مسلمانوں کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ خود ظلم کرنے سے بچا رہے؛ بلکہ اپنی طاقت بھر ظلم کو روکنا اور انسانیت کو نا انصافی سے بچانا بھی ضروری ہے؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کسی برائی کا چرچا، اس کا ذکر، اس کو پھیلانا اور لوگوں تک پہنچانا ایک گناہ اور ناپسندیدہ عمل ہے؛ اسی لئے لوگوں کی کمزوریوں پر پردہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؛ لیکن اس سے ایک صورت مستثنیٰ ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی انسان پر ظلم کیا جائے تو اس کو اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے، نہ یہ کہ انسان اپنے ہونٹوں پر مہر لگا لے اور مظلوم کو ظالم کے حوالے کر دے کہ وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے، کرے؛ کیوں کہ اس سے ظالم کے ہاتھ لمبے ہوتے چلے جاتے ہیں، اور مظلوموں کی مظلومیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے۔‘‘ (النساء:۱۴۸) اللہ تعالیٰ بری بات کو بآواز بلند کہنے اور پھیلانے کو پسند نہیں کرتے ہیں، سوائے اس کے کہ کسی پر ظلم کیا جائے، اس کو اپنی آواز بلند کرنی چاہئے۔ ظلم کبھی افراد واشخاص کی طرف سے پیش آتا ہے اور کبھی حکومت کی طرف سے، اگر حکومت ظالمانہ رویہ اختیار کرے تو اس کے خلاف آواز اُٹھانا اور زیادہ اہم ہے؛ کیوں کہ حکومتیں ہوتی ہی ہیں امن وامان اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لئے، اگر وہی آمادۂ ظلم ہو جائیں تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے چوکیدار خود چوری کرنے لگے۔ یہ ظلم بھی ہے اور اپنے فریضہ سے کوتاہی بھی۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں پر یا ملک کے کسی بھی گروہ پر ظلم ہو تو مسلمان قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور امن وامان کا خیال رکھتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں اور اس سے راہ فرار اختیار نہ کریں؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہاد کی سب سے افضل شکل یہ ہے کہ ظالم حکمراں کے سامنے انصاف اور سچائی کی بات پیش کی جائے۔(مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۱۱۴۳) اور اگر ظالموں کو آئینہ دکھانے اور ان کے پنجے تھامنے میں صبروآزمائش کے مرحلے سے گزرنا پڑے تو اسے برداشت کیا جائے کہ یہ انبیاء کرام اور خود رسول اللہ ﷺ کا شیوہ رہا ہے، اگر اللہ چاہتے تو انبیاء کے قدسی گروہ کو ابتلاؤں اور آزمائشوں سے گزارا نہ جاتااور تکلیفوں نیز مشقتوں کی بھٹیوں میں اللہ کی طرف سے انہیں تپایا نہ گیا ہوتا۔
مومن کا شیوہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ظلم کے سامنے سر جھکاتا چلا جائے؛ بلکہ اس سے یہ کردار مطلوب ہے کہ جو لوگ امن وانصاف پر قائم ہوں، ان کے لئے تو وہ ریشم سے زیادہ نرم ہو، اور جو لوگ ظلم وجور پر کمر بستہ ہوں، ان کے لئے وہ شمشیر برہنہ ہو، اس راہ میں اگر اسے انگاروں پر چلنا پڑے تو یہ بھی اس کے لئے پھولوں کی سیج ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے دین، اپنی عزت و آبرو اور اپنے مال واسباب کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۶۵۲
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ رہا ہے کہ آپؐ کسی ظلم کو دور کرنے کے لئے سماج کے تمام طبقوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے، مکہ مکرمہ میں نبی بنائے جانے سے پہلے کچھ لوگوں نے انصاف قائم کرنے اور ظلم کو روکنے کے لئے ’’ حلف الفضول‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ مکہ میں اس تنظیم کی بڑی اہمیت تھی؛ کیوں کہ وہاں نہ کوئی گورنمنٹ تھی، نہ عدالت تھی، نہ پولیس اور فوج کا شعبہ تھا، وہاں اس تنظیم کی حیثیت سخت تاریک رات میں اُمید کے ایک چراغ کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری دلچسپی کے ساتھ اس میں شریک ہوئے، اور بعد کو جب مکہ فتح ہوگیا، مسلمان غالب آگئے، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی مجھے اس کام کی طرف دعوت دے تو میں لبیک کہوں گا۔ مسند بزار، حدیث نمبر: ۱۰۲۴
مسلمانوں نے جب اپنا گھر بار چھوڑ کر مکہ سے ہجرت کی اور اپنے دین کو بچانے کے لئے غریب الوطنی کو برداشت کر لیا، تب بھی اہل مکہ کی آتشِ غضب بجھ نہ پائی اور وہ بار بار مدینہ پر یلغار کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع سے اس کا احساس تھا؛ اس لئے آپ نے مدینہ کے یہودیوں کو ساتھ لیتے ہوئے منصوبہ بندی کی کہ اگر اہل مکہ حملہ کریں تو ہم سب مل کر دفاع کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے کئی غیر مسلم قبائل سے معاہدہ فرمایا، اور ان کو اپنا حلیف بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ مقصد یہی تھا کہ اہل مکہ کے مظالم کو روکا جائے، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں برادران وطن کو ساتھ لے کر حکومت کے ظالمانہ اقدامات کو روکنا چاہئے۔ ابھی شہریت بل کے سلسلہ میں ملک کے انصاف پسند لوگوں، دانشوروں، تعلیم گاہوں میں پڑھنے والے طلباء وطالبات اور سیاسی قائدین نے جس حوصلہ کے ساتھ احتجاج کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے، اللہ تعالیٰ انہیں بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ بحیثیت مسلمان کسی بھی ظالمانہ قانون کے خلاف آواز اُٹھانا ہمارا شرعی فریضہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ سامنے آگیا کہ ایسے کاموں میں برادران دین کے ساتھ ساتھ برادران وطن کو بھی ساتھ لینا چاہئے تو آئیے اس پس منظر میں قانون شہریت میں ہونے والی ترمیم اور ممکنہ طور پر آئندہ آنے والے این آر سی کے بارے میں غور کیا جائے۔
ملک کے تمام انصاف پسند شہری کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون نامنصفانہ اور سیکولر اقدار کے خلاف ہے؛ اس لئے کہ یہ ایک غیر دستوری قانون ہے۔ جن لوگوں نے بھی یہ بات کہی ہے، ان کی بات صد فیصد درست ہے۔ دستور ہند کا ایک حصہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے، یہ ہمارے دستور کی روح ہے اور پارلیمنٹ کو بھی اس کے خلاف قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کی دفعہ ۱۴؍ کے مطابق ملک کی تمام اکائیوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جائے گا، کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی، اور دفعہ ۱۵؍ اس کو مزید واضح کرتی ہے کہ مذہب یا کسی اور وجہ سے ملک کے دو شہریوں یا شہریوں کے دو گروہوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔
اب اس قانون کو دیکھئے۔ حکومت کے دعویٰ کے مطابق یہ پڑوسی ملکوں کی مظلوم اقلیتوں کو پناہ دینے کے لئے ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے دائرہ کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش تک محدود کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ہندوستان ایک سپر طاقت کی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے، اور اگر ایسا ہو جائے تو یقیناً ہم سب کے لئے خوشی اور فخر کی بات ہوگی؛ لیکن دُنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں دنیا بھر کے مظلوموں کو پناہ دی جاتی ہے، اور صرف ان کو نہیں جو مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے ہوں؛ بلکہ ایسے مظلوموں سے زیادہ تعداد سیاسی مظلومین کی ہے، تو اگر حکومت مظلوموں کا درد محسوس کرتی ہے تو اس کو پڑوسیوں تک محدود کرنے کے کیا معنیٰ ہیں؟ اور اگر پڑوسیوں ہی کی فکر کرنی ہے تو نیپال، سری لنکا، برما اور بھوٹان کی مظلوم اقلیتوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؛ حالاں کہ جتنے مظالم برما کے بنگلہ بولنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں پر ہوئے ہیں، یا سری لنکا کے تمل ہندو اور مسلم اس کا شکار ہوئے ہیں، افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مظلوم ان کے مقابلہ بہت کم ہیں، اور ان کے ساتھ اس درجہ کے مظالم غالباً روا نہیں رکھے گئے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش سے جو لوگ آئے، ۱۹۷۱ء میں خود ہمارے ملک نے ان کو آنے کی اجازت بلکہ دعوت دی۔ افغانستان کی سرحد ہمارے ملک سے نہیں ملتی ہے، ہمارا ملک خود طالبان کے ابھرنے کے بعد سے افغانی مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ موجودہ پاکستان کے شہریوں نے تو ۱۹۴۷ء کے بعد ہی سے ہندوستان کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا۔ بنگلہ دیش کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت اس کی معاشی حالت ہندوستان سے بہتر ہے اور کوئی ناسمجھ بنگلہ دیشی ہی ہو گا جو اپنے ملک کو چھوڑ کر ہمارے ملک کا رُخ کرے۔ تو ایسی صورت میں یہ قانون بالکل بے معنیٰ معلوم ہوتا ہے۔ آپ جن کو روکنا چاہتے ہیں وہ یا تو آپ کے بلائے ہوئے ہیں، یا وہ خود آنا نہیں چاہتے، پھر یہ کہ افغانستان وبنگلہ دیش سے ہندوستان کے بہت ہی اچھے سفارتی تعلقات ہیں، اگر حکومت کے علم کے مطابق ان ملکوں کے لوگوں کی بڑی تعداد ہمارے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ہے تو حکومت کو چاہئے کہ ان ملکوں سے رابطہ کرے اور جن شہریوں کو وہ گھس پیٹھیا سمجھتی ہے، دلائل وشواہد کے ساتھ ان کے معاملہ کو وہاں کی حکومتوں کے سامنے رکھے؛ تاکہ آسانی کے ساتھ اس کا حل نکل آئے۔
سب سے اہم مسئلہ این آر سی کا ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو بے وطن کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں تین سطحوں پر کوشش کرنی چاہئے: اول یہ کہ این آر سی کی نوبت نہیں آئے، کئی ریاستی حکومتوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنے یہاں اسے نافذ نہیں کریں گی؛ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی اپنی ریاستوں میں اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے حکومت کو اس پر آمادہ کریں اور جہاں ضرورت ہو امن وقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور غیر مسلم بھائیوں کو ساتھ لے کر احتجاج کریں۔ اس احتجاج میں نہ کوئی خلافِ قانون کام کریں؛ تاکہ وہ قانون کی نظر میں مجرم نہ ہوں، نہ ہی سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچائیں کہ یہ اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنا ہے، اور نہ اس کو ہندو مسلم مسئلہ بننے دیں بلکہ’’ دستور بمقابلہ حکومت‘‘ کے عنوان سے اپنا کیس پیش کریں، بحمدللہ اس وقت جو اجتماع ہو رہا ہے، اس میں بڑی حد تک اس کا خیال رکھا گیا ہے؛ مگر آئندہ اور احتیاط کی ضرورت ہے؛ ورنہ بعض غیر سماجی عناصر احتجاج میں شریک ہو کر اس کے اصل مقصد ہی کو تباہ کر کے رکھ دیں گے۔
دوسرے، این آر سی کے لئے کیا شواہد معیار ہوں گے، ان کے لئے حکومت سے بات کی جائے اور ضرورت ہو تو کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ ثبوت وشواہد کے سلسلہ میں یہ بات رکھی جائے کہ جتنے ڈاکیومنٹ گورنمنٹ جاری کرتی ہے اور ان کا ویری فیکیشن کراتی ہے، ان میں سے کسی بھی دستاویز کو کافی سمجھا جائے، جیسا کہ ابھی چند دنوں پہلے ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ ووٹر آئی ڈی اور پاسپورٹ ثبوتِ شہریت کے لئے کافی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی اُٹھائی جائے کہ عرفی ناموں کے بعض الفاظ کو ایک سے زیادہ طریقہ پر انگریزی یا ہندی میں لکھا جاتا ہے، یا مسلم سماج میں اصل نام کے ساتھ عرفی نام بھی لکھے جاتے ہیں، ان کو دستاویزات میں ٹکراؤ نہ سمجھا جائے، یہ ناواقفیت کی وجہ سے ہے، اور یہ خود سرکاری عملہ کا قصور ہے۔
تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ تمام سرکاری دستاویزات کو جلد سے جلد حاصل کیا جائے اور اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہو توکی جائے، یہ کام افراد کو خود بھی کرنا چاہئے اور مسلم تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کو بھی تعاون کرنا چاہئے۔ اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ چونکہ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں اور این آر سی کی تنفیذ میں کافی اخراجات ہیں؛ اس لئے حکومت ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتی، اس طرح کی امید اُس حکومت سے رکھی جا سکتی ہے، جو حقیقت میں عوام کی خیر خواہ ہو، محب وطن ہو اور عقل سے کام لینا جانتی ہو۔ جس حکومت کا مقصد عوام کے ایک مخصوص طبقہ کو پریشان کرنا ہو، اس سے نہ انصاف کی اُمید کی جا سکتی ہے اور نہ سنجیدہ فیصلہ کی
جواب دیں