تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

غزہ پٹی میں اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت ۔ حماس کی آڑ میں سارے فلسطینیوں پر یلغار

 

 ڈاکٹر ساجد عباسی

فلسطینی کہتے ہیں کہ ہم ہجرت کرکے بہتر زندگی کے لیے فلسطین چھوڑ سکتے تھے لیکن ہم فقط مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے فلسطین نہیں چھوڑتے جو کہ مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس مقام اور قبلہ اول ہے
فرمان تعالیٰ ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ (بنی اسرائیل:1) پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا۔
قرآن میں مسجد اقصیٰ کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں آیا ہے جب رسول اللہ (ﷺ) کو ایک رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر کروایا گیا اور پھر وہاں سے آپ نے آسمانوں کا سفر کیا جس کو سفرِ معراج کہا جاتا ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی خالص عبادت کے لیے تین مراکز قائم کیے۔ ایک مرکز مکہ میں قائم کیا اور اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو وہاں پر آباد کیا۔ اپنے دوسرے بیٹے اسحٰقؑ کو ارضِ فلسطین میں متعین کیا اور اپنے بھتیجے لوطؑ کو اردن میں مامور کیا۔ حضرت یعقوبؑ نے پہلی مرتبہ ارضِ فلسطین میں عبادت کے لیے مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر کی جس کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے زمانے (۹۵۰قبل مسیح) میں اس کی تجدید کی گئی۔اسی وجہ سے یہود اس کو ہیکل سلیمانی Temple of Salomon کہتے ہیں۔ ۵۸۶ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں یروشلم پر حملہ ہوا اور بیت المقدس کو مسمار کر دیا گیا۔ بخت نصر نے بنی اسرائیل کا قتلِ عام کیا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بناکر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ ۵۳۹ق م میں فارس کے بادشاہ خورس سائرس اعظم نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو دوبارہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ ۷۰ء میں رومی جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں بیت المقدس کو دوبارہ مسمار کردیا گیا اور ایک لاکھ ۳۰ ہزار یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ اسی وقت سے یہودیوں کا دنیا میں انتشار diaspora عمل میں آیا۔ اس تباہی کے نتیجہ میں ہیکلِ سلیمانی کی صرف مغربی دیوار محفوظ رہ گئی جو آج بھی یہودیوں کا مقامِ اجتماع ہے اور ان کی گریہ وزاری کا مقام بن گئی جس کو دیوارِ گریہ wailing wall کہا جاتا ہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد ۳۳۶ عیسوی میں قسطنطینِ اعظم نے اس جگہ کلیسائے نشور تعمیر کرایا تھا۔ ۶۳۸ء میں جب حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو اس مقام پر مسجدِ اقصیٰ کو تعمیر کیا گیا جہاں نبی کریم (ﷺ) نے معراج کے سفر سے قبل انبیاء کو نماز پڑھائی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے کسی عمارت کو توڑ کر یہ مسجد تعمیر نہیں کی تھی بلکہ اس وقت یہ مقام ویران کھنڈر بنا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں یہودیوں پر یہ احسان کیا گیا کہ ان کو بیت المقدس میں داخل ہوکر عبادت کرنے کی اجازت دی، لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس میں عیسائیوں کا اصرار تھا کہ یہودیوں کو عبادت کرنے کی اجازت دی جائے لیکن ان کو یہاں آباد ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ ۶۸۸ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرۂ بیت المقدس کے اوپر ایک شاندار گنبد تعمیر کرایا جس کو قبۃ الصخرۃ dome of rock کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے نبی کریم (ﷺ) کا سفرِ معراج شروع ہوا تھا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اس کی مزید تزئین و آرائش کی تھی۔ ۱۰۹۶ء میں جب صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تو مغربی یورپ سے یروشلم پر لشکر کشی کی گئی جس کے نتیجہ میں ۱۰۹۹ء میں بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا ۔۸۸ سال بعد ۱۱۸۷ء میں صلاح الدین ایوبیؒ کی قیادت میں بیت المقدس کو دوبارہ آزاد کروایا گیا ۔اس وقت مسجدِ اقصیٰ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کرکے قبۃ الصخرہ سے صلیب اتار دی گئی۔
خلافتِ عثمانیہ کے دور میں بلاد الشام کا علاقہ جس میں فلسطین واقع تھا سلطنتِ عثمانیہ کے قبضہ میں تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت خلافتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہوچکا تھا اور جب کنٹرول برطانیہ کے ہاتھ میں آنے لگا تھا تو انگریزوں نے عربوں سے کہا کہ ان کو ترکوں کے تسلط سے آزادی دلوائی جائے گی۔ترکوں کے زوال کے بعد فلسطین میں عربوں کی ایک آزاد ریاست قائم ہوگئی ۔۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے یہودیوں کو بھی یقین دلایا تھا کہ ان کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع دیا جائے گا جس کو اعلامیہ بالفور (Balfour declaration) کہا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں کی اچھی خاصی آبادی فلسطین میں برطانیہ کی مدد سے آباد کروائی گئی۔ ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد پاس کرکے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا اور اسرائیل کے قیام کے لیے راہ ہموار کی گئی۔
برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کو فوجی مدد فراہم کرکے ۱۹۴۸ء میں یہودیوں کو زمامِ کار سونپ دی۔ ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیلی ریاست کا اعلان کیا گیا جس کو سب سے پہلے امریکہ نے اسی دن تسلیم کیا اور سوویت یونین نے تین دن کے بعد تسلیم کیا۔ اسی سال عرب اور اسرائیل کی پہلی جنگ ہوئی جس میں اسرائیل کو فتح ہوئی جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے ابتدائی منصوبے سے زیادہ زمین اسرائیل کے حصے میں آئی۔ اس واقعے کو فلسطینی ’النکبہ‘ یعنی تباہی کہتے ہیں جس میں ۷ لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑا۔ ۱۹۴۸ کی جنگ کے بعد سے جتنی بھی عرب اسرائیل جنگیں ہوئیں ان میں اسرائیل کو پہلے سے زیادہ رقبہ ملتا گیا ۔۱۹۴۹ء اور ۱۹۶۰ء کے درمیان ۱۲ لاکھ یہودی تارکینِ وطن کو لاکر بسایا گیا جس میں ہٹلر کے قتلِ عام سے بچ جانے والے یہودی بھی شامل تھے ۔۱۹۵۹ء میں یاسر عرفات کی قیادت میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کے لیے ’الفتح‘ قائم کی گئی۔ ۱۹۶۴ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا قیام عمل میں آیا جو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک عسکری تنظیم تھی۔ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے صرف چھ دنوں میں عربوں (مصر، اردن اور شام) کو بدترین شکست سے دوچار کیا اور اس عرب-اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں اسرائیل کو بہت زیادہ زمینی رقبہ پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔ اسرائیل، مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں اور جزیرہ نما سینائی کو اپنے غاصبانہ قبضہ میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسرائیل نے ۱۹۷۸ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے حصے کے طور پر جزیرہ نمائے سینائی مصر کو واپس کردیا ۔
مشرقی یروشلم میں مسجدِ اقصیٰ واقع ہے تاہم مسجدِ اقصیٰ، اس کے احاطے اور اس سے ملحق بعض عمارتوں کا کنٹرول یروشلم کے مسلم وقف کے پاس ہی رہا جو ابھی تک اس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔ ۲۱؍ اگست ۱۹۶۹ کے دن ایک آسٹریلوی یہودی نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگادی جس سے مسجد کو قابل لحاظ نقصان پہنچا۔
۶ /اکتوبر ۱۹۷۳ء میں ایک بار پھر عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ ۱۳؍ نومبر ۱۹۷۴ء میں یاسر عرفات نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ’پی ایل او‘ پر دہشت گردی کے الزام کو ختم کرنے کے لیے مسلح جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اس تقریر کو ’زیتون کی شاخ والی تقریر‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب یاسر عرفات نے امن کی راہ کو اختیار کیا اور اسرائیل کے مقابلے میں پرامن مذاکرات کے راستے کو چنا تو اس صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فلسطینیوں کو چین و سکون سے رہنے دیا جاتا لیکن اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم کو جاری رکھا۔ مسجدِ اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے کرنا، فلسطینیوں کے گھروں کو بلڈوز کرکے بیرونی یہودیوں کی آبادکاری کا عمل مسلسل جاری رہنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن کے معنی یہ ہیں کہ فلسطینی چپ چاپ اپنی جانی و مالی نقصان اور اپنی ذلت کو برداشت کرتے رہیں اور تنگ آکر سارے فلسطین اور اپنی ارض ِ مقدس سے دستبردار ہوجائیں ۔
پہلا انتفاضہ ۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ کو ہوا جو ایک حادثہ کے نتیجہ میں پیش آیا جس میں ایک یہودی آبادکار نے اپنی کار سے فلسطینی شہریوں کو روند ڈالا تھا۔ اس کے بعد ایک طویل احتجاج ہوا جس میں ۱۵۰ اسرائیلی ہلاک ہوئے اور ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ۔
پہلی انتفاضہ کے بعد ۱۹۸۷ء میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں مقامی شیخ احمد یاسین اور ان کے ساتھی عبدالعزیز رنتیسی نے حماس کے نام سے ایک تحریک قائم کی۔ یہ تحریک اس لیے قائم ہوئی کیونکہ یاسر عرفات کی قیادت پرامن رہنے کے باوجود فلسطینیوں کو امن فراہم نہ کرسکی۔ اسرائیل کا ظلم بدستور قائم رہا۔ اس تحریک نے اسرائیل کے ناجائز تسلط کو سرے سے ماننے سے انکار کردیا اور مسلح جہاد کو اسرائیلی استبداد سے آزادی حاصل کرنے کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے نزدیک اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
۱۹۹۳ء میں امریکی صدر کی نگرانی میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحق رابن اور یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔ اگلے سال یاسر عرفات نے فلسطینی نیشنل اتھاریٹی قائم کی جس کے تحت اسرائیل کو غزہ سے اور مغربی کنارے کے شہر جیریکو سے نکل جانا تھا۔ ۱۹۹۵ء میں ایک اسرائیلی انتہا پسند نے اسحق رابن کا قتل کردیا ۔
دوسرا انتفاضہ ۲۰۰۰ء سے شروع ہوتا ہے اور ۲۰۰۵ء تک جاری رہتا ہےجو پہلے سے زیادہ پرتشدد واقع ہوا۔ اس میں ۴ ہزار ۸۷۸ فلسطینی شہید ہوئے اور ایک ہزار ۶۳ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
۲۰۰۸ء کے بعد اسرائیل ہر سال غزہ پٹی پر اپنی جنگ کو مسلط کرتا رہا جس میں ہزاروں نہتے فلسطینی شہید ہوتے رہے۔ غزہ کی عمارتوں، اسکولوں اور دواخانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے حملے کے بارے میں حماس کے ترجمان خالد القدومی کے مطابق فلسطینیوں کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف یہ حملہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں ہم شہریوں پر حملہ نہیں کرتے لیکن جو آبادکار فلسطینیوں کی زمیں پر ظلم کے نتیجہ میں آباد ہوئے ہیں وہ محض شہری نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے نزدیک ظالم ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ عالمی برادری اسرائیلی مظالم کو رکوائے، مسجدِ اقصیٰ میں مداخلت نہ کرے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرے۔ اسی صورت میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
جب حماس کے ترجمان افراد سے یہ کہا جاتا ہےکہ راکٹوں کے ذریعے ابتدا حماس کی طرف سے ہوتی ہے جس سے اسرائیلی حکومت کو سو گناہ زیادہ طاقت سے جواب دینے کا جواز مل جاتا ہے تو اس کے جواب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم طویل عرصہ سے حالتِ محاصرہ میں ہیں جو کہ ناجائز ہے۔ محاصرہ کی وجہ سے اہلِ غزہ ذلت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ہم عزت و وقار کی موت کو ایسی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔
فلسطینی کہتے ہیں کہ ہم ہجرت کرکے بہتر زندگی کے لیے فلسطین چھوڑ سکتے تھے لیکن ہم فقط مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے فلسطین نہیں چھوڑتے جو کہ مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس مقام اور قبلہ اول ہے۔ اگر اسرائیل واقعی امن کا خواہاں ہوتا تو مغربی کنارہ میں مسلمانوں پر ظلم نہ ہوتا اور حماس سے بات چیت کا راستہ نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن اسرائیل کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک بھی فلسطینی کو اسرائیلی حکومت میں باعزت جینے کا حق دینا نہیں چاہتا اور مسجد اقصیٰ کو پہلی فرصت میں منہدم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
حالیہ جنگ کو جنگ نہیں کہا جاسکتا ۔یہ ایک یک طرفہ شہریوں پر یلغار ہے جس میں شہری مارے جارہے ہیں۔ یہ جنگ حماس کے خلاف نہیں ہے بلکہ غزہ کے سارے فلسطینی شہریوں کے خلاف ہے جن پر مسلسل بم برسائے جارہے ہیں۔ان کی عمارتوں، اسکولوں، مسجدوں اور ہسپتالوں کو بموں سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چھ دنوں میں چھ ہزار سے زائد بم گرائے گئے ہیں جو شاید انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ دنیا کی گنجان ترین مختصر پٹی پر اتنے بم  گرائے گئے ہوں یعنی ہر ڈیڑھ منٹ پر ایک بم گرایا جارہا ہے اور ہر بم سے ایک عمارت گرائی جارہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس غزہ پٹی کو پانی، بجلی اور تمام ضروریات سے محروم کردیا گیا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس کے بہانے سارے فلسطینیوں کو ہلاک کردے۔ اب اس نے یہ الٹی میٹم دیا ہے کہ شمالی غزہ سے شہریوں کو خالی کرادیا جائے تاکہ زمینی فوجی کارروائی کی جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ غزہ کے شہری کہاں جائیں جبکہ ان کی عمارتوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ غیبی مدد کے ذریعے مظلوموں کی مدد فرمائے جنہوں نے اسی کی مدد واستعانت کے بھروسے پر دشمن کو للکارا ہے آمین۔
عقل سے ماوراء تیرے یہ پر اسرار بندے ہیں
عجب ہے عارضی دنیا سے یہ بیزار بندے ہیں
توکل صبر استقلال کی زندہ مثالیں ہیں
نڈر بے خوف غیرت مند اور خوددار بندے ہیں

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے